• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • حضرت شاہ عنایت قادریؒ اور مغنیہ۔۔ڈاکٹر صغرا صدف

حضرت شاہ عنایت قادریؒ اور مغنیہ۔۔ڈاکٹر صغرا صدف

قدرت کے فیصلے بڑے عجیب ہیں۔ کبھی وہ پیاسے کو کنوئیں تک جانے کے لیے صدیوں کے سفر پر روانہ کرتی ہے اور کبھی کنواں اس کے دَر کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ لاہور کی سرزمین صوفیاء، اولیاء اور نیک ہستیوں کی سرزمین ہے۔ ہر دور میں بڑے لوگوں نے اسے شرفِ باریابی بخشا کیوں کہ یہاں سے گونجنے والی آواز پوری دنیا میں پھیلتی تھی۔ اس لیے یہ توحید پرستوں کا مرکز رہا ہے۔ حضرت شاہ عنایت قادریؒ جو وقت کے بڑے صوفی، ولی تھے کا ایک تعارف بابا بلھے شاہؒ کا مرشد ہونا بھی ہے۔ ان دونوں ہستیوں کو ملانے کے لیے قدرت نے اُچ گیلانیاں سے بابا بلھے شاہؒ کے والدین کو پانڈو کی بھیجا جہاں انہوں نے اس دور کے بہت بڑے عالم خواجہ غلام مرتضیٰ قصوری سے تعلیم حاصل کی لیکن صوفی ظاہری تعلیم کو جب تک جذب نہیں کر لیتا صوفی نہیں بنتا۔ بابا بلھے شاہؒ کو بھی اپنے آپ کو کھوجنے کے لیے کسی نہ کسی شاہ عنایتؒ کی ضرورت ہوتی ہے جو آرائیں قوم سے تعلق رکھتے تھے لیکن بلھےؒ سے تعلق نے انہیں شوہ یعنی حاکم اور مرشد کا درجہ دیا، وہ شاہ عنایت قادری کہلائے۔ ان کی بڑائی بلھےؒ کے لفظوں کی مستی میں شامل ہے۔ انہوں نے بلھےؒ کو توحید کے راگ پر تسبیح پڑھائی اور کائنات میں پرو دیا۔ سرمستی اور عشق کے رموز سمجھائے، حال سے نکل کر بے حال ہو جانے والی کیفیت عطا کی جس میں تن من ایک ہو جاتا ہے۔
آج ہم اس شاہ عنایت قادریؒ کا ذکر کر رہے ہیں۔ باغبان پورہ سے تعلق رکھنے والے ارائیں خاندان کے چشم و چراغ پیدائشی صوفی اور ولی تھے۔ جب تعلیم مکمل ہوئی تو مرشد نے قصور جانے کا حکم دے دیا۔ قصور اور لاہور میں کوئی خاص فرق نہیں ہے لیکن نہ جانے وہاں کی زمین، آب و ہوا اور رویوں میں ریاضت کا کیسا امتحان مقصود ہے کہ اس سے گزرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ آپؒ مرشد کے حکم پر وہاں چلے گئے اور لوگ آپؒ کے حسنِ سلوک، علم و فضل، تصوف کے رنگوں سے متاثر ہوتے ہوئے آپ کے حلقے میں شامل ہوتے رہے، دائرہ وسیع ہونے لگا۔ جب صوفیوں کا دائرہ وسیع ہوتا ہے تو ظاہر پرستوں کو فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی حضرت شاہ عنایت قادریؒ کے ساتھ ہوا۔ اس وقت کے حاکمینِ قصور سے ان کی یہ مقبولیت درگزر نہ ہوئی، اختلاف کے سلسلے شروع ہو گئے اور پھر جب اختلاف کے سلسلے شروع ہو جائیں تو کوئی نہ کوئی وجہ بھی مل ہی جاتی ہے۔ قصور کی ایک مغنیہ، لنگرخانے میں خدمت گزاری کا کام کرتی تھی، کی بیٹی دین کی تعلیم سے بہرہ ور تھی، حافظ قرآن تھی سے شاہ عنایت قادریؒ کا نکاح ہو گیا تو اس کو ان کا قصور مان لیا گیا کہ وقت کے عالم فاضل نے مغنیہ کی بیٹی سے نکاح کر لیا۔ اس کی والدہ کا گانے بجانے سے تعلق اُچھالا گیا حالانکہ صوفی اور ولی تو ہمیشہ سُر میں چھپی ہوئی روحانیت کو اپنی طاقت تصور کرتے ہیں اور اس کے ذریعے کائنات سے مکالمہ کرتے ہیں۔ اندر خانے وجہ یہ تھی کہ مغنیہ کی بیٹی گانا گائے اور نوابوں کی محفل میں جائے۔ حضرت شاہ عنایت قادریؒ کو طلب کیا گیا اور اس کام سے باز رہنے کی تلقین کی گئی۔ انہوں نے اس کو ماننے سے انکار کیا اور نکاح کی حرمت پر قائم رہے۔ دوسری صورت میں انہیں قصور سے نکل جانے کا حکم دیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شاید حضرت شاہ عنایت قادریؒ کی لاہور کو زیادہ ضرورت تھی کیوں کہ لاہور مرکز تھا، لاہور تشریف لے آئے اور پھر تمام عمر لاہور میں ہی مقیم رہے۔ آپ کی کئی تصنیفات ہیں جو اہلِ تصوف کے لیے ہدایت کا مرکز ہیں۔ آپ کے درس میں مثنوی مولانا روم کا بیان شامل ہوتا تھا جس سے خلقِ خدا خاص محبت رکھتی تھی۔ اس کے علاوہ فصوص الحکم اور تصوف کی عظیم کتب کا درس دیتے۔ ایک بار بابا بلھے شاہؒ سے ناراض ہو گئے، وجہ یہ تھی کہ قصور میں ان سے ملنے کے لیے آنے والے حضرت شاہ عنایت قادریؒ کے حقیقی بھتیجے اور داماد کو وقت نہ دے پائے۔ شاہ عنایت کی بڑائی کا بیان اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو راضی کرنے کے لیے بابا بلھے شاہؒ کو گوالیار بھارت جانا پڑا جہاں حضرت شاہ عنایت قادریؒ کے سلسلہ شطاری کے بزرگ حضرت شیخ محمد غوثؒ کا مزار تھا۔ وہاں مراقبہ کیا اور شیخ سے اپنے دل کی حالت بیان کی۔ وہ راستہ، وہ طریقہ پوچھا جس سے ان کے مرشد دوبارہ مہربان ہو جائیں۔ اشارہ ہوا کہ فلاں قوال حضرت شاہ عنایت قادریؒ کی خدمت میں عارفانہ کلام پیش کرتے ہیں جنہیں وہ بہت پسند کرتے ہیں، آپ بھی قوالوں کی اس پارٹی میں شامل ہو جائیں۔ بابا بلھے شاہؒ نے مغنیہ کا روپ دھار کر دل کا درد بیان کیا، ’’تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا‘‘۔ جب اپنے کلام میں شاہ عنایتؒ کا ذکر کیا تو شاہ عنایتؒ نے انہیں پہچان لیا، کہا ’’تو بلھا ہے‘‘، جواب ملا ’’نہیں میں بھولا ہوا ہوں‘‘، مرشد نے گلے لگا لیا اور انسانیت کے رستے پہ چلنے والے سچے عاشق کو اپنی منزل مل گئی۔ ہم سب کی زندگی میں کوئی نہ کوئی مرشد ہم پہ نظر کرم کرنے کے لیے منتظر ہے لیکن ہم اگراپنے دل اور روح کی نگاہ سے دیکھیں تو اسے پہچانیں گے، اس کی بات سنیں گے کیوں کہ وہ ہمیں توحید کے رستے پر لے کر جانے کے لیے بے چین ہے۔ شاہ عنایتؒ کا مزار لاہور میں آج بھی ذات پات کی اس تقسیم کو رَد کرتا ہوا نظر آتا ہے جس میں بلھے نے سیّد ہو کر ایک ارائیں کے ہاتھ پر بیعت کر کے بتایا کہ تقویٰ کیا ہے؟ اور جس کو خدا بڑائی عطا کر دے وہی بڑا ہے۔ ہر انسان بڑا ہے۔ بلھےؒ کی تعلیمات میں ہر انسان کا درجہ ایک سا ہے۔ بلھےؒ کی روحانیت میں فلسفے، عشق کا سارا دارومدار انسانی وحدت پر ہے اور یہ وحدت کا سفر شاہ عنایتؒ کی جلائی ہوئی شمع سے شروع ہوا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply