حیدرآباد کی دادی لیلا وتی/نثار نندوانی

دو دن پہلے میں نے ایک پوسٹ لگائی تھی جو رائے بہادر “اودھو داس تارا چند” کے بارے میں تھی ، جس نے شکار پور میں ایک خیراتی ہسپتال تعمیر کروایا تھا اور اپنا نام سیڑھیوں پر لکھوایا تھا تاکہ لوگ اس کے نام پر پیر رکھ کر داخل ہوں ، اس پر قدم رکھے بغیر ہسپتال میں داخل ہونا محال تھا۔

تقسیم ہند سے پہلے سندھ کے شہروں کی تعریف یہ ہوا کرتی تھی کہ جو بھی دیہات سے آئے تو کسی کو بھی مایوس نہ لوٹنا پڑے کیونکہ اس دور میں غیر مسلم مخیّر حضرات دوسروں کی مدد کیلئے ہمیشہ آگے رہتے تھے ۔
اگرچہ سندھ میں مسلمان اکثریت میں تھے مگر فلاحی کاموں میں غیر مسلم بہت آگے تھے۔ جس کی خاص وجوہات یہ تھیں کہ زیادہ تر مسلم آبادی دیہی اور غیر مسلم آبادی شہری تھی۔ تجارت اور تعلیم کے اعتبار سے غیر مسلم زیادہ ترقی یافتہ تھے ۔

جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے تو سیاق و سباق کو سمجھے بغیر اَن پڑھ مسلمانوں کو بتاتے رہے کہ تعلیم بس اتنی کافی ہے کہ قرآن پاک پڑھا جا سکے اور دنیا تو محض عارضی پڑاؤ ہے، اصل سرمایہ کاری تو آخرت کے لیے ہے۔ تعلیم ، بالخصوص عورتوں کی تعلیم کے بارے میں یہ نظریہ راسخ تھا کہ اسکول بھیجو گے تو لڑکیوں میں اخلاقی خرابیاں پیدا ہوں گی مگر وہ شاید یہ بتانا بھول گئے کہ اسلام میں انسانیت کی فلاح ، صحت و صفائی ، کم حیثیت اور مستحقین کی فکر پر کس قدر زور دیا گیا ہے کیونکہ دنیا سنوارے بغیر عاقبت نہیں سدھر سکتی۔

لہذا جن چند مسلمانوں کی سمجھ میں فلاحِ انسانیت کے پیغام کے معنی اور اہمیت اجاگر ہوئی انھوں نے اس کا ثبوت بھی دیا۔ مثلاً ٹنڈو باگو میں میر غلام محمد تالپور کا گرلز اسکول ، میٹرنٹی ہوم اور دائی ٹریننگ سینٹر ، حیدرآباد میں نور محمد ہائی اسکول ، خان بہادر محمد صدیق میمن کا مدرستہ البنات ہائی اسکول ، سردار بہادر محمد بخش شیخ کوجھی کا حمائتِ اسلام گرلز اسکول ، ویمن ہیلتھ سینٹر ، میٹرنٹی ہوم اور کراچی میں حسن علی آفندی کا سندھ مدرستہ السلام ۔
لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلے میں حیدرآباد کی “دادی لیلاوتی واسوانی” سندھ کا آخری تہذیبی کردار تھیں۔

دادی لیلاوتی نے  20 دسمبر 1916 میں حیدرآباد کے علاقے ہیرآباد میں ایک صاحب ثروت ہندو گھرانے “دیوان ہوت چند تیرتھ داس وادھوانی” کے ہاں جنم لیا۔ ہندو رواج کے مطابق بھجن گائیکی کی تعلیم چار سال کی عمر سے ہی استاد جوشی سے حاصل کرنا شروع کی اور سات سال کی عمر میں انہوں نے ہارمونیم بجانا سیکھ لیا ، کندن مل گرلز ہائی اسکول سے میٹرک کیا ۔

ان دنوں لڑکیوں کے لیے سرکاری ہائی اسکول کی سہولت میرپور خاص ، حیدرآباد اور کراچی میں اور میٹرک سے اوپر کی پڑھائی و امتحانات کی سہولت صرف کراچی میں میسر تھی۔

1939 میں لیلاوتی نے گورنمنٹ کالج کالی موری حیدرآباد سے گریجویشن اور سندھ یونیورسٹی سے سندھی لٹریچر میں ماسٹرز مکمل کیا۔
دادی لیلاوتی کو گائیکی کا شوق تو بچپن سے ہی تھا۔ پاکستان کے قیام سے قبل گورنمنٹ ٹریننگ کالج فار وومین حیدرآباد میں موسیقی کا ایک پروگرام منعقد ہوا۔ اس میں اُس دور کے صوبائی وزیرِ تعلیم جی ایم سید ، سندھ اسمبلی کے سابق اسپیکر میراں محمد شاہ اور علامہ ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتا بھی شریک تھے۔ دادی لیلاوتی نے اس پروگرام میں موسیقی کے جوہر دکھائے۔

پروگرام کے اختتام پر محترم جی ایم سید نے لیلا وتی کو میوزک استاد کے طور پر پیشکش کی، یوں 1942 میں انہیں 35 روپے ماہوار تنخواہ پر موسیقی کا استاد مقرر کیا  گیا۔
ابھی ان کی عمر 20 سال ہی تھی کہ سندھ میں آل انڈیا میوزک کمپیٹیشن منقعد ہوا اور یہ ایوارڈ انہوں نے جیتا ۔

قیام پاکستان کے بعد اس کی فیملی ہندوستان ہجرت کر گئی ، دادی لیلا وتی  نے اپنے روحانی گرو سادھو ٹی ایل واسوانی  کے ساتھ پاکستان میں ہی قیام رکھا مگر ان دونوں کیلئے حیات عرصہ تنگ کر دیا گیا اور گرو واسوانی مجبوراً ہندوستان چلے گئے ۔

ان کے گرو سادھو ٹی ایل واسوانی سمجھتے تھے کہ نئے ملک کو ہماری ضرورت ہے۔ انھیں محمد علی جناح کی قیادت پر مکمل یقین تھا۔ جناح صاحب کا انتقال ہوا تو گروجی نے سوگ میں برت رکھا اور گیتا کی تلاوت کرتے رہے۔ کچھ ہی عرصے میں حالات اتنے تنگ ہوگئے کہ خود گرو کو بھی کوچ کرنا پڑا مگر وہ لیلا کو نصیحت کر گئے کہ تم پوری کوشش کرنا کہ مٹی سے جڑی رہو اور دھرتی کی خدمت کرتی رہو۔

لیلا وتی نے 1952 میں کراچی کے این جے وی اسکول سے بیچلر آف ٹیچنگ (بی ٹی) کی ڈگری حاصل کی۔ دورانِ تعلیم ریڈیو پاکستان میں کچھ عرصے گلوکاری بھی کرتی رہیں۔ 1954 میں سول سرجن ڈاکٹر تلسی داس ہرچندانی سے شادی ہوئی۔ ایک ہی بیٹا پردیپ کمار ہے ، ان کے بیٹے پردیپ کمار بھی شعبہ درس و تدریس سے منسلک ہیں اور لیاقت میڈیکل کالج میں استاد ہیں۔

سندھ میں موسیقی کے حوالے سے دو بڑے نام جن میں جیجی زرینہ بلوچ اور روبینہ قریشی شامل ہیں، اُنہیں بھی دادی لیلاوتی نے ریڈیو پر متعارف کروایا۔ دادی لیلاوتی کی ملازمت کی ابتداء تو بطور میوزک ٹیچر ہوئی تھی، مگر قسمت کو دادی لیلاوتی سے کچھ اور ہی کام درکار تھا۔
دادی لیلا میرپور خاص گرلز اسکول کی ہیڈ مسٹریس رہیں ، وہ گورنمنٹ ٹیچرز فار وومن کی پرنسپل رہیں ۔

دادی لیلاوتی 1976 میں ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن کے عہدے سے ریٹائر ہوئیں۔ مگر یہ صرف ایک محکمے سے ریٹائرمنٹ تھی جبکہ انہوں نے کام سے ریٹائر ہونے کا کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ 1981 سے 1991 تک وہ یونیسیف کی مدد سے کئی اسکول قائم کرنے میں پیش پیش رہیں۔

1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں ممبر اسمبلی بنی ۔ان پر الزام لگا کہ یہ خاتون صرف مسلمانوں کو نوکریاں دیتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں کیا کروں مسلمان نوجوانوں میں بیروزگاری زیادہ ہے اس لئے میں ان کو نوکریاں دیتی ہوں (اصل اعتراض یہ تھا کہ بنا کسی معاوضے کے مستحق افراد کو نوکریاں دیتی ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

دادی لیلاوتی صرف ایک استاد نہیں تھیں بلکہ وہ سماجی طور پر  بھی ایک ایسا متحرک کردار تھیں، جنہوں نے سماج میں موجود مسائل کو اجتماعی طور پر حل کرنے کی کوشش کی۔ مستحق لڑکیوں کے دہیج (جہیز) سے لیکر اُن کی تعلیم کے مسائل کو بھی وہ حل کرنے میں ہمشہ پہل کرتی نظر آتی تھیں۔
14 ستمبر 2017 میں 102 سال کی عمر میں انتقال کرنے والی دادی لیلا وتی  سندھ کی عورتوں کی تعلیم میں ایک اہم مقام رکھنے والی سندھ کی خواتین کا آخری متحرک کردار تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply