چینل نہیں ،میڈیا بدلیں /نذر حافی

آپ عوام میں پاکستانی اداروں کی بات کرکے دیکھیں۔ لوگ فوج، پولیس، عدلیہ، تعلیم، صحت، روزگار، تجارت، بینکاری، سیاست دان اور صحافت وغیرہ سب کے بارے میں منفی رائے ہی رکھتے ہیں۔ یہ ناامیدی اور مایوسی چھوت چھات کی مانند ایک متعدی وبا ہے۔ کبھی وقت نکالیں اور اس وبا کی جانچ پرکھ کریں۔ بچے سے لے کر بوڑھے اور سرکاری ملازم سے لے کر عام ٹھیلے والے تک ہر شخص آپ کو حالات سے مایوس نظر آئے گا۔ اپنے موٹویشنل اسپیکرز بھائیوں کی باتوں پر نہ جائیں، مایوسی اور ناامیدی کا تیار شُدہ پھندا ہماری گردن کے بالکل عین مطابق ہے۔ جب سب ہی کرپٹ ہیں تو اب اصلاح کی امید کس سے رکھی جائے۔؟ او آئی سی کے حوالے سے بھی ایسی ہی سوچ عام ہے۔ جب او آئی سی کا ادارہ ہی استعمار کا پٹھوّ ہے تو پھر اس سے کوئی اچھی امید کیسے باندھی جائے؟ پھر میرے اور آپ کے ہاتھ پاوں مارنے کا اہلِ غزہ کو کیا فائدہ ہوگا۔؟

آپ اسے مایوسی کی دلدل، ناامیدی کا پھندہ یا تاریکی کی غار کہہ لیں۔ ہمیں چار و ناچار اسی صورتحال کا سامنا ہے۔ یہ صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوگئی۔ او آئی سی یا پاکستان کے ملکی نظام سے مایوس اور ناامید ہو جانا کوئی بے جا یا غلط بات بھی نہیں، لیکن یہ مایوسی اور ناامیدی کس حد تک ہونی چاہیئے؟ کیا اس ناامیدی کی بھی کوئی مقدار مقرر کی جانی چاہیئے یا نہیں۔؟ کیا ہمارے ہاں یہ بیکراں مایوسی اور یہ بے حد ناامیدی ویسے ہی پھیل گئی ہے۔؟ درحقیقت اس کیلئے باقاعدہ کاکروج تھیوری استعمال کی گئی۔ کوئی راہِ حل بتائے بغیر روزانہ کی بنیاد پر مختلف مُلکی اداروں اور شخصیات کی منفی اور بری خبروں کا الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا نیز منبر و محراب سے مسلسل تکرار کیا گیا۔ تجزیہ و تحلیل کے بغیر بری خبروں کی تکرار اتنی کثرت سے ہوئی کہ لوگوں میں اچھائی کیلئے قیام کرنے کا جذبہ ہی مر گیا۔ برائیوں کی اتنی زیادہ تشہیر کی گئی ہے کہ گویا معاشرے میں اچھائیاں درگور ہوگئیں۔

ہمارے سیانوں نے صرف دو چیزوں پر تمرکز کئے رکھا: ایک منفی اور بُری خبروں کی تشہیر و کھوکھلی تنقید پر اور دوسرے اصلاح و تعمیر کے بجائے صرف بلند و بانگ دعووں و کھوکھلے نعروں پر۔ حالانکہ یہی پاکستان جس سے ہماری قوم کو مایوس کیا گیا ہے، اس میں آج بھی معدنی ذخائر، اصول پرست اور ہمدرد انسانوں، ہُنر مند شخصیات، باصلاحیّت جوانوں اور مخلص و باشعور افراد کی کسی بھی شعبے میں ہرگز کمی نہیں۔ بطورِ مثال او آئی سی پر بھی ایک غیر جانبدارانہ نگاہ ڈالئے۔ او آئی سی کی تمام تر خامیوں کے باوجود ایران کے صدر آیت اللہ رئیسی نے غزہ کے حوالے سے سعودی عرب میں منعقدہ کانفرنس میں پُرجوش شرکت کی۔ یہ کسی بھی ایرانی صدر کا گیارہ سال کے بعد سعودی عرب کا پہلا سفر تھا۔

ایک طرف تعلقات میں اتنی کشیدگی کہ سات سال سے سفارتخانے بھی معطل نیز سفارتی امور میں سردمہری اور کھٹائی جبکہ دوسری طرف اتنی امید کہ اس کانفرنس میں ایرانی صدر نے شرکت کے ساتھ ساتھ دور اندیشی پر مبنی خطاب بھی کیا۔ یعنی مُلکی اختلافات اپنی جگہ لیکن بہتری کی کوشش اپنی جگہ۔ صدر رئیسی کے سعودی عرب کے اس دورے سے سوائے اسرائیل کے باقی سب کو خوشی ہوئی اور نئی امید ملی۔ اس اجلاس میں سب سے زیادہ قابلِ توجہ، محبوب ترین اور پُرکشش شخصیت آیت اللہ رئیسی ہی کی تھی۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد پہلی مرتبہ عرب بادشاہوں اور ایران، دونوں کی طرف سے یہ بھرپور کوشش کی گئی کہ ماضی کے اختلافات کو بالکل ایک طرف رکھ کر اُمّتِ اسلامی کے نام پر غزہ کیلئے متحد ہوا جائے۔

اس وقت ساری دنیا، ایرانی صدر کو سُننے کی منتظر اور مشتاق تھی۔ یہ واضح ہے کہ صدر رئیسی کو ہم سے زیادہ پتہ تھا کہ عرب بادشاہوں نے اُن کا ساتھ نہیں دینا۔ اس کے باوجود انہوں نے اس پلیٹ فورم سے گفتگو کرکے دنیا کو قابض و جارح اسرائیل کے مظالم سے مزید آگاہ کیا۔ یہی وہ مناسب وقت تھا کہ پوری دنیا کو صہیونی سوچ اور مستقبل کے اسرائیلی خطرات سے آگاہ کیا جائے۔ اسی کانفرنس میں اسلامی ممالک کو ہوش میں لانے اور اسرائیل کو خطے کے استحکام کو خراب کرنے کی اجازت نہ دینے کی بات کرنے کا فائدہ تھا۔ اسی طرح مسلمانوں اور خصوصاً فلسطینیوں کو مایوسی اور ناامیدی سے نکالنے کیلئے نیز اسرائیل کے ساتھ سیاسی اور تجارتی تعلقات کے خاتمے کی خاطر موثر ترین آواز اٹھانے کا یہی موقع تھا۔

اس سے انکار نہیں کہ سعودی عرب اور اس کے چند حلیف ممالک نے کھل کر اسرائیل کے ساتھ قطع روابط و تجارت کی بات کرنے سے انکار کیا، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سعودی عرب کی میزبانی میں ستاون ممالک صرف اور صرف اسرائیل کی مخالفت کیلئے ریاض میں جمع ہوئے، یہ جمع آوری خود صہیونیوں کیلئے ایک ڈراونی حقیقت ہے۔ آج روزانہ مختلف ممالک اور براعظموں میں اسرائیل کے خلاف نفرت جنگل کی آگ کی مانند پھیل رہی ہے۔ لندن، ترکی، تیونس، آسٹریلیا، انڈونیشیا کے شہر بیکاسی اور جکارتہ، عراق، شام، ایران، سٹاک ہوم، پاکستان، سویڈن اور امریکہ الغرض جگہ جگہ لوگ اسرائیل کی مخالفت میں سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ یہ عوامی اجتماعات اور مظاہرے اسرائیل کے سیاسی، اقتصادی، جمہوری، قانونی اور بین الاقوامی اسٹریکچر کو زلزلے کے جھٹکوں کی مانند ہلا رہے ہیں، خود تل ابیب میں صہیونی حضرات بھی نیتن یاہو سے استعفے کے مطالبے کیلئے مظاہرے کر رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں برازیل کے ارکان پارلیمنٹ نے بھی “غزہ “میں اسرائیلی مظالم کی حمایت کرنے پر اپنے ایک انتہا پسند نمائندے کو پارلیمنٹ کے اجلاس سے نکال باہر کیا۔ بلاشبہ اس وقت ساری دنیا میں اسرائیل ایک درندے اور جنگی مجرم کے طور پر پہچانا جا رہا ہے۔ تل ابیب کو یہ جھٹکے اس وقت لگ رہے ہیں کہ جب اُسے بلا وقفہ عراقی، یمنی، لبنانی و فلسطینی مزاحمتی گروپوں کی جانب سے حملوں اور تباہی کا سامنا ہے۔ اب تک اسرائیل اپنے اوپر ہونے والے مزاحمتی و دفاعی اور مقاومتی حملوں کا فوجی نکتہ نظر سے کوئی جواب نہیں دے سکا۔ اب جب جنگ بندی ہوگی تو اسرائیل کا عسکری غرور، ٹیکنالوجی کا تکبر، سفارتی اثر و رسوخ، سیاسی رابطہ اور علاقائی جغرافیہ پہلے کی مانند نہیں ہوگا۔ اب معاہدے کی شرائط اور نئی سرحدوں کا تعین امریکہ و اسرائیل کے بجائے مقاومتی گروہ کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج حالات و واقعات ویسے نہیں ہیں کہ جیسے کاکروج تھیوری دکھا رہی ہے۔ ایک کے بعد ایک بُری خبر اور پھر بُری و مایوس کن خبروں سے ہی میڈیا کا بھر جانا۔ ہر طرف کاکروج ہی کاکروج۔ ہمارا مشورہ ہے کہ صرف استعماری میڈیا کی سُرخیوں پر نہ جائیں بلکہ مقاومتی میڈیا کو بھی دیکھیں۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد اپنے ٹی وی کا چینل بدلنے کے بجائے میڈیا تبدیل کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے حالات ویسے آگے نہیں بڑھ رہے، جیسے استعماری طاقتیں دکھا رہی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply