• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہمارے مانک دا شیوانی(گورا پنت) -انگریزی ترجمہ: ارا پانڈے /اردو ترجمہ: عامر حسینی/حصّہ اوّل

ہمارے مانک دا شیوانی(گورا پنت) -انگریزی ترجمہ: ارا پانڈے /اردو ترجمہ: عامر حسینی/حصّہ اوّل

(جرمنی) کے شہر درماشت کے ایک وسیع ہال میں ٹیگور پہ سیمینار کا پہلا دور ابھی ختم ہی ہُوا تھا جب کسی نے میرے پاس آکر بتایا کہ جرمن ریڈیو نے ابھی ابھی خبر دی ہے کہ ستیہ جیت رائے کا دیہانت ہوگیا ہے۔ میں نے ستیہ جیت رائے کو کبھی ان کے اصل نام سے نہیں پکارا تھا، ہم آشرمیوں کے لیے وہ ہمیشہ “مانک دا” تھے۔ ہم سے اس وقت کسی کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ ایک دن وہ اسی عرف کے ساتھ ستارے کی طرح چمکیں گے۔

میں نے اپنے آنسو چھپانےکے لیے اپنا منہ موڑ کر کھڑکی کی طرف پھیرلیا۔ بارش کی بوندوں سے بھرے زرد رنگ کے بادل باہر ایسے اُڑتے پھر رہے تھے جیسے سورگ میں کسی نے تعزیتی جلسے کا  انتظام کرنے سے پہلے کالے رنگ کی پٹیوں کی ڈرائنگ کردی ہو۔ جیسے ہی میں نے باہر لرزتے پتوں، کھڑکیوں پہ چھن چھن کرتی بارش کی بوندوں کو گرتے ہوئے دیکھا تو ایک گہری اداسی نے مجھے ڈھانپ لیا۔ اور میں اس غم کو بھوگنے میں تنہا نہیں تھی ۔ جیسے ہی خبر پھیلی تو وہاں سارے اجتماع پہ خاموشی چھاگئی ۔ میں اپنے وطن سے کوسوں دور تھی، میں سوچ رہی تھی کہ میں اپنے دوست کا   سوگ سینکڑوں ایسے لوگوں کے ساتھ منارہی ہوں جن کے میں ناموں سے بھی واقف نہیں ہوں۔

یادوں کے ایک ہجوم نے میرے دماغ پہ یلغار کردی اور مجھے منظر صاف دیکھنے کے لیے اپنے سر کو جھٹکنا پڑا۔ کچھ عرصے سے ہم سب جانتے تھے کہ مانک دا اَب مستعار لیے وقت پہ گزارا کررہے ہیں۔ ان کو نحیف و کمزور دل ان کے وجود کو زندہ رکھنے کے لیے بہادری سے لڑائی لڑرہا تھا لیکن ہم جانتے تھے کہ بس کچھ وقت کی بات ہے، یمراج، موت کا دیوتا کامیابی سے ان پہ چھپٹے گا اور ان کو ہمارے پاس سے دور لے جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ یمراج مکمل طور پہ جذبات سے عاری ہوتا ہے جب وہ اپنا انعام پانے کے لیے جھپٹتا ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود جب میں نے مانک دا کے مخصوص مدھم سے سریلے لہجے میں امریکی اکادمی برائے موشن پکچر کی طرف سے  لائف ٹائم ایوارڈ کی قبولیت کا سنا تو میں نے سوچا تھا کہ اس طرح کی پاٹ دار آواز بھلا کیسے سخت بیمار آدمی کی ہوسکتی ہے۔ کون جانے اس مرتبہ بھی وہ ویسے ہی صحت یاب ہوجائیں ،جیسے وہ امریکہ سے لوٹا تھا،جہاں ڈاکتر  ڈینٹن کولے  کر اِن کو موت کے کنارے سے کھینچ کر واپس لے آئے تھے۔ اس وقت بھی تو وہ آخرکار واپس لوٹ  کر آئے اور اپنی ایک نامکمل فلم کو پورا کیا۔

آخری بار جب میں انھیں کولکتہ میں ملی تو اس وقت وہ ابھی بیماری سے پوری طرح صحتیاب نہیں ہوئے تھے۔ آخری ملاقات سے چار سال پہلے، میں جب کولکتہ آئی تھی تو مانک دا مجھے ملنے کے لیے آئے تھے۔ میری بیٹی کے سسر بی ڈی پانڈے اس وقت مغربی بنگال کے گورنر تھے اور انھوں نے راج بھون میں میرے سب آشرمی دوستوں کے لیے ایک شام ان کے ساتھ گزارنے کا انتظام کیا تھا اور ہم سب نے خوشی سے ایک دوسرے کی گردنوں میں ہاتھ ڈال کر رقص کیا تھا۔ مانک دا، سچیترا مترا، میری اسکول کی سب سے عزیز سہیلی اینما سین ہمارے معزز استاد کی بہو، اچاریہ کشتی موہن ، ارون مکھرجی، تارا سرکار۔۔
” شانتی نکیتن میں ہمارا یقینی طور پہ سب سے زیادہ سنہرا دور ہے” میں نے اس روز فخر سے اتنی مشہور شخصیات کے اجتماع پہ نظر ڈالی تو خوشی سے پکار اٹھی تھی۔

مانک دا سنجیدگی کے ساتھ ہمیں یہ یاد کرانا نہیں بھولے تھے کہ ہم جو کچھ بھی آج تھے اس کی وجہ وہ تربیت تھی جو ہم نے آشرم میں پائی تھی۔ وہ ہمیشہ بہت ہی نپے  تلےاور سوجھ بوجھ والے لہجے میں بات کرتے تھے اور میں نے اچانک اپنے آپ پہ خود بڑا افسوس کیا کہ میں اپنی پھوں پھاں میں بنیادی حقیقت کو نظر انداز کرگئی تھی۔

کولکتہ جیسا ميں نے بطور طالبہ کے دیکھا تھا اب بہت بدل چکا تھا کہ مجھے اپنے ساتھ آنے والے یونیورسٹی کے ڈاکٹر اوپادھائے سے پوچھنا پڑا تھا کیونکہ مجھے شک تھا کہ میں ڈاکٹر ستیہ جیت رائے کا گھر ڈھونڈ بھی پاؤں گی۔ ڈاکٹر اوپادھائے کولکتہ کے ایک باحیات لیجنڈ سے ملاقات کے پیش نظر بہت وجد میں تھے اور مسلسل میرا اس بات پہ شکریہ ادا کرتے جاتے تھے کہ میں نے انہیں ساتھ رکھا۔ بشپ لفرے روڈ پہ واقع معروف فلیٹ کی بیل بجائی تو مانک دا نے خود دروازہ کھولا۔ برآمدے میں پودوں کے گملوں کی بہتات تھی اور شاید وہ پودوں کو پانی دے رہے تھے جب ہم پہنچے۔ میں نے اچانک ہی ان سے ملنے کا پروگرام بنالیا تھا اور کوئی اپائٹمنٹ بھی طے نہیں کی تھی۔ لیکن پھر بھی وہ ہمیں گرم جوشی سے ملے جیسے ہی ہم وہاں پہنچے۔ مانک دا مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولے،”کیا سرپرائز ہے بھئی” اورپھر ہمیں اندر آنے کو کہا۔ میں نے بہت سارے لوگوں کو وہاں موجود دیکھا جو شاید اپائٹمنٹ لیکر آئے تھے ۔ مانک دا ان کے درمیان سے ہمیں گزارتے ہوئے اپنی کچھار میں لے آئے۔ ایک دیوار پہ ان کے والد سک کمار رائے کی تصویر نمایاں طور پہ آویزاں تھی۔ کمرہ ایک خول کی طرح سے تھا جہاں پہ ہر طرف کاغذوں کا انبار لگا ہوا تھا۔

مانک دا دیوقامت تھے اور ان کا جسم جو دھان پان سا تھا ہمیشہ ایستادہ رہا کرتا۔ ان کی آواز جیسے مندر میں بجتی مدھر گھنٹیوں کی سی تھی اور ہر کسی کی توجہ کھنچ لیا کرتی تھی جب وہ بولا کرتے تھے۔ لیکن اس دن، پہلی بار، مجھے لگا کہ ان کی اب عمر ہوگئی ہے، اب ان کی آواز میں وہ دم خم نہیں رہا تھا، شاید اس دن ان کا گلا خراب تھا۔ پھر بھی وہ مجھ پہ ایک مسکان بھری نظر ڈالتے یا ہنستے ہوئے  ایک خاص ادا کے ساتھ اپنے سر کو جھٹکتے تو وہ اس سے کہیں زیادہ مانک دا ہوجاتے جن سے میں ہمیشہ سے واقف تھی اور جن کی میں نے ہمیشہ تعریف کی تھی۔

مانک دا کبھی بھی باتونی نہیں رہے تھے۔ حقیقت میں وہ ہر لفظ کو ناپ تول کر منہ سے نکالنے کا تاثر دیا کرتے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ ان کی تقریر ميں گہرائی اور کشش بڑھ جایا کرتی تھی۔ ميں چپڑچپڑ کرتی تھی اور وہ حسب معمول نہایت توجہ سے سُنے جاتے، یہاں تک کہ مجھے احساس ہوتا کہ باہر ان کے انتظار میں ان کے مداحوں کا ہجوم بڑھتا جارہا ہے۔ ان کا اتنا زیادہ وقت لینے پہ مجھے شرمندگی ہوتی اور میں جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوا کرتی تھی۔ “بیٹھو  بھئی بیٹھو”، وہ اصرار کرتے رہتے لیکن میں خود سے معذرت کرتی اور جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی۔ آج بھی میں جلد ہی اپنے آپ کو اس کمرے سے روانہ ہونے کے لیے دھکا دیا لیکن مجھے ٹھیک سے اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات بھی ہوسکتی تھی۔

“چلو ٹھیک ہے، کم از کم جانے سے پہلے ایک رس گلہ تو کھاتی جاؤ”، یہ کہہ کر وہ مسکرائے اور پھر کہا،”میں جانتا ہوں تمہیں وہ بہت  پسند ہیں۔ میں نے تمیں آشرم میں کالو کی دکان پہ انھیں کھاتے ہوئے دیکھا ہے” ان کی آنکھوں ميں شرارت جھلک رہی تھی۔

یہ انکشاف سن کر میرا تو منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔ ہم تو ان کے از حد معترف تھے اور وہ میرے رس گلے سے شغف تک کا نوٹس لیا کرتے تھے یہ بات میرے لے انکشاف کا درجہ رکھتی تھی۔ آشرم کے دنون میں، مانک دا ہمارے جھمگٹے کے پاس سے بنا نظریں اٹھائے گزر جایا کرتے تھے۔ کالو کی دکان اس کے رس گلوں کی وجہ سے ہمارا خاص ہدف ہوا کرتی تھی ، اس کے رس گلے اتنے نرم ہوتے کہ آپ کو اسے منہ میں ڈالنے کے لیے اس کا رس چوس لینا ہوتا تھا ورنہ آپ کو اُچھو لگ سکتا تھا۔

مانک دا کا میرے بڑے بھائی تری بھون سے بڑا یارانہ تھا۔ میں سوچتی ہوں کہ ان کے دماغ میں میں ہمیشہ سے وہی ایک مخبوط الحواس سی چھوٹی بہن کی صورت موجود رہی۔ کبھی کبھار میں ان سے بات کرنے کی ہمت کرلیا کرتی تھی لیکن اکثر و بیشتر ہم ان کو اور ان کے گینگ کو اکیلا چھوڑ دیا کرتے تھے۔ ان دنوں میں ان کی اپنی الگ تھلگ فضا سے ہٹ کر وہ آشرم میں لیجنڈری سک کمار رائے کے بیٹے ہونے کے طور پہ مشہور تھے۔ اگٹر ان کی ماتا جوبہت پرکشش اور معزز خاتون تھیں اتریان آیا کرتی تھیں جو ٹیگور کا گھر تھا۔ وہ سلائی کڑھائی کی ماہر تھیں اور کانتھا کشیدہ کاری پر ایک بار انہوں نے لیکچر دیا تھا جو مجھے یاد تھا۔ بدقسمتی سے میں مانک دا کی پتنی سے کبھی نہ مل سکی لیکن ان کی بڑی بہن گوری دیدی سے میری بڑی دوستی تھی۔ جب کبھی گوری دیدی ممبئی آیا کرتیں وہ سشیلا کے ہاں قیام کیا کرتیں جو ہماری ایک اور آشرم کی ساتھی تھیں اور وہاں مجھے بلایا کرتیں۔ وہ کہا کرتی تھیں ‘جلدی کرو اور آجاؤ ، میں نے نئے گڑ سے کچھ پواس بنائے ہیں آج۔”

گوری دیدی کشور کمار کی ساس اور امیت کی نانی تھیں۔ جوں ہی وہ ہميں پواس کا باؤل چاٹ کر خالی کرتے دیکھتیں تو کہا کرتی تھیں کاش امیت میں آپاتا۔ وہ بھی میرے بنائے پواس بہت پسند کرتا ہے۔

آخری بار ہم جب ممبئی میں ملیں تو میں نے ان سے مانک دا بارے پوچھا تھا۔ ان کا مسکراتا چہرہ دھواں دھواں ہوگیا تھا۔” میں بھلا کیا کہہ سکتی ہوں؟” انھوں نے تاسف سے سر ہلایا۔” اب وہ اپنی سابقہ انا کے خول میں رہتا ہے۔ یہ بات مجھے ڈرا دیتی ہے کہ وہ دن بدن کسقدر کمزور ہوتا جارہا ہے۔”

کئی مرتبہ ميں نے لکھنے کے لیے قلم اٹھایا اور پھر رکھ دیا۔ سینکڑوں خطوط جو ان کے کولکتہ والے گھر میں ہی پڑے ہوں گے، میرے لیے کس قدر اہم ہوسکتے ہیں؟ بہتر ہے اپنے آشرم کے دنوں کو یاد کرنے کے لیے پیچھے جاؤں اور یاد کروں اس وقت وہ کیسے تھے۔ ایک مرتبہ، جب ہم نے “سنہا سادان” کھیل کو سٹیج پہ پیش کیا تو اس وقت مجھے ایک مسلم لڑکے کا کردار دیا گیا تھا۔ بول پور سے مسلم ٹوپی لائی گئی اور کسی نے مجھے مشورہ دیا کہ میں کالا بھون میں شاگرد جینت ڈیسائی سے چوڑی در پاجامہ اور کرتہ مانگ لو ۔

میں زرد پڑگئی تھی ، جینت مساجنسٹ ہونے میں بری طرح سے بدنام تھا اور اس سے کوئی چیز ادھار مانگنا اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنا تھا۔ ناچار میں گئی۔ اس نے اوپر سے نیچے تک مجھے دیکھا اور پھر پوچھا،”کیا تم تری بھون کی بہن ہو؟’
ميں نے اثبات میں سر ہلایا۔
ٹھیک ہے، یہ لو، اس نے کلف لگا چوڑی دار پاجامہ اور کرتے کا جوڑا مجھے دے دیا۔”اسے کاٹنے کی کوشش نہ کرنا، واپس کرنے سے پہلے دھو ڈالنا”، اس نے ایسے مجھے کہا جیسے میں کسی ناگفتنی بیماری کا شکار ہوں۔

جینت ڈیسائی کا جثّہ مجھ سے تین گنا زیادہ تھا۔ کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ میں نے اس کرتے کو اٹکانے کی کتنی سخت کوشش کی، یہ کسی طرح سے فٹ ہی نہیں بیٹھتا تھا۔ جہاں تک اس کے چوڑی دار پاجاموں کی بات ہے ، اگر میں ان کو اپنے گردن تک بھی لپیٹ لیتی تو تب بھی میں اس کے اندر اپنے آپ کو سمو نہ پاتی۔ ایک اور دوست جیتندر پرتاپ کا بھلا ہو جو میری ہی قامت کا تھا اس نے اپنی شیروانی مجھے دی اور میں نے کُرتے کو اس میں اُڑس لیا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس دن اس نے میری ایک تصویر بھی کھینچی تھی جو شایداب بھی اس کے پاس ہو۔

ہمارے میک اپ آرٹسٹ گوری دیدی، نندلال باسوکی بیٹی تھیں اور انھوں نے مجھے اتنے شانداردار طریقے سے بنایا سنوارا کہ میری والدہ بھی مجھے پہچان نہ پائیں۔ مسٹر سٹروک مونچھیں تھیں جو کمال مہارت سے میرے اوپر لب سے اوپر چپکادی گئی تھیں۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں کی کاریگری دیکھی تو بے ساختہ قلقاریاں مار کر ہنسنے لگیں اور کہا،”تم اب بالکل ایک غنڈہ   لگ رہی ہو۔” جب میرے سارے گینگ نے مجھے دیکھا تو انھوں نے خوب میری ہنستے ہوئے بھد اڑائی۔ ان میں سے ایک سندھیا راۓ تھی، اس نے میری گردن میں اپنے بازو حمائل کرڈالے اور سرگوشی کی،”اگر تم واقعی لڑکا ہوتیں تو میں تمہاری عاشق ہوجاتی۔” ایک اور سہیلی جیا اپاسوامی نے مجھ پہ طائرانہ نظر ڈالی اور کہنے لگی، اگر تم ہتھوں ميں ایک سلگتا سگریٹ تھام لیتیں اور کش لگاتیں تو پھر تم پوری طرح سےاپنے کردار میں مکمل لگتیں۔

پچاس سال پہلے کسی لڑکی کا سگریٹ پینا بہت ہی کمیاب نظارہ تھا اور وہ بھی آشرم میں۔ کوئی اسے سلگانے کا  خواب میں بھی سوچ نہیں سکتا تھا۔ میں نے جیا اپاسوامی کو بتایا کہ اگر کوئی المورا میں میرے دادا کو یہ سب لکھ بھیجتا تو مجھے لازمی خاندان سے نکال دیا جاتا۔

جیا نے جواب دیا، اری او پگلی لڑکی، میں تمہیں سچی میں تھوڑا سگریٹ سلگانے کو کہہ رہی ہوں۔ اجوائن کے بیج کسی کاغذ کے ٹکڑے میں لپیٹ لو اور پھر دھوئیں کے چند دائرے بنا ڈالنا۔ بس کام ختم۔ (جاری)
(شیوانی کا اصل نام گورا پنت تھا اور وہ راج کوٹ گجرات سے تعلق رکھتی تھیں وہ 1923 میں پیدا ہوئیں اور 2003ء میں ان کا دیہانت ہوا۔ نو سال انھوں نے شانتی نکتین میں اپنی بڑی بہن اور بھائی کے ساتھ گزارے، یہ یادیں انھوں نے ہندی میں لکھیں انگریزی ترجم ان کی بیٹی ایرا پانڈے نے کیا)

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

  • julia rana solicitors
  • julia rana solicitors london
  • merkit.pk

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply