(والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں)
( قسط نمبر 17)
میں اپنے دوست حبیب الرحمٰن کی دعوت پر اُس کے ساتھ کراچی کی سیر پر ہوں۔بی اے کے امتحانات ہوچکے۔ نتائج کا انتظار ہے اور میں زمانہِ طالب علمی کے یہ ’’ایامِ برزخ‘‘ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں گزارنے آگیا ہوں۔ اِسی شہر میں والدصاحب نے ہندوستان سے واپسی کے بعد پچاس کے عشرہ کے اوائل میں پھر سے اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کا آغاز کیا تھا اور امّی جان کے ساتھ مل کر ایک خاندان کی، ایک نئے گھر کی بنیاد رکھی تھی۔بھائی خالد اور شاہد یزدانی تو پیدا ہی یہیں ہوئے تھے۔
یہاں والدصاحب پاکستان کی ابتدائی فلمی صنعت سے بھی منسلک رہے اور متعدد فلموں کے لیے کہانیاں، مکالمے اور گیت لکھنے کے ساتھ ساتھ ہدایت کاری کے شعبہ میں بھی بطور معاون خدمات انجام دیتے رہے۔ پھر ادب و صحافت کی جانب آئے تو صہبا لکھنوی صاحب کے جریدہ ’’افکار‘‘ سے منسلک ہوگئے۔ لاہور آنے سے قبل انھوں نے وہاں کا گھراونے پونے داموں فروخت کردیا تھا۔ ظاہر ہے اس گھر کا نام و نشاں مجھے کراچی میں مل نہیں سکا۔ البتہ اُن کے پرانے دوست صہبا لکھنوی صاحب سے ان کے رسالہ کے دفتر میں ضرور ملاقات ہوگئی ہے۔ صہبا صاحب کے پاس اس وقت محسن بھوپالی صاحب بھی بیٹھے ہیں اور ایک اور صاحب بھی۔
انھوں نے مجھے بھی ’’شریکِ چائے‘‘ کرلیا ہے اور والدصاحب کی خیریت دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ میری تعلیمی اور ادبی مصروفیات کے بارے میں بھی استفسار کررہے ہیں۔ محسن صاحب لاہورمیں اپنے ادبی دوستوں کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ صہبا صاحب انھیں بتاتے ہیں کہ ان کے نظمانوں یعنی مختصر نظموں سے متاثر ہوکر میں نے بھی کچھ ’’نظمانے‘‘ افکار کو بھجوائے ہیں۔ محسن صاحب یہ سن کر مسکراتے ہیں اور مجھے کچھ سنانے کی فرمائش کرتے ہیں۔یہ حوصلہ افزائی ہے۔
کل میں یہاں کلفٹن سے بھی ہوآیا ہوں اور مزارِ قائد پر بھی حاضری دے آیا ہوں۔ شہر کی ایک مصروف سڑک کے کنارے پرانی کتابوں کی دکان سے انگریزی زبان میں لکھے گئے افسانوں کا ایک ضخیم انتخاب بھی خریدا ہے کہ واپسی پر شریکِ سفر رہے گا۔میں نے سمندر پہلی بار دیکھا ہے اور اس کی وسعت سے بس دُور دُور ہی سے تعارف ہوا ہے۔ ساحل پر چہل قدمی کی ہے اورسمندرکی ہَوا کو محسوس کیا ہے۔
واپسی کا سفر ٹرین کے بجائے این ایل سی کی نئی بس سروس کے ذریعہ کرنا طے پایا ہے۔ یہ ایک طویل، تھکا دینے والا مگربہرصورت ایک یادگار سفر ہے میری زندگی کا۔ بس کی کھڑکی سے سندھ کے دیہات کا نظارہ کرتے ہوئے پنجاب کی سرزمین پر واپسی تک جاگتے سوتے میں انگریزی افسانوں کی کتاب کا مطالعہ بھی مکمل کرلیا ہے۔
٭٭٭٭٭
بی اے کے امتحانات کے نتائج کا اعلان ہوگیا ہے۔ میں نے یہ امتحان بھی پہلے کی طرح فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا ہے۔ ایم اے کے لیے انگریزی ادبیات، فارسی ادبیات اور سوشیالوجی کے مضامین میں ’’جوڑ‘‘ پڑا ہے اور اس میں فتح سوشیالوجی کی ہوئی ہے۔ والدصاحب خوش ہیں۔ میں جانتا ہوں اِس مضمون سے اُن کو ایک جذباتی وابستگی ہے۔ مجھے یاد ہے میں نے گورنمنٹ کالج میں فرسٹ ائر ہی میں جب دیگر اختیاری مضامین کے ساتھ سوشیالوجی کا انتخاب کیا تھا تو وہ کِھل اُٹھے تھے کیوں کہ اُن کے سب سے چھوٹے اور چہیتے بھائی سید عبدالرحمٰن رضوانی (مرحوم) نے اسی مضمون میں ایم اے کیا تھا۔ چچا رضوانی کو ہم سب ’’چچا نصر‘‘ کہتے تھے کہ اُں کی کنیّت ’’ابو نصر‘‘ تھی۔
مجھے یاد ہے جب میں نے والدصاحب کو بتایا تھا کہ کالج میں میرے سوشیالوجی کے استاد پروفیسر محمد احمد صاحب چچا نصر کے ہم جماعت رہے ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح چچا نصر اپنی شاعری اور اپنی شخصیت کے سحر سے ڈیپارٹمنٹ کو مہکائے رہتے تھے تو والدصاحب کی آنکھوں میں نمی تیر گئی تھی۔ برسبیلِ تذکرہ،دادا جان سیّد بہاول شاہ گیلانی صاحب نے اپنے تمام بچوں کے نام کنیّت کے ساتھ رکھے تھے۔ جیسا کہ والد صاحب کا مکمل نام انھوں نے ابو بشیر سیّد یزدانی الگیلانی اور نصر چچا کا نام ابو نصر سید عبدالرحمٰن رضوانی الگیلانی رکھا تھا۔چچا نصر کی وفات نے والدصاحب کو بہت دکھی رکھا تھا۔ میرے سوشیالوجی میں داخلہ سے انھیں گویا دلی خوشی ہوئی تھی کہ میں ان کے پیارے بھائی کے نقشِ قدم پر چل رہا ہوں اور یہ کہ ان کی خوشی مجھے عزیز ہے۔
٭٭٭٭٭
میں نے ایم اے سوشیالوجی کے آخری مرحلہ میں جو تھیسز لکھا ہے اُس کے انتساب میں اُن کے نام کے ساتھ چچا رضوانی کا نام شامل کیا ہے جس پر والدصاحب مسرور ہیں اور میری طرف محبت سے دیکھتے ہیں۔اور تحقیقی مقالہ کی تعریف بھی کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
پنجاب یونی ورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر محمد انور بھی چچا رضوانی اور چچی ثروت کے کلاس فیلو رہے ہیں۔وہ اور پروفیسر محمد اقبال چوہدری صاحب چچا کا ذکر بہت محبت سے کرتے ہیں۔چوہدری صاحب بتاتے ہیں کہ انھوں نے ہی امریکا میں چچا نصر کی نمازِ جنازہ پڑھائی تھی۔وہ دونوں ایک ہی یونی ورسٹی میں زیرتعلیم تھے۔
٭٭٭٭٭
ایم اے سوشیالوجی کرنے کے بعد لیکچرار شپ اختیار کیے ہوئے مجھے دو برس ہوگئے ہیں۔ انیس سو نواسی میں گرمیوں کی چھٹیاں آغاز ہوگئی ہیں اور میں اپنے دوست امجد علی کے اصرار پر اُس سے ملنے اور جرمن زبان میں ایک کورس مکمل کرنے جرمنی کے شہر کولون پہنچ گیا ہوں۔خوب آوارہ گردی ہورہی ہے۔ اسی دوران میں والد صاحب کا خط موصول ہوتا ہے کہ کالج اس بار جلد کُھل رہے ہیں اور مجھے اپنے جرمنی میں قیام کو مختصر کرتے ہوئے جلد واپس لوٹنا ہوگا۔ میں ان کے مشورہ کے مطابق ٹکٹ کی تاریخ میں تبدیلی کرواتے ہوئے واپس پاکستان لوٹ آیا ہوں۔
٭٭٭٭٭
والد صاحب جرمنی قیام کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ میں کچھ واقعات، مشاہدات اور احساسات بیان کرتا ہوں۔ وہ فرماتے ہیں:
’’یہ تو بہت دل چسپ ہیں۔ میرا خیال ہے آپ کو سفرنامہ لکھنا چاہیے،‘‘
میں جواباً عرض کرتا ہوں کہ میں تو بس دوماہ ٹھہرا ہوں اور یہ کہ نوٹس بھی نہیں لے سکا۔
فرماتے ہیں کہ مدت اس میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتی اور یہ کہ احباب تو چند کلومیٹر دُور یعنی واہگہ بارڈر پار کرکے بھی سفر نامہ لکھ دیتے ہیں جبکہ میں نے تو ہزاروں میل دُور ایک مختلف ثقافت کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس لیے مجھے اس پر لکھنا چاہیے۔
میں ازراہِ ادب وعدہ کرلیتا ہوں۔
٭٭٭٭٭
میری شادی کا دن آن پہنچا ہے۔ بارات دلہن کے گھر پہنچی ہے اور والدصاحب اپنے ہاتھ سے ہمارا نکاح نامہ مکمل کررہے ہیں۔ مولوی صاحب کے لیے محض دعا ہی کا حصہ بچا ہے۔ بارات میں والدصاحب نے اپنے چند قریبی دوستوں کو بھی مدعو کررکھا ہے۔شادی کی رسوم مکمل ہوئیں اور طاہرہ خلیل اب طاہرہ خلیل یزدانی ہوگئی ہیں۔ میری خواہش پر اُن کے والد صاحب کا نام نہیں ہٹایا گیا اور طاہرہ کی خواہش پر ’’یزدانی‘‘ کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ یوں دو خاندان باہم منسلک ہوگئے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ابھی شادی ہوئی ہے اور ابھی مجھے جرمنی بھی روانہ ہونا ہے جہاں کولون یونی ورسٹی میں پوسٹ گریجویٹ پروگرام میں داخلہ کی نوید بھی مل گئی ہے اور ریڈیو ڈوئچے ویلے، دی وائس آف جرمنی کی اردو نشریات میں بطور پروڈیوسر(ایڈیٹر) تین سالہ ملازمت کا خط بھی۔دونوں ساتھ ساتھ ہی موصول ہوئے ہیں۔ مجھے جلد روانہ ہونا ہوگا۔ میں والدصاحب سے مشورہ کرتا ہوں کہ مجھے یونی ورسٹی میں داخلہ کی پیش کش قبول کرنا چاہیے یا وائس آف جرمنی کا معاہدہِ ملازمت؟
والدصاحب فرماتے ہیں کہ فوری طور پر تو مجھے دونوں طرف کی پیش کش کو قبول کرلینا چاہیے اور حتمی فیصلہ جرمنی جاکر کرنا چاہیے۔ میں اُن کے مشورہ پر عمل کرتا ہوں اور دونوں طرف اپنی ’’ہاں‘‘ بھیج دیتا ہوں۔
٭٭٭٭٭
دو فروری انیس سو نوّے کا دن ہے اور میں جرمنی کے لیے رخصت ہورہاہوں۔ امی جان میرے جانے پر رضامند نہ تھیں۔ والدصاحب نے یہ کہہ کر امی جان کو اجازت دینے پر آمادہ کرلیا ہے کہ یہ سفر، یہ تجربہ بیٹے کی زندگی کے لیے اور اس کے ادبی کیریر کے لیے بہت ضروری ہے۔ میں وداع کرنے آئے احباب اور اہلِ خانہ کو خدا حافظ کہتا ہوں۔ سب سے آخر میں والدصاحب سے گلے ملتا ہوں۔ وہ بہت کم بغل گیر ہوتے ہیں کسی سے۔ میں جانتا ہوں مگر پھر بھی اُن سے لپٹ جاتا ہوں۔
۔ ان کے بدن میں مجھے ہلکی سی لرزش محسوس ہوتی ہے۔ شاید وہ جذباتی ہورہے ہیں۔ میں ان سے الگ ہوکر بے اختیار ان کی آنکھوں میں دیکھتا ہوں جن میں سے نمی جھانک رہی ہے۔’’کیا میں رُک جاؤں؟‘‘ میں دھیرے سے پوچھتا ہوں۔’’نہیں، نہیں۔ آپ ضرور جائیے۔ یہ بہت اہم سفر اور تجربہ ہے آپ کے لیے۔ تخلیق کا ر کو ہجر اور ہجرت دونوں تجربوں سے گزرنا چاہیے۔ سفر بہت ضروری ہے لکھنے کے لیے۔‘‘ وہ ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے جواب دیتے ہیں۔
اور ان کی لرزتی ہوئی آواز اور محبت بھرے لہجے کو اپنی سماعتوں میں سمیٹے میں جرمنی کی جانب پرواز کرجاتا ہوں۔
جاری ۔۔۔۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں