تین جماعتوں کی تاریخی کہانی (1)-حیدر جاوید سیّد

تین جماعتوں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی کہانی صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے پیدا ہوئے اختلافات کے باعث اقتدار سے محروم ہوئیں اور ریاستی جبروستم ان کا مقدر بن گیا۔ اصولی طور پر ان تینوں جماعتوں کے قیام سمیت دیگر معاملات کا تجزیہ بہت ضروری ہے۔

ہمارے بعض دوست (ان میں مظہر عباس بھی شامل ہیں) پاکستان کی سیاسی تاریخ، سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں اونچ نیچ اور دیگر امور کا تجزیہ کرتے وقت “ڈنڈی” ضرور مارتے ہیں۔

اس ڈنڈی مار پروگرام کی عمومی طور پر دو وجوہات ہیں۔ اولاً کچھ دوستوں کے دل و دماغ اور “گردوں” میں پیپلزپارٹی اور بھٹو خاندان کے لئے موجود نسلی تعصب ہے۔

جنگ جیو گروپ میں کام کرنے والوں کے لئے مالک خاندان کی خوشنودی اہمیت رکھتی ہے اس کی وجہ تنازع یا یوں کہہ لیجئے دو واقعات ہیں پہلا ذوالفقار علی بھٹو اور جنگ جیو گروپ کے بانی میر خلیل الرحمن کے درمیان بھٹو دور میں ہوا ایک مکالمہ ہے جس کا اختتام تلخی پر ہوا

(یہ مکالمہ اپنے وقت کے معروف سیاسی جریدے ہفت روزہ “الفتح” کراچی میں شائع ہوا تھا)

دوسرا آصف علی زرداری اور جنگ جیو گروپ کے موجودہ مالک میر شکیل الرحمن کے درمیان 1970ء کی دہائی میں میٹرو پول کلب کراچی میں ہوا ایک جھگڑا ہے۔

میر خلیل الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو سے دشمنی میں اتنے آگے نکل گئے کہ ان کے میڈیا ہائوس نے تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے لئے آنکھیں بچھادیں۔ فقط یہی نہیں بلکہ جب محترمہ بینظیر بھٹو کی آصف علی زرداری سے شادی ہوئی تو ان کے اخبار کے صفحہ اول پر “سواد اعظم اہلسنت” نامی ایک تنظیم کی جانب سے ایک “خیراتی” اشتہار شائع کرکے بتایا گیا کہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کا نکاح شیعہ مسلک کے تحت ہوا ہے اس لئے عوام اہل سنت خبردار رہیں۔

آپ یاد کیجئے کہ اگست 1990ء میں جب صدر غلام اسحق خان نے بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کی تو اسی سال منعقد ہونے والے عام انتخابات کے دوران پاکستان ٹیلی ویژن پر رات 9 بجے کے خبرنامے کی سیاسی خبروں میں جب محترمہ بینظیر بھٹو اور پیپلزپارٹی کا ذکر ہوتا تو خبر کے آغاز سے قبل بلاول ہائوس کراچی پر لگا ہوا علم حضرت عباس علمدارؑ دیکھایا جاتا تھا۔

اسی طرح محترمہ بینظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں جب راتوں رات سلمان رشدی کی کتاب “شیطانی آیات” کے خلاف ہنگامے پھٹوائے گئے تو ان ہنگاموں کو خونی بنانے میں مرحوم محمد صلاح الدین کے ہفت روزہ “تکبیر” کراچی کے ساتھ جنگ گروپ کا بنیادی کردار تھا۔

آصف علی زرداری کے خلاف مسٹر ٹین پرسنٹ والی پھبتی سب سے پہلے جنگ گروپ نے شائع کی۔ باتیں گھاتیں قصے اور کہانیاں اور بہت ہیں لیکن ہم تین سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے ہنی مون اور اختلافات (بقول دوستاں) پر بات کرتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو صدر سکندر مرزا کی کابینہ میں پہلی بار وفاقی وزیر بنے۔ وہ فیلڈ ارشل ایوب خان کی فوجی حکومت کی وفاقی کابینہ میں بھی شامل تھے یہی نہیں بلکہ آگے چل کر وہ ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل بنے اور صدارتی انتخابات کے دوران ایوب کے چیف پولنگ ایجنٹ بھی۔

بھٹو جب ایوب خان کی کابینہ سے وزیر خارجہ کے عہدے سے مستعفی ہوئے تو وفاقی محکمہ اطلاعات نے ذرائع ابلاغ کو پریس ریلیز کے ذریعے آگاہ کیا کہ بھٹو ناسازی طبیعت کی بدولت رخصت پر گئے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو نے راولپنڈی ریلوے سٹیشن پر کراچی روانگی سے قبل اخباری نمائندوں سے کہا میں مستعفی ہوا ہوں رخصت پر نہیں جارہا۔

وفاقی محکمہ اطلاعات نے اگلے روز بھٹو کی برطرفی کی خبر اخبارات کو بھجوائی۔

بھٹو نے پیپلزپارٹی بنائی تو انہیں سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایہ میسر نہیں تھی۔ ایوبی دور حکومت میں وہ گرفتار ہوئے تو بھٹو رہائی تحریک کی قیادت ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے کی بڑے بڑے جلسوں اور احتجاجی جلوسوں نے انہیں (اصغر خان کو) اس غلط فہمی مبں مبتلا کردیا کہ وہ مقبول عام رہنما ہیں، اسی غلط فہمی میں انہوں نے پاکستان جسٹس پارٹی بنائی جس نے آگے چگ کر تحرزیک استقلال کا نام اپنایا۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار منتقل کرنے کا فیصلہ اس وقت ہوا جب نوجوان فوجی افسروں نے جی ایچ کیو میں ڈپٹی کمانڈر انچیف جنرل عبدالحمید ملک کی تقریر کے دوران ہنگامہ برپا کردیا اس ہنگامے کو بغاوت بننے سے روکنے کے لئے سینئر فوجی قیادت نے وعدہ کیا کہ اقتدار عوام کے نمائندوں کو منتقل کردیا جائے گا۔

جنیوا میں مقیم بھٹو سے ٹیلیفون اور سفارتی ذرائع سے وطن واپسی کے لئے درخواست کی گئی وہ واپس آئے اور صدر مملکت و چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے۔

ہمارے دوست اس بات کو نظراندار کردیتے ہیں کہ اس وقت ملکی امور دوسرے فوجی آمر کمانڈر انچیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے نافذ کردہ “ایل ایف او” کے تحت چلائے جارہے تھے۔

(ایوب نے 1956ء کا آئین منسوخ کیا تھا، یحییٰ خان نے ایوب خان کا صدارتی آئین منسوخ کردیا) نظام جس قانون سے چل رہا تھا انتقال اقتدار اسی کے تحت ہونا تھا۔

بالفرض اگر ہم مان لیتے ہیں کہ بھٹو نے ایل ایف او کے تحت انتقال اقتدار کے عمل کو قبول کرکے غلط کیا تو پھر اسی ایل ایف او کے تحت ہونے والے 1970ء کے انتخابات اور بعدازاں مشرقی پاکستان میں کرائے جانے والے ضمنی انتخابات کی قانونی حیثیت کیا ہوگی جس میں نفاذ اسلام پارٹی اور جماعت اسلامی فوجی حکومت کی محبوب جماعتیں تھیں؟

صرف جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء ہی امریکی ایجنڈے کا حصہ نہیں تھا قبل ازیں بننے والا بھٹو مخالف اتحاد پاکستان قومی اتحاد بھی امریکی ایجنڈے کا حصہ تھا۔ پہلے سے موجود یو ڈی ایف نامی اتحاد کو وسعت دے کر پی این اے بنانے کے عمل کے پس پردہ ا مریکہ اور برطانیہ کے سفیر صاحبان کا کردار بہت دلچسپ ہے۔

کیا یہ محض اتفاق تھا کہ جس وقت ڈیوس روڈ لاہور پر واقع مسلم لیگ ہائوس میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا یو ڈی ایف کو وسعت دینے کے لئے اجلاس ہورہا تھا تو جنرل غلام جیلانی خان (یہ بعد میں پنجاب کے گورنر بھی بنے) امریکہ اور برطانیہ کے سفیر صاحبان شملہ پہاڑی کے پاس واقع ایک ہوٹل کی عمارت میں موجود تھے؟

قومی اتحاد نے حکومت کے خلاف تحریک چلائی حکومت اور قومی اتحاد میں مذاکرات ہوئے معاملات طے پاگئے لیکن جولائی تا ستمبر 1976ء کے ان تین مہینوں میں امریکی سفیر نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے کم و بیش چار ملاقاتیں کیں۔

ان ملاقاتوں کا ایجنڈا افغانستان اور ایران میں بدلتے حالات تھے۔ امریکہ اس امر کا خواہش مند تھاکہ پاکستان افغانستان اور ایران میں بدلتے حالات کے پیش نظر (بدلتے حالات سے مراد امریکی سی آئی اے کی وہ رپورٹس تھیں جن کے مطابق افغانستان اور ایران میں کمیونسٹ تحریکیں عوامی مقبولیت حاصل کررہی ہیں دونوں ممالک میں ہنگامہ خیز تحریکوں اور سرخ انقلاب کے خطرات ہبں) پاکستان امریکہ سے تعاون کرے۔

بظاہر یہی لگتا ہے کہ امریکی سفیر کی بھٹو سے یہ ملاقاتیں ناکام رہیں۔

اکتوبر نومبر اور دسمبر 1976ء میں امریکہ اور برطانیہ کے سفیروں نے بھٹو مخالف سیاسی جماعتوں کی قیادتوں سے تواتر کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ قومی اتحاد کی تشکیل کے لئے جب مسلم لیگ ہائوس ڈیوس روڈ لاہور پر اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہو رہا تھا عین اس وقت امریکہ اور برطانیہ کے سفیروں اور جنرل غلام جیلانی خان کا شملہ پہاڑی کے پاس واقع ایک ہوٹل کی عمارت میں موجود ہونا محض اتفاق نہیں تھا۔

1977ء کے انتخابات، دھاندلی اور پھر دھاندلی کے خلاف تحریک۔ اس تحریک کو پی این اے کے 32 نکاتی پروگرام پر منظم کیا گیا۔ پی این اے کے 32 نکات میں نظام مصطفٰیﷺ کا کہیں بھی ذکر نہیں لیکن بھٹو کے خلاف عوامی جذبات کو بھڑکانے کے لئے پی این اے کی تحریک کو “تحریک نفاذ نظام مصطفٰیﷺ” کا نام دیا گیا۔

5 جولائی 1977ء کو ملک میں مارشل لاء لگا بھٹو سمیت پیپلزپارٹی اور پی این اے کے سرکردہ رہنما گرفتار کرلئے گئے۔ مارشل لاء حکومت کے ترجمان نے ان گرفتاریوں کو حفاظتی تحویل کا نام دیا اس حفاظتی تحویل سے رہائی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو لاہور پہنچے، انہوں نے ناصر باغ (گول باغ) لاہور میں ایک عوامی جلسہ سے خطاب کیا عوام کی شرکت کے حساب سے یہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس جلسہ نے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کو یہ باور کروادیا کہ قبر ایک ہے اور بندے دو۔ بھٹو کو قبر میں سُلانے کا فیصلہ کرلیا گیا اس فیصلے میں قومی اتحاد کی وہ جماعتیں جو جنرل ضیاء کو نجات دہندہ قرار دیتی تھیں برابر کی شریک تھیں۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply