• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سیکولر جمہوریت کے حق میں آخوند خراسانی کے دلائل (حصّہ اوّل) ۔۔ صدیق اکبر نقوی

سیکولر جمہوریت کے حق میں آخوند خراسانی کے دلائل (حصّہ اوّل) ۔۔ صدیق اکبر نقوی

آیت الله العظمیٰ محمد کاظم خراسانی، المعروف آخوند خراسانی، 1894ء سے 1911ء میں اپنی وفات تک اہل تشیع کے مرجع اعلیٰ رہے۔ آپ اپنے علمی مقام کی وجہ سے آخوند، یعنی سب سے بڑا محقق، کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ آپ کی کتاب ”کفایۃ الاصول“ شیعہ اصول فقہ کی اعلیٰ ترین کتاب مانی جاتی ہے اور نجف اور قم کے درس خارج میں اسی کتاب پر بحث کی جاتی ہے۔ اس کتاب کی چار سو شرحیں لکھی جا چکی ہیں۔ آخوند خراسانی 1907ء میں ایشیاء کے سب سے پہلے جمہوری انقلاب کے بانی بھی ہیں، جس کے نتیجے میں ایران میں ایک جمہوری حکومت قائم ہوئی۔ جدید دور میں اہل تشیع کے مرجع اعلیٰ آیت الله العظمیٰ سید علی سیستانی انہی کی روش پر چلتے ہوئے عراق میں سیکولر جمہوریت کے سب سے بڑے مدافع بن کر ابھرے ہیں۔ آخوند خراسانی نے انقلاب کی کامیابی کے بعد کوئی حکومتی اختیار قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ سلسلۂ مضامین ان کے اپنے شاگرد آیت الله نائینی کےسوالوں کے جوابات پر مبنی مکالمے کا خلاصہ ہے جس میں وہ سیکولر جمہوریت کے حق میں اپنے دلائل بیان فرماتے ہیں۔ مفصل گفتگو کا فارسی متن اکبر ثبوت صاحب کی کتاب ”دیدگاه‌ہای آخوند خراسانی و شاگردانش“ میں پڑھا جا سکتا ہے۔ آخوند خراسانی کی طرف سے پیش کردہ اکیس دلائل کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

  1. اگر ایران میں شیعہ علما  نے حکومت پر قبضہ کیا تو دوسرے مسالک و مذاہب میں بھی یہ رجحان پیدا ہوگا کہ وہ بھی اپنی متعصب دینی حکومتیں بنائیں اور اس طرح پورا خطہ مذہبی جنگوں اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کی لپیٹ میں آ جاۓ گا۔
  2. جب علما  حکومت میں قدم رکھیں گے تو اپنے نقائص کو نہیں دیکھ سکیں گے اور ان کی توجیہ کریں گے اور حکومتی خرابیوں کو نظر انداز کریں گے۔
  3. مسند علما  خرابیوں سے مقابلے کی مسند ہے، اور حکمرانی کی مسند خرابیوں سے آلودہ ہوتی ہے۔ اس طرح (جب علما  حکومت کرنے لگے) خرابیوں کا مقابلہ کرنے والی مسند ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی اور علما  بھی فاسد ہو جائیں گے۔ وائے ہو اس روز پر جب نمک ہی خراب ہو جائے (فارسی ضرب المثل ہے کہ جب کوئی چیز خراب ہو تو اس کو نمک لگاتے ہیں، اور اگر نمک ہی خراب ہو جائے تو اسکا کوئی علاج نہیں)۔ اگر ہم فاسد و خراب نہ بھی ہوئے تو پھر بھی سب خرابیاں علما  کی گردن میں ڈالی جائیں گی اور یوں دین تباہ ہو جائے گا۔
  4. حکومت چلانے کا علم اور سیاست ایک باقاعدہ علم اور ہنر ہے اور علما  اس علم و ہنر سے مکمل طور پر نابلد ہیں۔ علم و تجربے اور ہنر کے بغیر اس شعبے میں داخل ہونا علما  کی رسوائی کا باعث بنے گا۔ صرف علما  کا نیک ہونا دلیل نہیں کہ وہ ہر علم و ہنر کو جانتے ہیں۔
  5. ہمارا مقصد و آرزو یہ ہے کہ حکومت دین کی پیروی کرے درحالیکہ اگر ہم نے حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی تو دین کے حکومت کی پیروی کرنے جیسے امر کا شکار ہو جائیں گے۔
  6. چونکہ لوگ ہمیں امام زمانہ علیہ السلام کا نائب سمجھتے ہیں اس لئے ان کو یہ توقع ہے کہ ہم امام مہدیؑ کی حکومت جیسے حالات پیدا کریں۔ جب ہم اس سطح پر عدالت کو برقرار نہ کر پائے تو امام زمانہؑ اور دین سے متعلق ان کا عقیدہ کمزور پڑ جائے گا۔
  7. ابھی ہمارے پاس حکومتی عہدے نہیں ہیں تو اس قدر آپس کے جھگڑے ہوتے ہیں۔ اگر ہم حکومت تک پہنچ گئے تو یہ اختلاف نظر دین کے کئی حصوں میں تقسیم ہونے اور کئی نئے فرقے بننے اور دین کے نقصان کا باعث بنے گا۔
  8. ہمیں فقط علم فقہ کا علم ہے۔ چونکہ ہم اچھے فقیہ ہیں (اگرچہ سب ابواب فقہ بھی ہم نہیں جانتے) یہ دلیل نہیں کہ دیگر علوم، جیسے اقتصادیات اور سیاست وغیرہ، میں بھی ماہر ہوں۔ علم فقہ اپنے موضوع کا علم ہے جس کا معاشرے کو چلانے اور اس کے مسائل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
  9. اسلام کو کئی صدیوں سے حکومت اسلامی نے نہیں سنبھالا بلکہ اسلام کو حوزہ علمیہ و مدارس نے سنبھالا ہوا ہے۔
  10. ابھی ہمارے ہاتھ حکومت نہیں آئی تو ہمارے قریبی لوگ کیا کچھ نہیں کرتے، وائے اس روز پر جب حکومت ہمارے ہاتھ میں آجائے۔ جب ہمارے پاس حکومت ہو گی، تو ہمارے رشتہ دار اس موقع کا ناجائز فائدہ اٹھائیں گے اور مرجعیت و دین اسلام کی رسوائی کا باعث بنیں  گے۔ اس وقت لوگ ان کے ایسے کاموں کو ہمارے حساب میں لکھیں گے۔
  11. جن کے پاس حکومتی عہدے ہوتے ہیں وہ جھوٹ و فریب اور غلط کو اپنے کام اور پیشے کی پہلی ضرورت سمجھتے ہیں، اور شاید بعض اوقات ان کے کام جھوٹ کے بغیر چل بھی نہیں سکتے، اور ممکن ہے بعض اوقات بہت اہم مصلحتوں کی وجہ سے ان کے لئے جھوٹ بولنا جائز ہو۔ چونکہ ان عہدوں کی وجہ سے جھوٹ سے مکمل پرہیز ان کے لئے ناممکن ہے اس لئے علمائے دین کو ان عہدوں سے پچنا چاہیئے۔ کیونکہ اگر سچائی و صحیح بات کی مکمل پابندی کریں تو ان کے کام نہیں چل سکیں گے، اگر یہ چاہیں کہ دوسرے سیاستدانوں کی طرح جہاں چاہیں جھوٹ بولیں، تو اس کام کے دو خطرے ہیں:

ایک یہ کہ آہستہ آہستہ جھوٹ کی برائی ان کی نظر میں ختم ہو جائے گی اور صداقت کی پابندی دیگر کاموں میں بھی کمزور ہو جائے گی، یہ کام سب کے لئے بُرا ہے لیکن عالمِ دین کے لئے سب سے زیادہ بُرا اور بہت ہی خطرناک ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوسرا یہ کہ جب عام لوگ دیکھیں گے کہ علما  دین ہر بہانے سے اگرچہ وہ درست ہی کیوں نہ ہو، متعدد مواقع پر جھوٹ بولتے ہیں تو آہستہ آہستہ ان کے لئے یہ شبہہ پیدا ہوگا کہ کہیں ایسے تو نہیں دیگر امور جیسے احکام الہی اور دینی و مذہبی عقائد میں بھی کسی وجہ سے، اگرچہ وہ وجہ درست ہی کیوں نہ ہو، وہ جھوٹ بولتے ہیں تو اس وقت عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہونا ہی بہت خطرناک چیز ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگوں میں دینی آداب و مبادی سے متعلق بے عقیدتی پیدا ہو گی۔

  1. جب تک عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمارا عمل اور جدوجہد کا مقصد صرف ظلم کو کم کرنا اور کرپشن کے دائرے کو تنگ کرنا ہے۔ ہمارا ارادہ دنیوی غلبہ، منصب یا مراعات حاصل کرنے یا کسی خاص فرد یا گروہ کو اقتدار یا مرتبے تک پہنچانے کا نہیں ہے۔ جب تک لوگ ہمیں اس طرح جانتے رہیں گے، وہ یقین کریں گے کہ ہم اپنے اعمال میں مخلص ہیں اور ہمارے اعمال صرف خدا کے لئے ہیں۔ اور اسی یقین کی وجہ سے وہ ہمارے پیچھے چلیں گے۔ ہماری ضروریات اور مشکلات کو اپنی ضروریات اور مشکلات سے بھی زیادہ اہم سمجھیں گے۔ ہمارا ساتھ دینے اور ہمارے مقاصد کے حصول کی خاطر وہ دل اور جان کے ساتھ سخت محنت کریں گے اور ہر قسم کی مشکلات کو برداشت  کریں گے اور قربانیاں دیں گے۔ لیکن اگر وہ محسوس کرنے لگے کہ ہم اقتدار کی جنگ میں داخل ہوچکے ہیں اور ہمارا مقصد خود دنیاوی غلبہ، منصب اور مراعات حاصل کرنا ہے۔ تاکہ ہمارے اقرباء اور رشتہ دار دنیاوی اقتدار، مرتبے اور مراعات تک پہنچ جائیں، تو ہماری نیتوں کے اخلاص پر ان کا یقین کمزور ہو جائے گا اور نہ صرف یہ کہ وہ سنجیدگی سے ہمارا اور ہمارے مقاصد کا ساتھ نہیں دیں گے اور اس راہ میں کوشش اور قربانی دینے کے لئے تیار نہیں ہوں گے، بلکہ آہستہ آہستہ وہ سیاست کی دنیا میں ہمیں اور ہمارے حریفوں کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے اور آخر کار معاملہ اس مقام پر پہنچ جائے گا کہ نہ صرف وہ ہمارے مخالفین بلکہ مذہب کے مخالفین سے بھی جا ملیں گے۔
  2. دنیاوی اموال و اقتدار کے ساتھ وابستگی ایک بہت عظیم پردہ ہے جو ہمیں حقیقت کو دیکھنے اور اس کے مشاہدے اور خدا کے حکم کو سمجھنے سے روک سکتا ہے۔ کیا یہ ٹھیک ہے کہ میں حقیقت کو جاننے کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو کم کرنے کے بجائے اپنے لیے بہت زیادہ اور بہت بڑی رکاوٹیں پیدا کروں، تاکہ دانستہ اور نادانستہ طور پر احکام الٰہی کے استنباط میں ان رکاوٹوں سے متاثر ہو جاؤں، اور صحیح احکام تک پہنچنے اور ان کا اظہار کرنے کے بجائے اپنی وابستگیوں اور خواہشات کا جواز پیش کرنا شروع کروں؟ کیوں نہ میں مقام و منصب سے اپنے لگاؤ ​​کو جو میرے اور ہر انسان کے اندر ہے اور صدیقین کے دلوں سے نکلنے والی آخری چیز ہے، کو قابو میں رکھوں؟
  3. پندرہ سال پہلے سید جمال الدین افغانی اسد آبادی کہا کرتے تھے: ’’جدیدیت ( Modernity ) کا سیلاب مشرق کی طرف تیزی سے آ رہا ہے۔ مطلق العنان حکمرانی کی بنیاد فنا ہونےوالی ہے۔ آپ مطلق العنان حکمرانی کی بنیاد کو تباہ کرنے کی جتنی کوشش کر سکتے ہیں کریں۔ “ میں اگرچہ سیاست کی دنیا میں سید کی بعض باتوں اور پالیسیوں سے متفق نہیں ہوں، لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ ان کی یہ بات بالکل درست ہے، اور نہ صرف یہ آج سچ ہے، اور پندرہ سال پہلے سچ تھی، بلکہ ایک صدی پہلے بھی سچ تھی۔ ہمیں سو سال پہلے (1800 کے عشرے میں) اس حقیقت کو سمجھ لینا چاییے تھا کہ مطلق العنان حکمرانی کی بنیاد تباہ ہونے والی ہے اور اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے ہمیں خود مطلق العنان حکومت، جو کہ خرابیوں (کرپشن ) اور بے شمار مظالم کی جڑ ہے، کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کا علمبردار بننا چاہیئے تھا اور ظلم و خرابی ( کرپشن ) کو کم کرنے کے لیے ہمیں حکمران کے اختیارات کا دائرہ محدود کر دینا چائیے تھا اور مطلق العنان حکومت کے بجائے قانون کی پابند حکومت قائم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن اس معاملے میں ہم نے اتنی دیر کردی کہ تقریباً سو سال کے انتہائی تلخ ایام اور بدترین حالات گزارنے کے بعد، اب عقلا نے مطلق العنان حکومت کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا ہے۔ اس کے بعد انہیں چاہئیے کہ وہ اس کام سے پرہیز کریں کہ تمام حکومتی اختیارات ایک جگہ پر جمع ہو جائیں اور حکومت جو کام بھی کرے اس سے متعلق اس سے باز پرس ہو۔ وہ حکومتی اختیارات کو تقسیم کر کے ان کو عوام کے زیر نظر قرار دیں اور آمر حکمرانوں کے بے شمار و ناجائز اختیارت پر پابندی لگائیں۔ اس تحریک کے مقابلے میں بعض لوگوں نے دین کے نام اور حکومت مشروعہ ( اسلامی بادشاہت ) کا پرچم اس طرح اٹھایا ہوا ہے جیسا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام کے مقابلے میں کچھ لوگوں نے قرآن کے نسخوں کو نیزوں پر اٹھایا ہوا تھا اور ان کا یہ اصرار ہے کہ حکومت مطلقہ ( بادشاہت ) کو برقرار رکھا جائے تاکہ ان کے مطابق شریعت کی حد محفوظ رہے۔ جب کہ نہ تو مشروطیت (1907ء کے جمہوری انقلاب) کے قیام سے پہلے اور نہ ہی اس کے دبانے کے بعد (یہاں استبداد صغیر کی طرف اشارہ ہے، 24 جون 1908ء کو شاہ کے شیخ فضل اللہ نوری کی مدد سے تہران میں قتل و غارت کر کے جمہوریت کو ختم کرنے اور ملک بھر کے عوام کے قیام کے بعد 14 نومبر 1909ء کو جمہوریت کے بحال ہونے کے درمیان کی مدت کو ایرانی تاریخ میں استبدادِ صغیر کہتے ہیں)، شریعت اور مقدس الہی احکام کی حدود محفوظ نہیں تھیں اور یہ لوگ جو جمہوری حکومت (مشروطہ) کو ختم کرنے اور بادشاہت (مشروعہ) جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کا مقصد صرف اور صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرنا اور مخلوق خدا کے جان و مال پر اپنا ناجائز و مطلق قبضہ جاری رکھنا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ تحریک جمہوریت کا مقصد صرف بادشاہت نامی سرکش گھوڑے کو ہی لگام ڈالنا نہیں، بادشاہ اور اس کے کارندوں کو اپنے ماتحتوں اور عوام پر ظلم و زیادتی اور ناجائز کاموں اور من مانی و جابرانہ حرکتوں سے روکنا ہی نہیں، بلکہ جمہوریت کا مقصد یہ ہے کہ تمام ظالموں، حکمرانوں، صاحبان اختیار و سربراہوں کو کنٹرول کرنا ہے، تاکہ وہ اپنے ماتحتوں اور اپنے جیسوں پر ظلم نہ کر سکیں، اور لوگوں سے رشوت و بھتہ اور نذرانے نہ لے سکیں۔ ہاں جمہوری نظام کا حتمی مقصد یہ ہے کہ تمام ظالموں کے ہاتھ ہر ممکن حد تک باندھ دئیے جائیں تاکہ وہ عوام کے حقوق پامال نہ کر سکیں۔ اگر یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے اور عوام علم اور میدان میں حاضری کے ساتھ اس مرحلے تک پہنچ جاتے ہیں کہ ظلم کسی بھی لباس میں ان پر حکمرانی نہیں کر سکتا، تو ہم ان تباہیوں کا مشاہدہ نہیں کریں گے جو سلطنت کے کارندوں نے ابھی تک کی ہیں اور نہ کسی فردِ واحد کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ قانون سے بالاتر ہو اور قانون ساز بھی خود ہو، عدلیہ بھی خود ہو اور انتظامیہ بھی خود ہو۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

صدیق اکبر نقوی
عن عباد بن عبداللہ قال علی انا عبداللہ و اخو رسولہ و انا الصدیق الاکبر (سنن ابن ماجہ، ١٢٠)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply