اک تقریر جو کبھی نہ ہوسکی

میرے عزیز ہم وطنو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آج آپ کے اس خادم نے جسے آپ نے وزیر اعظم کی ذمہ داری سونپی ہے،آپ سے چند بہت ضروری اور اہم باتیں کرنے کیلیے اس تقریر کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ باتیں اور یہ امور بہت پہلے طے ہوجانے چاہئے تھے،لیکن افسوس ہم ہمیشہ تاریخ کے غلط رخ پر کھڑے کف افسوس ملتے ہیں،لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ کبھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوتی اگر انسان کچھ کرنا چاہے تو،بقول غالب
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
ملک میں جاری دہشت گردی اور انتہا پسندی کی ناسور کا الزام ہم جن پر چاہے مرضی لگالیں،حقیقت مگر یہ ہے کہ بنیادی طور پر اس کی ذمہ دار ریاست ہے۔ جسکے اقدامات مسلسل دہشت گردی کی پنیری کی آبیاری کرتے رہے۔
عزیزان وطن، جب بھی دہشت گرد عوام کے لہو سے ہولی کھیلتے ہیں عذر خواہوں کا اک ٹولہ میدان میں اترتا ہے اور بلند وبانگ درباطن ہیچ نعرے مارتا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔بنیادی طور پر یہ لوگ بھی دہشت گردوں کے سہولت کار ہیں جو ان کی ہمدری کھل کر نہیں کرسکتے تو اگر مگر کے صیغے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں کا مذہب بھی ہوتا ہے اور مخصوص بیانیہ بھی۔ وہ لوگ جو یہ نعرے لگاتے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہی ان کے پھٹنے پر جنازے پڑھتے بھی نظر آتے ہیں۔آئندہ سے ریاست ایسے سہولت کاروں کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹے گی۔یہ آہنی ہاتھ وہ نہیں جو بدنام ہے اور کبھی نظر نہیں آیا۔یہ ہاتھ اب بروئے کار آئے گا اور آپ اسے نبٹے بھی دیکھیں گے۔دہشت گردوں کے ایسے فکری سہولت کاروں کا خاتمہ ازحد ضروری ہے۔ وقت آن پہنچا ہے کہ فیصلہ کن معرکہ لڑا جائے ۔یہ جنگ شروع بھی ریاست نے کی تھی اور اسے ختم بھی ریاست ہی کرے گی۔جو لوگ دہشت گردوں کے ہمدرد ہیں ان کو اپنی وفاداری ثابت کرنی ہے تو کھل کے میدان میں اتریں۔گومگو کا وقت گزر چکا۔یہ لمحہ فیصلہ کرنے کا ہے۔آپ جنہیں ہلاشیری دیتے رہتے ہیں اب کھل کے ان کے ساتھ کھڑے ہوجائیں تاکہ آپ کا انجام بھی انہی کے ساتھ ہو۔ریاست نے اصولی فیصلہ کرلیا ہے کہ اب کسی بھی طرح کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو قطعاً برداشت نہیں کیا جائے گا۔اچھے اور برے کی تفریق وتمیز کئے بغیر ریاست اپنی رٹ منوائے گی۔جو لوگ قومی دھارے کا حصہ بننا چاہتے ہیں ان کے پاس مختصر وقت ہے کہ ہتھیار پھینک کر خود کو قانون کے حوالے کردیں۔ریاست انہیں عزت کی زندگی گزارنے کا تمام سامان فراہم کرے گی۔اس سہولت سے فائدہ نہ اٹھانے والوں کا انجام عبرتناک ہوگا۔
میں یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ ریاست نے ہمیشہ دہشت گردوں کو ’’بزدل‘‘ کہہ کر دراصل اپنی بزدلی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔جو لوگ اپنے غلط مقصد کے لئے اپنی جان تک دینے سے گریز نہیں کررہے اور ستر ہزار سے زائد لوگوں کی جانیں لے چکے وہ درندے اور وحشی تو ضرور ہیں،لیکن بزدل نہیں۔بزدل تو ہم تھے جو ہزاروں محافظوں کے جلو میں رہتے رہے اور عوام کو ان درندوں کے رحم وکرم پر چھوڑے رکھا۔ان جنگلی درندوں سے لیکن اب ریاست نے حساب چکتا کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔بلا لحاظ اچھے اور برے کے تمام دہشت گردوں کی سرکوبی کی جائے گی ۔جنت جہنم کا فیصلہ خدا کی ذات نے کرنا ہے ،لیکن انہیں خدا تک پہنچانے کا ذمہ اب ہم اٹھا رہے ہیں کیونکہ خلق خدا ان سے تنگ ہے اور یہ ملک کے لئے بھی وبال جان بنے ہوئے ہیں۔

مجھے یہ بھی اقرار ہے کہ ریاست بھی اپنے مقاصد کے لئے نجی عسکری تنظیموں کی دامے درمے اور سخنے مدد کرتی رہی ہے جس کے بھیانک نتائج نکلے ہیں۔ملک میں جاری دہشت گردی کی بنیاد میں اس مدد نے کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنے گھر میں سانپ صرف اس لئے پال نہیں سکتے کہ وہ صرف ہمارے ہمسایوں کو کاٹیں گے۔وقت پڑا تو انہوں نے اپنا زہر ہمارے جسموں میں داخل کرتے دیر نہیں لگانی۔ اور یہی ہمارے ساتھ ہوا ہے۔ہم نے ہمسایوں کو سیدھا کرنے اور اپنی تزویراتی گہرائی کے نام پر سانپ پال لئے اور اب یہ سانپ ہمیں کاٹتے پھر رہے ہیں۔ان سانپوں کو دودھ بہت پلا لیا اب ان کا سر کچلنے کا وقت آن پہنچا ہے۔پوری طاقت کے ساتھ ان کا سر کچلا جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عزیز ہم وطنو!
مجھے اس بات کے ماننے میں بھی کوئی عار نہیں ہے کہ ہماری ترجیحات میں امن کبھی رہا ہی نہیں۔دنیا ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور بجا طور پر دیکھتی ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی دہشت گردی کی واردات ہوتی ہے اس کے تانے بانے ہماری سرزمین سے جڑتے ہیں ۔یہ اس لئے ہوا کہ ہم نے اس سے نظریں چرائے رکھیں کہ ہم سمجھتے تھے یہ لوگ وقت پڑنے پر ہمارا ساتھ دیں گے۔ہم نے دہشت گرد اور انتہا پسند ی کو ایکسپورٹ کیا اور اس کے بدلے ہمیں رسوائی ملی۔اب ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم اس دلدل سے نکل آئیں گے۔ہماری پہلی ترجیح امن ہے۔ہمارے ہمسایہ ممالک کو بھی ہم سے تحفظات ہیں ۔ہم ان کے تحفظات کو دور کریں گے اور اپنی سرزمین ان کے خلاف قطعاً استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اس بات کو بھی یقینی بنائیں گے کہ ان کے سرزمین سے ہمارے خلاف اور ہمارے مفادات کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔پاکستان امن کا پیامبر بنے گا۔پاکستان صلح اور صفائی کی پہچان بنے گا۔پاکستان کو ہم محبتوں کا سفیر بنائیں گے۔انتہا پسندی اور ظلم اب ہماری نصاب کا حصہ نہیں رہ سکے گا۔اسے بہر صورت ختم ہونا ہوگا۔
میں یہ بات بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مدارس کی اصلاح ہوگی اور انہیں جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا۔کسی مدرسے کو بیرونی امداد لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔حکومت خود انہیں فنڈ کرے گی۔مدرسین کی باقاعدہ تنخواہ مقرر کی جائے گی۔طلبہ کوداخلہ دینے وقت بھی باقاعدہ ٹیسٹ اور انٹرویو ز کا سلسلہ ہوگا اور تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو حکومت وظائف دے گی اور ابعد ازاں انہیں نوکریوں وغیرہ میں بھی حصہ دیا جائے گا۔یہ مدارس وازرت مذہبی ماور کے بجائے اب وزارت تعلیم کے ماتحت ہوں گے۔
میرے عزیز ہم وطنو
ہو سکتا ہے یہ باتیں آپ کو ہوائی لگیں، لیکن آنے والے چند دنوں میں آپ ریاست کویہ جنگ ان شاء اللہ جیتتے ہوئے دیکھیں گے۔اس مقصد کے لئے تمام حکومتی ادارے یکسو ہیں۔تیاریاں مکمل ہیں۔دہشت گردوں کے گرد دائرہ تنگ تر ہوتا جارہا ہے۔باتوں کے دن ہوا ہوئے اب عمل اور عمل پیہم کا وقت ہے۔میں خود اس جنگ کو لیڈ کروں گا اور اس راہ میں جان بھی دینی پڑی تو گریز نہیں ہوگا۔ ہم نے اپنی نسلوں کو ایک محفوظ اور پر امن پاکستان دینا ہے۔اس کارخیر کے لئے آپ کا تعاون بنیادی کردار ادا کرے گا۔بہت جلد پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک نئے نظام،نظرئیے،اور مستقبل کے ساتھ طلوع ہوگا جہاں بارود کی جگہ درود کا کلچر ہوگا اور محبت کے جاوداں پھول کھلیں گے۔سب کے لئے یکساں ۔سب کے لئے محفوظ!
پاکستان پائندہ باد
(کہ خوشی سے مر نا جاتے اگر اعتبار ہوتا)

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply