• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا پاکستانی شیعہ ایران کے وفادار ہیں؟ احمد جاوید صاحب کو جواب / صدیق اکبر نقوی

کیا پاکستانی شیعہ ایران کے وفادار ہیں؟ احمد جاوید صاحب کو جواب / صدیق اکبر نقوی

”شیعہ، امامت کو نبوت اور رسالت پر فائق سمجھتے ہیں وہ امامت کی اتھارٹی کو زیادہ کمپلیٹ اور زیادہ جامع سمجھتے ہیں۔ نبوت کے مقابلے میں وہ امامت کو دنیا کے علوم میں بھی حجت سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے نبی پر فضیلت کی ایک وجہ یہ بتاتے ہیں کہ امام دنیا کے علوم میں بھی حجت ہوتا ہے۔“ گذشتہ دنوں احمد جاوید صاحب کی غزہ پر گفتگو میں یہ الفاظ سُنے۔ احمد جاوید صاحب ایک معروف صوفی مفکر ہیں جن کے دروس یوٹیوب پر موجود ہیں۔ انہوں نے اگرچہ مکتب تشیع، ان کے سیاسی افکار اور موجودہ دور میں کردار کے حوالے سے بہت سی باتیں کیں۔ لیکن میری نظر میں ان کی گفتگو میں چند ایسی غلط فہمیاں ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔

امامت کا عقیدہ

شیعہ اثنا عشریہ کا عقیدہ یہ ہے کہ امام حضرت محمد مصطفی ﷺ  کا وصی اور جانشین ہے۔ امام کا رتبہ کسی بھی صورت رسول اکرم ؐ کے رتبے سے بلند نہیں۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: انا عبد من عبید محمد (الکافی جلد ۱، ص 89): میں محمدﷺ کے غلاموں میں سے ایک غلام ہوں۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ سید المرسلین ﷺ کے وصی ہونے کی نسبت سے ہم آئمہ کی فضیلت کے قائل ہیں، جس کی ایک دلیل حضرت عیسی علیہ السلام کا امام مہدی ؑکی اقتداء میں نماز پڑھنا ہے۔ امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں:
إنَّ الله َ تبارَكَ وتعالى اتَّخَذَ إبراهيمَ عَبْداً قَبْلَ أنْ يَتَّخِذَهُ نَبِيّاً، وإنَّ اللهَ اتَّخَذَهُ نَبِيّاً قَبْلَ أنْ يَتَّخِذَهُ رَسُولاً، وإنَّ اللهَ اتَّخَذَهُ رَسُولاً قَبْلَ أنْ يَتَّخِذَهُ خَليلاً، وإنَّ اللهَ اتَّخـَذَهُ خَليلاً قَبْلَ أنْ يَجْعَلَهُ إماماً، فَلَمّا جَمَعَ لَهُ الأشيَآءَ قَالَ: إنّي جَاعِلُكَ لِلنّاسِ إمَاماً. (الکافي : ۱ / ۱۷۵ / ۲)
امام جعفرصادق ؑ:اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑکو نبی بنانے سے پہلے (اپنا)بندہ بنایا،رسول بنانے سے پہلے نبی بنایا،خلیل بنانے سے پہلے رسول بنایا اور جب یہ تمام صفات ان میں جمع ہوگئیں تو ان سے خطاب کرکے فرمایا:’’میں تمہیں لوگوں کا امام بناتا ہوں (سورہ بقرہ، آیت 124)‘‘۔
بہرحال یہ ایک تفصیلی بحث ہے جس کے لیے یہ تحریر کافی نہیں۔ مزید وضاحت کیلئے آیت اللہ شیخ محمد حسین نجفی کی کتب سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

کیا شیعہ سیاسی خطرہ ہیں؟

سیاست کا تعلق دنیا کے امور سے ہوتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کا قول ہے کہ الناس عبید الدنیا، اکثر لوگ دنیا کے بندے ہوتے ہیں۔ جب کسی گروہ کو لوگوں کے دنیاوی مفادات کیلئے خطرہ بنا کر پیش کیا جائے تو ان کی نسل کشی آسان ہو جاتی ہے۔ یہی چیز سپاہ صحابہ کو عام شیعہ مخالف گروہوں سے الگ کرتی ہے۔ سپاہ صحابہ شیعوں کو دنیاوی دشمن دکھا کر ان کا خون بہانے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ احمد جاوید صاحب سپاہ صحابہ کے اس پروپیگنڈے کو نقل کرتے ہوئے نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ شیعہ سواد ِاعظم بننا چاہتے ہیں، وہ بولڈ ہوگئے ہیں، وہ تبرّا کرنے لگ گئے ہیں، نصیری ذاکرین کی  ایران مدد کر رہا ہے، ایران میں ولایت فقیہ تمام شیعوں کی محافظ ہے، شیعوں کو ولایت فقیہ کی وجہ سے پشت پناہی حاصل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی شیعہ جغرافیائی طور پر بکھرے ہوئے ہیں۔  وہ سنیوں کیلئے سیاسی خطرہ نہیں ہیں بلکہ وہ ان ہی کی طرح کےعوام ہیں جو پاکستانی سیاست کی بے رحمیوں کا شکار ہیں۔ ہر علاقے کا شیعہ اپنے علاقے کی زبان بولتا ہے اور اس کی ثقافت میں رنگا ہوا ہے۔ اسے بھی آزادی، معاشی بہبود اور تعلیم و صحت کے مسائل سے نمٹنے کیلئے سُنی عوام کا ساتھ چاہیے۔ ایران سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ شیعہ بچے سُنی بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں، بڑے ہو کر شادیاں کرتے ہیں۔ ان کی غذا، لباس، بول چال، طرز فکر اور مسائل مشترک ہیں۔

اخوانی شیعیت کیا ہے؟

بیسویں صدی کے اوائل میں ایران میں مشرقی دنیا کا پہلا جمہوری انقلاب آیا تھا۔ اسے شیعہ مرجع، آخوند خراسانی، کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ ان کے شاگرد علامہ نائینی نے ”تنبیہ الامہ“ کے عنوان سے جمہوریت کے حق میں کتاب لکھ کر معروف درباری عالم شیخ فضل الله نوری کے پروپیگنڈے کا جواب دیا تھا۔ لیکن روسی اور برطانوی مداخلت اور جنگ عظیم اوّل کی وجہ سے ایران میں جمہوریت ناکام ہو گئی۔ جنگ عظیم اوّل کے خاتمے کے بعد دنیا سیاسی طور پر تاریکی میں چلی گئی۔ روس میں کمیونسٹ انقلاب آیا، عرب دنیا سے نام نہاد عثمانی خلافت کا خاتمہ ہُوا اور مغربی دنیا میں فاشزم کا عروج ہُوا۔ اس کے ساتھ ہی عرب ممالک پر مغربی طاقتیں قابض ہو گئیں۔ مسلمان احساسِ محکومی کا شکار ہوئے تو کچھ علما  نے اسکا علاج پاپائیت کو زندہ کرنے میں دیکھا۔ ان میں مصر سے جناب رشید رضا اور برصغیر سے مولانا مودودی کا نام لیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے فاشزم کی نقل پر اسلامزم کی آئیڈیالوجی بنائی۔
جنگ عظیم دوم تک یہ نظریات سُنی دنیا میں جڑیں پکڑ چکے تھے۔ جنگ عظیم دوم ختم ہوئی تو اپنے ساتھ استعماری دور کو بھی لے گئی اور نئی سیاسی مساوات میں امریکہ اور روس آمنے سامنے آ گئے۔ امریکہ نے روس کے آگے اسلامی دنیا کو اپنے مفادات کا قلعہ بنانا چاہا تو اسے اسلامزم کی صورت میں ایسا کلہاڑا نظر آیا جسے کمیونزم کے کلہاڑے کے جواب میں چلایا جا سکتا تھا۔ چنانچہ سعودی عرب کی مدد سے جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کی سرپرستی کی گئی۔ سوویت یونین کے بارڈر پر موجود ملک ایران میں بھی کمیونزم پھیل رہا تھا۔ اس کا توڑ بھی اسلامزم سے کیا جانے لگا اور شاہ ایران کے دور میں سید قطب اورمولانا مودودی کی کتب کے فارسی میں تراجم ہوئے، تاکہ کمیونزم کی تنظیم سازی کی قوت اور سیاسی نظام کا مقابلہ اسلامزم سے کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ شاہ ایران نے ڈاکٹر حسین نصر جیسے لوگوں کو تصوف کو زندہ کرنے پر لگایا تاکہ کمیونزم کے فلسفے کا مقابلہ ملا صدرا کے فلسفے سے کیا جائے، جبکہ شیعہ علما  کے نزدیک یہ دونوں باطل ہیں۔ یہاں سے ایک نئی قسم کی شیعیت نکلی جسے اخوانی شیعیت کہا جاتا ہے۔
اس کا اصولی یا اخباری شیعیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کمیونزم کے ردِعمل میں بنائی گئی ایک بدعت ہے۔ اگرچہ اس میں ولایت فقیہ کا نام لیا جاتا ہے لیکن اس سے مراد وہ ولایت فقیہ نہیں جو شیعہ فقہا کی کتب میں پائی جاتی ہے۔ بلکہ اس سے مراد ولایت فقیہ مطلقہ ہے، جو اصل میں تصوف کے مرشد جیسے اختیارات رکھتی ہے۔ ابن عربی، مودودی اور سید قطب اخوانی شیعوں کے بزرگانِ ثلاثہ ہیں۔ ایران کی حکومت کے اصولی شیعہ علما  پر مظالم بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ایرانی سرکار جس وحدت کی بات کرتی ہے، وہ عام مسلمانوں میں اختلاف برداشت کرنے والی وحدت نہیں، بلکہ اخوانی سوچ والے شیعہ سُنی کے بیچ منظم وحدت ہے جس میں فاشسٹ سوچ والوں کو ساتھ ملا کر سیاسی غلبے کا خواب دیکھا جاتا ہے۔ اسی لئے ایرانی حکومت کو برما نظر نہیں آتا لیکن حماس نظر آتی ہے، کیونکہ حماس اخوانی ہے۔ فاشزم چونکہ حقائق سے دور ہوتا ہے اس لئے دنیا میں صرف تباہی مچا سکتا ہے۔ غزہ کی تباہی اخوانیوں کی مس کیلکولیشن کا ایک نمونہ ہے۔ اس سے پہلے ایران عراق جنگ میں جامِ زہر پیا جا چکا ہے۔

پاکستان میں اخوانی شیعیت

ایران میں اخوانی انقلاب آیا تو پاکستان کے شیعوں نے اس کا کوئی خاص خیر مقدم نہیں کیا۔ اس کی تفصیلات سید نثار ترمذی کی کتاب ”مولانا مودودی: داعی وحدت“ وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کے ایک بڑے شیعہ عالم، آیت اللہ حسین بخش جاڑا نے مولانا مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت کے جواب میں ”امامت و ملوکیت“ لکھی تھی۔ شیعہ غیر معصوم کی حکومت کو اسلامی حکومت نہیں سمجھتے۔ پاکستان میں اخوانی سوچ کو رواج دینے کا سلسلہ ایک سادہ دیہاتی مولوی جناب عارف الحسینی کو قائدِ ملت جعفریہ بنانے سے شروع ہوا۔ ایرانی پیٹرو ڈالر صرف اخوانی مولویوں کو مِلا، جس کی وجہ سے مختلف جتھے وجود میں آئے۔ پاکستان کے عام اُصولی مدارس کی ناگفتہ بہ حالت اس بات پر گواہ ہے۔
کوشش کے باوجود پاکستان میں اخوانی شیعیت زیادہ عروج نہ پکڑ سکی۔ اسکی وجہ یہاں کے شیعوں کا ملک بھر میں جغرافیائی طور پر بکھرا ہونا اور یہاں کے شیعہ علما کا اخوانی سوچ اور تصوف کو ناپسند کرنا ہے۔ عارف حسینی صاحب کی زندگی پر لکھی گئی کتاب، ”سفیر نور“، میں اس تلخ حقیقت پر ٹسوے بہائے گئے ہیں۔ حال ہی میں مولانا جواد نقوی کے مدرسے جامعہ عروۃ  الوثقی کی شکل میں کروڑوں کا خرچہ کر کے جو گروہ تیار کیا گیا ہے اسے بھی کوئی مقبولیت نہیں مل سکی۔ لاہور میں دس لاکھ شیعہ آباد ہیں لیکن مولانا جواد نقوی کو دور دراز کے دیہاتوں سے لاہور پڑھنے کیلئے آنے والے شیعہ نوجوانوں پر توجہ دینی پڑتی ہے جو کچھ سال بعد انہیں چھوڑ جاتے ہیں۔
پاکستانی شیعوں کی اخوانی سوچ سے بے اعتنائی کا سب سے واضح نمونہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کا قتل تھا۔ اس قتل کے خلاف پاکستان میں اخوانی شیعہ تنظیموں نے مظاہرے کئے جن کی تصاویر اب بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ چھوٹے شہروں میں تو ایک بندہ بھی نہیں نکلا البتہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں کہیں پچاس سے زیادہ لوگ نہ نکلے۔ یہاں تک کہ سید جواد نقوی کو پنجاب بھر میں بسوں کا انتظام کر کے اسلام آباد میں پروگرام کرنا پڑا جس میں بمشکل پانچ ہزار کے قریب لوگ شریک ہوئے۔
البتہ سوشل میڈیا پر اخوانی شیعہ بہت سرگرم نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ جاننے کیلئے سوشل میڈیا پر جماعت اسلامی کی سرگرمی کو سمجھنا ہو گا۔ وہ بھی اپنے حقیقی سیاسی سائز سے بڑی نظر آتی ہے۔ اخوانی تنظیموں کو چونکہ فاشزم کا نشہ چڑھا ہوتا ہے اس لئے انکے کارکنان تبلیغ اور شور شرابے میں جذباتی حد تک مگن رہتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی طرح اخوانی شیعوں نے بھی سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلانے کیلئے سیل بنا رکھے ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ پاکستانی شیعہ معاشرے کا ایک فیصد بھی نہیں ہیں۔

کچھ اخوانی علما  پر تبصرہ

احمد جاوید صاحب کے بیان کے جواب میں مولانا ڈاکٹر حسنین نادر اور مولانا جواد نقوی نے بڑے گرم بیانات ریکارڈ کرائے ہیں۔ لیکن ان کے بیانات میں عقلمندوں کیلئے بہت نشانیاں ہیں۔ ان حضرات کو شیعہ عقائد یا شیعہ عوام  پر اعتراض سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ ان کی تکلیف کا محور و مرکز ان کا ایران کے نظام ولایت فقیہ مطلقہ کے حوالے سے بات کرنا تھا۔ ان دونوں حضرات نے نظام ولایت فقیہ کا دفاع کیا۔ انہوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی ایرانی نظام ولایت فقیہ ایک مستند اور متفقہ نظام ہے۔ اور اس سے وفاداری لازمی ہے مگر اس سے کوئی بحران پیدا نہیں ہوتا۔ ان حضرات کو احمد جاوید صاحب کے بیان سے پاکستان میں شیعہ نسل کشی کی راہ ہموار کرنے کا جو خطرہ پیدا ہوتا ہے، اس سے بھی کوئی غرض نہ تھی۔ یہ دونوں حضرات محیی الدین ابن عربی کی فکر کے مروج بھی ہیں۔ مولانا جواد نقوی نے تو کچھ عرصہ قبل احمد جاوید صاحب کو اپنے مدرسے میں بلا کر ابن عربی کا تصوف پڑھانے کا شعبہ سنبھالنے کی دعوت بھی دی تھی۔ مولانا موصوف  جمہوریت کے بھی مخالف ہیں جبکہ آیت اللہ سیستانی جمہوریت کے مدافع ہیں۔
یہ لوگ پاکستانی شیعوں کے نمائندے نہیں ہیں۔ پاکستان ہی کی طرح ایران و عراق کے اکثر شیعہ علما  و عوام بھی اخوانی شیعیت کے قائل نہیں ہیں۔ ایرانی انقلاب میں صرف گیارہ فیصد عوام شریک ہوئے تھے۔ اخوانی شیعیت سے عام شیعوں کی لاتعلقی کا عملی مظاہرہ محرم الحرام اور بعض اخوانی مناسبتوں میں شرکا کی تعداد کے فرق کی صورت میں ہوتا ہے۔ یوم القدس ہو، آیت اللہ خمینی کی برسی ہو، شہید قاسم سلیمانی کی برسی ہو، ایرانی انقلاب کی سالگرہ ہو،ان سب مواقع پر اخوانیوں کے منعقد کردہ پروگرامات میں آپ کو لاکھوں روپیہ خرچ کرنے اور محنت کرنے کے باوجود گنتی کے چند ہزار پاکستانی شیعہ بھی نظر نہیں آئیں گے۔ لیکن شیعیانِ پاکستان کی جانب سے محرم الحرم، صفر کی مجالس اور جلوس اور اربعین پر آپ لاکھوں انسانوں کا ہجوم دیکھیں گے۔ یہ اخوانی تشیع اور اصولی تشیع کا بنیادی فرق ہے۔

احمد جاوید صاحب کے توہمات

 احمد جاوید صاحب خود مانتے ہیں کہ ولایت فقیہ کو سب شیعہ نہیں مانتے تو پھر سب شیعوں کو اس کے کھاتے میں ڈالنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ احمد جاوید صاحب! جیسے اہل سنت میں مختلف مسالک اور عقیدتی گروہ موجود ہیں۔ پاکستان میں اصولی اور اخباری شیعہ موجود ہیں۔ بعض شیعہ تصوف کی طرف بھی مائل ہیں۔ جیسے سُنیوں میں جماعت اسلامی ہے، تو شیعوں میں بھی کچھ فاشزم کے دیوانے ہیں۔ لیکن اخوانی مولویوں کے پیروکاروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ ان کو شیعہ کا نمائندہ سمجھنا ایسے ہی ہے کہ ہم طالبان یا جماعت اسلامی کو پاکستان کے سُنیوں کے نمائندہ سمجھ لیں۔ جبکہ اہلسنت نے ہمیشہ دوسری جماعتوں کو ووٹ دیا ہے۔ جیسے پاکستانی طالبان افغانستان کے وفادار ہیں، ایسے ہی یہ اخوانی شیعہ بھی ایران کے وفادار ہیں۔ نہ وہ افغانستان ہجرت کرتے ہیں، نہ ان کو ایران پاسپورٹ دیتا ہے۔
احمد جاوید صاحب آپ نے غلط کہا کہ ایران دنیا بھر میں شیعوں کی مدد اور حمایت کرتا ہے۔ ایران صرف اخوانیوں کی مدد کرتا ہے، چاہے حماس ہوں یا کوئی اور اخوانی گروپ ہو۔ ملائشیا میں دو لاکھ شیعہ 1985 سے مذہبی رسومات نہیں انجام دے سکے، ایرانی ولایت فقیہ نے اس کا کبھی ساتھ نہیں دیا۔ بلکہ اس کے ملائشیا کی ریاست سے سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں۔ سعودی عرب کے علاقے الاحصاء کے شیعہ، جن میں سے اکثر قم میں موجود شیرازی صاحب کے مقلد ہیں، کے شہید آج بھی دنیا میں تعارف کے محتاج ہیں ۔ بحرین میں ہزاروں نوجوان قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں لیکن ان کی مدد کے لیے ایران نے کبھی سفارتی، اخلاقی دباؤ استعمال نہیں کیا۔ پاکستان میں تیس ہزار کے قریب شیعہ قتل ہوئے، ان تیس ہزار شیعوں کے حق میں، ان کی حمایت میں کسی ایرانی حکمران نے آج تک بیان بھی نہیں جاری کیا۔ ان مظلوموں کی مالی مدد یا حمایت تو بہت دور کی بات ہے۔پاکستان کے شیعہ ایران میں قائم اس نظام سے زیادہ توقع بھی نہیں رکھتے۔ وہ اس سودی نظام کو اسلامی بھی نہیں سمجھتے۔ جن چند ایک افراد کو توقعات ہیں اور جن کی روزی روٹی کا مسئلہ ہے وہی لوگ آپ کو ایران کے گُن گاتے دکھائی دیں گے۔
پاکستانی شیعہ اپنے وطن کا ویسے ہی وفادار ہے جیسے عراقی شیعہ اپنے وطن کا وفادار ہے اور جیسے عام لبنانی شیعہ اپنے وطن کی سالمیت کے لیے جان قربان کرتا ہے۔ حال ہی میں ایرانی سرحد کے اندر موجود بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف پاکستان نے جو کاروائی کی، اس پر پاکستانی شیعہ کسی ابہام کے بغیر پاکستان کے ساتھ کھڑے تھے۔ پاکستانی شیعہ ایرانیوں کے وطن کو اپنے لئے بت نہیں سمجھتا ہے، وہ اپنے وطن کا وفادار ہے۔ ملک کے طول و عرض میں دفن پاکستانی فوج کے شیعہ شہداء کا مقدس خون اس بات کا گواہ رہے گا۔

 نوٹ:تحریر میں بیان کردہ  خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ  ویب کا ان سے اتفاق  ضروری نہیں  اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔اگر   احمد جاوید  صاحب یا کوئی اور  اس مضمون کا جواب دینا چاہیں تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں ۔

Facebook Comments

صدیق اکبر نقوی
عن عباد بن عبداللہ قال علی انا عبداللہ و اخو رسولہ و انا الصدیق الاکبر (سنن ابن ماجہ، ١٢٠)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply