میرا داغستان(ناول)حمزہ رسول توف/تبصرہ-گلزار ملک/2،آخری قسط

تخلیقی ادب میں الفاظ، متن اور علامتیں ان محسوسات کی نمائندہ ہوتی ہیں جو تخلیق کار کے اندر کہیں جنم لے کر اس تخلیق کے ظہور کا سبب بنتی ہیں اور ایک لمبی ریاضت کا جواز بھی لیکن بعض اوقات انسان ان پچیدہ محسوسات کاانکشاف با حوالہ ذات کرنے سے کتراتا ہے یعنی وہ اس کے لئے ماحول‘ کردار اور دوسرے وسیلے استعمال کرتے ہوئے اوہام و وساوس سے چھٹکارا پا کر اثبات پانے کی کوشش کرتاہے رسول حمزہ توف کی یہ کاوش بھی ایسی ہی ہے اگر یہ حقیقت ہے تو اس صورت کا واقعاتی بیان، کیف و سرور‘ فلسفیانہ توجیح‘ فنکارانہ عمدگی کا احساس‘ خوشی و انبساط کی کامل ترسیل کے تجربہ کے لیے آپ اس کتاب کی انفرادی بنت کو دیکھیے اور مزا لیجئے۔ جن اشیاء‘ خواص اور خوبیوں کو انسان اپنی خاک اور جوہر میں گوندھا ہوا ورثے میں پاتا ہے اب کسی دوسرے کے لیے وہی جواہر ان کی ابدی ازلی تمنا و خواہش ہیں جسے مشقت سے ایک جگہ یکجا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے‘ تمثیلیں‘ لوگ داستانیں‘ کہانیاں‘جو انسانوں کے ساتھ ہی دھرتی سے اٹھ جاتی ہیں انہیں اس کتاب نے دوام بخشا ہے جیسے کہ یہ چھوٹی دو کہانیاں۔
”شکاریوں سے بچنے کی کوشش میں بھیڑیا ایک غار میں جا چھپا۔ غار کے اندر جانے کا صرف ایک ہی راستہ تھا اور وہ بھی بہت تنگ‘ بس اتنا کہ ایک آدمی کا سر اندر جا سکے شکاری ایک چٹان کی اوٹ میں چھپ گئے اور اپنی رائفلوں سے غار کے تنگ دہانے کا نشانہ لے کر انتظار کرنے لگے تاکہ بھیڑیا غار سے باہر آئے تو شکار کیا جاسکے۔ لیکن بھیڑیا بے خوف اور اطمینان سے اپنی پناہ گاہ میں آرام کرتا رہا اب صورتحال یہ تھی کہ ہار ا س کی ہونی تھی جو اپنا صبر کھو دیتا۔ آخر ایک شکاری اس انتظار سے اکتا گیا اور بھیڑیے کوغار سے نکالنے کے لیے اس نے غار کے دہانے میں اپنا سر ڈال دیا۔ اس کے ساتھی خاصی دیر تک اس کے سر باہر نکالنے یا اندر جانے کا انتظار کرتے رہے آخر انہوں نے اپنے ساتھی کے سر کو اس سوراخ سے با ہر نکالنے کی کوشش کی. اسے کھینچ کر باہر نکالا گیا تو اس کا سر غائب تھا۔ اب باقی دو شکاریوں میں یہ بحث چھڑ گئی کہ جب اس نے غار کے اندر گھسنے کی کوشش کی تو اس کے پاس سر تھا۔ بے سر کے لاشے کو جب گاؤں لایا گیا تو گاؤں کے ایک معمر بزرگ نے فیصلہ دیا ” بھیڑیے کی ماند میں گھسنے کا اس نے جو فیصلہ کیا‘ اسے دیکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ ایک عرصہ پہلے ہی وہ سر سے محروم ہو چکا تھا“ اب دوسری کتھا دیکھئے
”ایک پہاڑی دوشیزہ نے جو محبت سے پہلی دفعہ آشنا ہوئی تھی صبح سویرے کھڑکی سے سر نکا لا اور چلائی
”اف سر سے پیر تک پھول سے لدے پیڑ کتنے خوبصوت لگ رہے ہیں۔“
”تمہیں پیڑوں پر پھول کہاں سے نظر آ گئے۔۔ اس کی بوڑھی ماں نے پیڑوں کو دیکھتے ہوئے آہ بھر کرکہا تھا ” یہ تو برف ہے خزا ں کا آخری دور بھی ختم ہو گیا اب تو آگے جاڑا ہی جاڑا ہے“
ادب اور زندگی کا رشتہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ انسان‘ ان کا ہمیشہ ہمیشہ کا ساتھ ہے اور یہ ایک دوسرے سے اسی طرح وابستہ ہیں جیسے خالق تخلیق سے‘ جڑیں پودے سے اور چاند دھرتی سے جڑا ہوا ہے کبھی نہ جدا ہونے والے رشتے میں پروئے ہوئے‘ ہر دور کا ادب اس دور کی نقاشی کرتا ہے لیکن بڑے ادب کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے عہد اور زمان و مکاں سے ماوراہ ہو کر ہر عہد میں زند ہ رہنے کی صلاحیت ر کھتا ہے۔ ”میرا داغستان“ کا مطالعہ رغبت اور ادبی ورثہ جیسی خصوصیات سے خالی نہیں۔ تخلیقیت کی قبولیت کا صلہ اور عہد حاضر کے ادب میں انفرادیت جو نہایت اعلی سطح کی تخلیق میں ہوتی اس کتاب میں ضرب المثل کی صورت موجود ہے جو قاری کو حقیقت کے قریب تر لے جاتی ہے اور ایک نئی دھرتی کی سیر کرواتی ہے یہ تصویر محض ایک منظر نامہ نہیں لگتا بلکہ سچائی کا ادارک کرواتا ہے جو انسانی عہد کے پنوں میں محفوظ ہے اور جنہیں رسول حمزہ توف نے اعلی سطح پر برتا ہے اور نثر لطیف ہوکر شاعرانہ حسن سے مزین ہو گئی ہے کتاب کی قرات‘مقام فلسفہ و ادیبات‘ موضوع مکالمہ ازلی ابدی خواہشات جوہر نوع اور شے جو عقل سلیم رکھتی ہے (جیسا کہ ازل سے خواب ہوا‘ سوچا گیا اور پھر ر قم ہوا) کی شائد یکساں ہیں اور یہاں ضرب والمثل کے بیانیے کی صورت صدیوں کی کتھا بن کر وارد ہوتی ہیں اور قاری کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہیں۔
”اس بندے کو بہادر نہیں کہا جا سکتا جو گھوڑے پر سوار رن کی طرف جاتے ہوئے یہ سوچتا ہو کہ اس کے کیا نتائج ہوں گے“
”ہاتھ معجزہ نماہوں تو سانپ کا زہر بھی تریاق بن جاتا ہے اور اگر کسی بے وقوف کے ہاتھ میں پڑ جائے تو شہد بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے“
”اگر تمہیں کہانی کہنا نہیں آتی تو اسے گیت میں ڈھال دو‘ اور اگر گانا نہیں آتا تو اسے کہانی بنا دو“
”ہم پتھر ہیں اور ہ دن زیادہ دور نہیں جب ہم جڑ جائیں گے گرجے‘ زندان‘یا باڑی کی دیواروں میں۔“
”ایسا دووازہ مت کھولو جسے تم بند نہ کر سکتے ہو“
”جلو کہ سارے زمانے میں روشنی ہو جائے“ (ایک لیمپ پر کھدا ہوانقش)
”مہمان جدھر سے بھی دیکھو خوبصورت دکھائی دیتا ہے لیکن کبھی کبھی سب سے خوبصورت منظر وہ ہوتا ہے جب اس کی پشت آپ کی طر ف ہو“
”وقتا فوقتا میں تقریبات کی نوید سناتا ہوں‘ لیکن میری آواز میں خبردار رہنے کی گونج بھی ہو سکتی ہے“ (ایک گھڑیال پر لکھی ہوئی عبارت)
”نیام میں ہمہ وقت قید رہنے والے خنجر میں آب باقی نہیں رہتی“
”بستر میں ہمہ وقت سونے والا سوار اپنی چستی اور پھرتیلا پن کھو بیٹھتاہے“ (ایک خنجر پر نقش تحریر)
”کسی ایسی ندی کو جو سمندر تک پہنچ چکی ہو اورلامحدود نیلی وسعتوں سے ہمکنار ہو چکی ہو پہاڑوں کی گود میں واقع اس معمولی جھرنے یا سوتے کو نہیں بھولنا چاہے جس نے اسے جنم دیا اور نہ ہی اسے اس پتھریلے اور ناہموار راستے کو بھولنا چاہیے جو اسے یہاں تک لایا اور وہ ان وسعتوں سے ہمکنار ہوئی“
”اگر دنیا میں لفظوں کا وجود نہ ہوتا تو وہ ایسی نہ ہوتی جیسی آج ہے“
”جو شخص زبان سے ناوقفیت کے باوجود شعر گوئی کرے وہ اسی طرح کا پاگل ہے جو تیراکی نہ جانتے ہوئے بھی دریا میں چھلانگ لگا دے“
یہ مت کہو کہ” مجھے موضوع بتائیے یہ کہنا بہتر ہے کہ مجھے آنکھیں عطا کیجئے“
کسی بھی تخلیق کے قد کاٹھ کا فیصلہ ارتکاز پزیر خیالات اور جذبوں کے اس محور پر ہوتا ہے جسکے اردگرد اس کتاب کی بنت کاری کی گئی ہو، آفاقی جذبہ مطلب بڑی کتاب۔۔ کہتے ہیں ہمیشہ زندہ رہنے والا ادب انسانی موت کا نوحہ ہے میں اسے یوں مکمل کرتا ہوں کہ یہ انسانی موت کے ساتھ ساتھ ا نسانی زیست اور زندگانی کرنے کا بھی نوحہ ہے۔ میں بڑا تخلیق کار اسے مانتا ہوں جس کی پسلیوں میں دل کی جگہ ہم نفسوں کا دکھ دھڑکے۔ انسان کی بدبختی یہ ہے کہ یہ دھرتی اور ا س پر پیدا ہونے والے اسباب پر انسانوں کے یکساں حق کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور ایک سچا تخلیق کار ہمیشہ اپنے قلم سے اس بے انصافی کے خلاف جہاد کرتا دکھائی دیتاہے اس کتاب میں جا بجا مٹی کی ڈھیریاں، باسمتی چاولوں کی سوندھی سوندھی خوشبو، راکھ سے مانجھے برتن، دیگچی، توا،ا ور رکابی مجھے لگا جیسے کتاب کی بجائے فریم پر نقش کوئی تصویر دیکھنے لگا ہوں اگر کوئی مصور اسے پڑھتا تو باقی ماندہ منظر خود مکمل کر لیتا وہ اس تصویر میں صنوبر اوردیودار، ڈھکے ہوئے اونچے اونچے پہاڑ، دامن میں ز یتون کے جنگلات، وادیوں کے پیندے کو چھوتے شفاف نالے اور ان کے کنارے اخروٹ کے درخت مکئی اورد ھان کے دلکش نظارے، باغوں میں انگور کی پیچ در پیچ بیلیں، شہتوت اور سیب کے پیڑ اور کناروں پر عناب کے پود ے شامل کرکے اس منظر کو لافانی کر دیتا۔
”میرا داغستان‘کی ظاہری ہیت میں مجھے کہیں خلا نظر نہیں آیا بلکہ تخلیق کار جذبات میں اتار چڑھاؤ پیدا کرنے بھی کامیاب رہا اور کتاب کی تخلیقی کہانی حیرت انگیز طور پر ایک وحدت میں پروئی دکھائی دی اور یہی تسلسل اور وحدت کتاب کی خوبصورتی ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ بھی منجھے ہوئے ہاتھوں نے کیا ہے میں آخر میں ترجمہ کرنے والی شخصیت جناب اجمل اجملی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے کمال فن سے اس کتاب کو یہ روپ دیا اور اسے خوبصورتی کا پیرہن فکشن ہاوس لاہور نے پہنایا ہے آپ یہ کتا ب ان سے طلب کر سکتے ہیں۔
”میں اجنبی سرزمینوں کی خاک چھان کر واپس آگیا ہوں گاؤں کے باہر میں اپنے گھوڑے پر سے اتر پڑا ہوں اور اس کی لگام پکڑے آڑھی ترچھی گلی سے گزر رہا ہوں بہتر یہی ہو گا کہ گھوڑے پر سے زین اتار لوں اس کی گردن پر تھپکیاں دے کر اسے چراگاہ میں چرنے کے لئے چھوڑ دوں یہاں تک میری اپنی بات ہے تو میں سوچتا ہوں کہ الا ؤ کے پاس بیٹھ کر تھوڑی دیر سگریٹ سے لطف لوں گا۔ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کیو نکہ بہر حال ہر سفر کا پر مسرت طور پر ختم ہونا ضروری نہیں اسی طرح ہر نئی کتاب بھی کامیاب نہیں ہوتی ۔ صبح ہوگی تو میں ایک نئی کتا ب شروع کروں گا۔ ایک نئے سفر کا آغاز کروں گا لیکن اس وقت میں اس سفر سے بہت تھک گیا ہوں مجھے لحاف اوڑھ کر سو جانا چاہے دوستو شب بخیر۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ  عالمی کتابوں کے اردو تراجم

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply