مکاشفہ۔۔بنت الہدی

شب عاشور گونجتی لبیک یاحسین ع کی صداؤ ں سے نکلتی بجلی کی ایک چنگھاڑ نے میرے دماغ میں بچھی ہوئی تاروں میں اپنا کرنٹ چھوڑ دیا۔
جس سے بصارت کی تاروں میں اک ہل چل سی مچ گئی اورسماعت تو اس حد تک متاثر ہوئی کہ سن ۶۱ ہجری میں دی جانے والی صدائے العجل کانوں سے ٹکرانے لگی ۔
اس لمحے میری سماعت اور بصارت کا یہ عالم تھا کہ بیک وقت، میں دو مختلف صدیوں کو دیکھ اور سن رہی تھی۔ مگر تعجب کی بات یہ تھی کہ وہ ایک ہی منظر تھا اور ایک سی آوازیں۔۔۔ اور ایک جیسے لوگ۔

تجدیدِ عہد کے نام پر لبیک اور العجل جیسے جملوں کی زبانی تکرار کرتے ہوئے لوگ، جنہوں نے خود امام کو عریضے لکھے کہ
“ہم الہی حکومت کے منتظر ہیں جو آپ حجت خدا کے قیام سے عمل میں آئے گی، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ تشریف لائیے حق کا ساتھ دینے والے آپ کے ساتھ ہیں۔ ”

یہ لوگ ہم جیسے ہی تھے جو پوری سچائی کے ساتھ اپنی لکھی ہوئی عرضیوں پر ایمان رکھتے اور ہر سانس میں اپنے امام وقت کی محبت کا دم بھرتے۔۔۔
کہ جب ان تک خبر پہنچی تھی کہ ہزاروں کے لشکر نے امام کے مقابل صف بندی شروع کردی ہے تو یہ پریشانی کے عالم میں اپنے دسترخوان پر بیٹھے سینکے ہوئے گوشت کے ساتھ روغنی نان کھا رہے تھے پاس ہی رکھے شیشے کے ایک ظروف میں تازہ پھلوں کا مشروب تھا۔

ان میں اور ہم میں کوئی نمایا ں فرق نہ تھا  کہ ہم بھی اس لمحے ان ہی کی طرح کسی سبیل کے ساتھ لگی لمبی قطار میں کھڑے سینکے ہوئے گوشت کے ساتھ تلی ہوئی پوریاں کھا رہے تھے ۔ جہاں ساتھ ہی موجود ایک اور سبیل میں تازہ پھلوں کا مشروب تقسیم ہورہا تھا۔

ان محبین کی امام سے محبت کے دعوے کی تصدیق کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اس بات سے ہر گز بے خبر نہ تھے کہ وقت کا امام اپنے ساتھیوں کا منتظر ہے۔۔ سو انہوں نے بھی ایک لمحے کی تاخیر نہ کرتے ہوئے اپنے روغن سے تر ہاتھ سینے پر مارے اور اقرار کیا کہ امام حق پر ہیں اور ایک ڈکار لیتے ہوئے امام کو لبیک کہا۔ اور امام وقت کی حمایت اور نصرت کے لیے اللہ سے دعا کی۔
عاشقین امام جانتے تھے کہ آج کی رات امام تشنہ تھے۔۔۔ خیمہ امام سے بھوکے اور پیاسے بچوں کی العطش کی صدائیں بلند ہورہی تھیں ۔ تو انہیں بھی پانی سے بھرے ہوئے کوزوں میں پیاسے بچوں کی شبیہ دکھائی دینے لگی  ۔ جس پر عاشقین اباعبداللہ نے وہ گریہ کیا کہ ہائے پیاس کی صداؤں سے فرش ہلنے لگا۔۔۔اور لوگوں نے ایک دوسرے کو حوصلہ دیتے ہوئے فلیور ملک اور مختلف اقسام کے رنگا رنگ مشروب پیش کیے ۔

ان بابرکت تبرکات سے شکم یوں سیر ہوئے کہ صبح عاشور امام وقت استغاثہ دیتے رہے اور نصرت کا دعوی کرنے والے حامیانِ دین اپنی آرام گاہوں میں گہری نیند سوتے رہے ۔

خون ناحق کے چھینٹے جونہی ان برگر خوریدہ چہروں پر پڑے۔۔۔ یہ گہری نیند سے بیدار ہوکر نصرت امام کا مصمم ارادہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور تیزی سے دوڑتے ہوئے شہر کی مرکزی شاہراہ پر پہنچے ہی تھے کہ اک لمحے کو خیال بہکا اور اپنے اطراف میں نگاہ دوڑائی تو سبیل حسینی سے آتی ہوئی چکن تکہ اور بہاری کباب کی مہک نے دل موہ لیا ۔

اسی لمحے اپنے سامنے موجود اس ہجوم  میں  سے ایک عام آدمی کو میں نے آج کی نگاہ سے دیکھا تو وہ کوئی اور نہیں آئینے کے مقابل موجود عکس ہی تو تھا۔۔۔
جس کا گریہ و بکا رکنے کا متحمل نہ تھا۔۔
جس کے ہاتھ اس عظیم مصیبت پر سینہ پیٹتے نہ تھکتے۔۔
تبرّک کے نام پر مرغن غذاؤں ، سینکی ہوئی کباب اور تازہ گوشت کے بار بی کیوں سے شکم پُر تھا
اور مختلف ذائقوں والے دودھ کے جام سبیلوں پر میرے ہی لیے تو سجائے گئے تھے۔۔
آخر میری اپنے امام سے محبت پر شک کی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ میں بھی العجل کی صدا لگانے والوں میں سے ہوں۔۔

اس روز مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ عزاخانوں کی شان ذکر حسین علیہ سلام سے سہی، مگر انواع و اقسام کے پکوان سے مزین سبیلوں کی رونق میرے ہی دم (شکم) سے ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(عزاداری کے خلاف سازش کرنے والے کچھ بھی کہتے رہیں یہ ہے تو تبرکِ حسینی۔ ایک بھوکے اور پیاسے کی عزا کا اہتمام مزیدار اور لذیذ پکوان سے ہی ہونا چاہیے۔۔ کہ عزاداری سے حریت ملے نہ ملے خوش ذائقہ پکوان  ضرور ملنے چاہئیں ۔)

Facebook Comments

بنت الہدی
کراچی سے تعلق ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply