دیر آید ‘درست آید۔۔سلیم فاروقی/آخری حصہ

اس علاقے میں صرف ایک بلاک میں جہاں ، کوئلے کے کُل ذخائر کا محض ایک فیصد ہی موجود ہے، اس وقت زور و شور سے کام جاری ہے وہاں پر مقامی لوگوں کو کس طرح شریک کیا گیا ہے واقعی قابلِ رشک ہے۔ تفصیلات کے مطابق کوئلے کے ذخائر کے صرف بلاک نمبر دو ، جہاں کا ہم نے دورہ کیا اور جہاں کام زور و شور سے جاری ہے، اس کی تعمیر کے  باعث فی الحال دو مقامی آبادیاں ”سنہری درس“ اور ”تھاریو ہالیپوٹو“ متاثر ہو رہی ہیں اور ان کے بھی جو تقریباً 250 گھرانے متاثر ہو رہے ہیں ان کو معاوضے کے علاوہ متبادل رہائش کے لیے صرف زمین نہیں بلکہ ہر شادی شدہ گھرانے کو ایک مکمل تعمیر شدہ گھر جس میں دو کمرے، بیٹھک، اوطاق، باورچی خانہ، باتھ روم اور صحن شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ذخیرہ آب کے لیے زیرِزمین اور چھت پر پانی کی ٹنکی شامل ہیں، اور یہ بلا معاوضہ اس نو تعمیر شدہ گاؤں میں فراہم کیے جارہے ہیں جہاں مسجد، مندر، کمیونٹی سینٹر، سکول، ہسپتال سمیت تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں گی اور ا ن کا تعمیری کام پوری رفتار سے جاری ہے۔ اس کے علاوہ اس منصوبے میں حکومت سندھ نے اپنے حصے میں سے تین فیصد حصص بھی یہاں کے عوام کو باقاعدہ حصص سرٹیفیکیٹ کی صورت میں دیے ہیں، جن سے اندازہ ہے فی گھرانہ ماہانہ تقریباً دس ہزار روپے کی آمدنی ہوا کرے گی۔ یہ اُس دو ارب روپے سالانہ کے علاوہ ہے جو اس کوئلے کی رائلٹی کی مد میں سے یہاں کی مقامی آبادی کی فلاح و بہبود کے لیے مختص ہوں گے۔ زمین سے کوئلہ نکالنے کے دوران جو پانی حاصل ہوگا وہ ایک خاص ٹریٹمنٹ کے بعد نمکیات سے پاک کر کے یہاں کی آبادی کو نہ صرف پینے کے لیے بلکہ آبپاشی کے لیے بھی بلا معاوضہ دستیاب ہوگا۔ اور یقیناً وہ علاقہ ہے جہاں پانی مل جائے تو:”یہ مٹی بڑی زرخیز ہے صاقی“

اس کے علاوہ اس پراجیکٹ میں قانونی طور پر یہ وعدہ ہے کہ یہاں پر کام کرنے کے لیے پہلی ترجیح یہاں کے مقامی افراد کو دی جائے گی۔ ایسے میں بجا طور پر یہ ذہن میں آتا ہے کہ اس پسماندہ علاقے میں موجود عوام سوائے مٹی ڈھونے کے اور کیا کام کر سکیں گے؟ تو اس کا انتظام یہ کیا گیا ہے کہ یہاں کی مقامی آبادی کو کراچی سمیت سندھ بھر بلکہ ملک بھر کے معروف ٹیکنیکل تعلیم کے اداروں سے تربیت دلواکر ان کو یہاں ملازمت فراہم کی جارہی ہے اس وقت بھی یہاں پر کام کرنے والوں میں سے73 فیصد  مقامی افراد ہی ہیں۔ اب تک  این ایل  سی  ہیوی ڈرائیونگ انسٹی ٹیوٹ ، دینہ، سے 215 مقامی افراد کو تربیت دلوا کر یہاں بطور ڈمپر ڈرائیور روزگار فراہم کیا جا چکا ہے، یہاں یہ بات یقیناً  خوش کن ہے کہ ہر ڈرائیور کی ماہانہ آمدنی چالیس سے پچاس ہزار روپے ماہانہ ہے۔ اس میں ایک منفرد نکتہ یہ بھی ہے کہ 14مقامی خواتین کو بھی ڈمپر ڈرائیورکی  اس وقت تربیت دلوائی جارہی ہے بلکہ دو خواتین تو اپنی ملازمت شروع بھی کر چکی ہیں۔

ان کے علاوہ تقریباً 750 مقامی افراد کو پائپ فٹنگ، سٹیل فکسنگ، میسنری اور اسی قسم کے دیگر ہنر سے آراستہ کر کے یہاں ملازمت فراہم کی جاچکی ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہاں پر کام کرنے والوں میں سے 74فیصد مقامی افراد ہی ہیں۔ اور اسلام کوٹ کے اس علاقے میں آج کوئی ایسا فرد موجود نہیں ہے  جو کسی بھی قسم کا کام کرنے کے قابل ہو اور بے روزگار ہو اور اب نوبت یہ ہے کہ کمپنی  کے پاس کام تو موجود ہے لیکن مقامی افراد نایاب ہوچکے ہیں، اب یہاں پر تھرپارکر کے دوسرے علاقوں کو ملازمت فراہم کی جارہی ہے۔

یہاں پر صحت کی سہولیات کے حوالے سے جو کام ہو رہا ہے اس کے مطابق اسلام کوٹ میں انڈس ہسپتال کراچی کے تعاون سے، جو اپنی جدید طبی سہولیات اور مفت علاج کی باعث نمایاں مقام حاصل کر چکا ہے، ایک 250 بستروں کا جدید بین الاقوامی طرز کا ہسپتال ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی مالیت سے بنایا جارہا ہے۔ لیکن ہسپتال تو کہیں جاکر 2019ءمیں مکمل ہوگا فی الحال ”ماروی مدر چائلڈ کلینک“ کے نام سے کلینک چل رہا ہے جہاں ماہانہ 2000 ہزار سے زائد مقامی افراد کو دواؤں سمیت مکمل طبی سہولیات بلا معاوضہ فراہم کی جارہی ہیں، جبکہ مقامی آبادی کے سکول جانے والے سو فیصد بچوں سمیت 5500 افراد کو ہیپاٹائٹس  کی ویکسین بھی بلامعاوضہ لگانے کے علاوہ  اس  دوران  ہیپاٹائٹس بی اور سی کے جو مریض پائے گئے ان کا علاج بھی بلا معاوضہ کیا گیا۔ پلان کے مطابق متاثرہ علاقہ ”گورانو“ دسمبر 2017ء کے اختتام تک ہیپاٹائیٹس سے پاک علاقہ  ہو  جائے گا۔ اس کے علاوہ یہاں تب دق کے خلاف بھی جہاد جاری ہے۔ اس علاقے کو تھیلسیمیا سے پاک کرنے کے لیے اقدامات کے علاوہ آنکھ، جلد اور دانت کے لیے بھی جدید سہولیات بلامعاوضہ فراہم کی جائیں گی۔

اگر تعلیمی سہولیات کی بات کی جائے تو ”سٹیزن فاونڈیشن“ کے عملی تعاون سے 3سکول تعمیر کیے جاچکے ہیں اور وہاں جن میں 1000سے زائد طلبہ و طالبات اپنی تعلیمی سرگرمیاں شروع کرچکے ہیں، اس کے علاوہ 15 لاکھ ڈالر کی مالیت سے مزید 5 سکول زیرِ تعمیر ہیں۔ ان سکولوں کی کارکردگی دیکھنے کے بعد سندھ حکومت نے تجویز دی ہے کہ تعلقہ اسلام کوٹ کے500 کے قریب تمام سرکاری سکول بھی یہیں کی انتظامیہ سنبھال لے۔ یوں تھرپارکر کے تقریباً دس ہزار طلبہ و طالبات کو بالکل مفت تعلیمی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ اس تجویز پر عملدرامد کے لیے بنیادی کارروائیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے مہران یونیورسٹی میں مائیننگ کے بی ای کے تمام طلبہ کووظائف فراہم کرنے کے علاوہ تھرپارکر کے تمام طلبہ و طالبات کو وظیفہ کے علاوہ تمام تعلیمی اخراجات بھی یہی ادارہ برداشت کرے گا۔اس وقت بھی 25 تھری طلبہ داود انجنیرنگ یونیورسٹی میں کریش پروگرام کے تحت انجنیرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کو یہاں کے شعبہ انجنیرنگ میں ملازمت فراہم کی جائے گی۔ الیکٹریکل  انجنیرنگ کے شعبے میں 30 طلبہ اس کے علاوہ ہیں جن کو تین سالہ ڈپلومہ کروا کر یہاں ملازمت فراہم کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ سیلانی ویلفیر ٹرسٹ کے تعاون سے کراچی میں 50 طلبہ کو کمپیوٹر میں ویب ڈیزائیننگ، جاوا سکرپٹ، اور موبائل ایپ بنانے کی تربیت اسی پراجیکٹ کے شعبہ آئی ٹی کی زیرِ نگرانی دلوائی جارہی ہے۔

یہاں کی معاشی ترقی کے لیے 70 کروڑروپے مالیت کے سپلائی اور دیگر چھوٹے کاموں کے ٹھیکوں کے لیے بھی مقامی تھری افراد کو ترجیح دی جارہی ہے۔ جن میں سے 25 ٹھیکیداروں نے رجسٹریشن کے بعد اپنا کام شروع بھی کر دیا ہے۔ مقامی افراد کے لیے جدید ٹرانسپورٹ کی سہولیات اس کے علاوہ ہیں۔ لیکن سب سے بڑھ کر زرعی استعمال کے لیے نمکیات سے پاک صاف پانی کی بلامعاوضہ فراہمی اتنی بڑی سہولت ہے جس کے بارے میں تھر کے عوام کے لیے سوچنا بھی کسی خواب سے کم نہ تھا۔ سب سے دلچسپ اور جدید سہولت یہ کہ اس پورے علاقے میں عام افراد کو وائی فائی کی بلامعاوضہ سہولت فراہم کردی گئی ہے جس کا تما م خرچ اسی پراجیکٹ کی ذمہ داری ہے۔

یقیناً یہ سب وہ سہولیات ہیں جو اگر پہلے سے موجود دیگر معدنی و قدرتی وسائل کے علاقے کے عوام کو فراہم کی جاتیں تو شاید  آج صورت حال کچھ اور ہی ہوتی۔ لیکن چلیں اگر پہلے نہ ہوا اب سے کرلیں، وہ جو کہتے ہیں کہ دیر آید درست آید یا انگریزی کی ایک کہاوت (It is never too late) کے مطابق ”اچھے کام کی ابتداءکے لیے تاخیرکوئی بہانہ نہیں ہے!

Advertisements
julia rana solicitors london

پہلی قسط کا لنک۔۔https://www.mukaalma.com/15594

Facebook Comments

سلیم فاروقی
کالم نگار، کہانی نگار، بچوں کی کہانی نگار، صد لفظی کہانی نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply