نذیر ناجی!اِک عہد کا اختتام/اسلم ملک

نذیر ناجی صاحب کا نام پہلی بار میٹرک کے زمانے یعنی 1967 کے آس پاس پڑھا۔ وہ اِن  دِنوں روزنامہ “انجام” میں تھے، فلمی صفحہ بھی مرتب کرتے تھے۔ اس کے کسی سلسلے میں اداکارہ زیبا کی دستخط شدہ تصویر کا انعام دیا جاتا تھا۔ ایک بار مجھے انعام ملا تو تصویر کے ساتھ ناجی صاحب کا خط بھی تھا جس کے آخر میں انہوں نے اپنا نام نذیر احمد ناجی لکھا تھا۔

کالج کے زمانے میں میری ایک رائے بنی کہ دو شخص ایسے ہیں کہ جو نئے نئے آئیڈیاز سے کسی اخبار رسالے کو ایک دم بلندی پر لے جاسکتے ہیں۔۔ ایک سید قاسم محمود اور دوسرے نذیر ناجی۔ میری یہ رائے اب تک برقرار ہے۔ میر خلیل الرحمٰن جیسے مردم شناس نے نذیر ناجی جیسے نوجوان کو ایسے ہی تو نہیں اخبار جہاں کا پہلا ایڈیٹر منتخب کیا ہوگا۔ ان کے بارے میں میری مذکورہ رائے ہفت روزہ “شہاب” سے بنی۔ ایک اور حوالے سے بھی میرے پاس موزوں ترین مثال نذیر ناجی کی رہی، وہ یہ کہ کوئی شخص فارمل تعلیم کے بغیر بھی ذاتی مطالعے سے اعلیٰ قابلیت حاصل کرسکتا ہے۔

نذیر ناجی سے بالمشافہ ملاقاتیں اس وقت ہوئیں جب انہوں نے مولانا کوثر نیازی کا روزنامہ “حیات” سنبھالا۔ میرے تین چار دوست اس میں کام کرتے تھے۔ میں اس کے دفتر سے بس چند قدم کے فاصلے پر رہتا تھا۔ “امروز” میں ڈیوٹی سے فارغ ہوتے ہی “حیات” پہنچتا۔ ایک دن کوئی سرخی بہتر بنانے کیلئے میں نے کوئی مشورہ دیا تو وہ انہیں پسند آیا۔ اس کے بعد انہوں نے میرے دوستوں یاسین چودھری وغیرہ سے کہہ دیا کہ جب آپ کے وہ دوست آئیں تو بڑی سرخیاں انہیں دکھا لیا کریں۔ یہ ضیاء الحق کے ظلم و جبر کی انتہا کا زمانہ تھا۔ بھٹو پر کیس شروع ہوچکا تھا۔ اخبار میں سخت مزاحمت بھی ظاہر کرنی تھی اور کسی کارروائی سے بچنے کی کوشش بھی کرنی ہوتی تھی۔ ناجی صاحب کا خیال تھا کہ جس احتیاط یا سیلف سنسر کی ضرورت ہے، میں اس کی طرف توجہ دلا سکتا ہوں۔

اس زمانے کے بعد بس کبھی کبھار سامنا ہوتا رہا چونکہ وہ ریگل چوک والے پرانے پریس کلب بیٹھتے تھے اور میں پاک ٹی ہاؤس۔ پریس کلب میں مئے نوشی کی جو سہولت تھی، مجھے اس سے دلچسپی نہیں تھی۔ انہیں دنوں سنا، ایک دن وہ پریس کلب سے اتر کر ایک رکشے میں بیٹھے اور کرشن نگر چلنے کیلئے کہا، ساتھ ہی انہیں اونگھ آگئی۔ چھ سات بجے صبح آنکھ کھلی تو رکشہ ریگل چوک میں ہی تھا اور کوئی پوچھ رہا تھا، یہاں کیوں سوئے ہو؟۔۔۔۔ دراصل وہ بند رکشے میں بیٹھ گئے تھے جو رات سے وہیں کھڑا تھا۔ اب رکشے والا اپنا دھندہ شروع کرنے کیلئے آیا تھا۔

بے نظیر بھٹو کے دور میں نذیر ناجی کا کالم “سویرے سویرے” نوائے وقت میں چَھپ رہا تھا۔ بے نظیر حکومت نشانہ ہوتی۔ میں بینظیر کا حامی تھا، اس کے باوجود ناجی کے نشانوں سے محظوظ ہوتا۔ وہ بلاشبہ ان کے بہترین کالم تھے۔ ان کا انتخاب بھی شائع ہوا۔ ہمارے ایک رشتے دار بُک سیلر نے میری اہلیہ کی 100 کتابیں ہم سے لی تھیں۔ ان کی دکان پر “سویرے سویرے” کا ڈھیر دیکھ کر مجھے خیال آیا تھا کہ اپنی کتاب کے پیسے تو ان سے وصول ہونا مشکل ہی ہے، ان سے تبادلے میں “سویرے سویرے” کی سو کاپیاں لے لوں۔ (وہ شاید اسی رشتے دار نے شائع کی تھی) دوستوں کیلئے بہترین تحفہ لگا۔ لیکن ان صاحب کے دکان بدلنے اور پھر انتقال کی خبر ملی تو میں کتاب کی ایک کاپی بھی نہ لے سکا۔

نوائے وقت کے ان کالموں یا کسی اور طرح سے ناجی صاحب نواز شریف کے بہت قریب ہوگئے۔ اپنے دو بیٹوں کو پولیس انسپکٹر اور نائب تحصیلدار بنوایا۔ وزیراعلیٰ نواز شریف نے ان احکامات میں لکھا کہ ان کیلئے تمام rules & regulations relax کیے جاتے ہیں۔ وہ دونوں بیٹے اب کافی اوپر کے عہدوں پر پہنچ چکے ہوں گے۔ ایک بیٹے کو پی ٹی وی میں بھرتی کرایا۔ لیکن وہ دفتر میں سفارشی، سفارشی کے آوازے برداشت نہ کرسکا اور چند روز بعد ہی نوکری چھوڑ دی۔ بعد میں اس نے اپنا ٹیلنٹ خود منوایا۔ کہتے ہیں نواز شریف نے ناجی صاحب کو ایک پلاٹ الاٹ کیا تو انہوں نے کہا، مکان بناؤں گا کیسے؟ تو نواز شریف نے ایک اور پلاٹ بھی دے دیا اور کہا ایک بیچ کر مکان تعمیر کرلو۔

نواز شریف نے ناجی کو اکادمی ادبیات کا چیئرمین اور اپنا سپیچ رائٹر بھی بنایا۔ “ڈکٹیشن نہیں لوں گا” والی مشہور تقریر بھی شاید انہوں نے ہی لکھی تھی۔ پرویز مشرف کی کارروائی کے وقت وہ پرائم منسٹر ہاؤس میں ہی تھے اور حراست میں لے لیے گئے۔ لیکن بعد میں وہ نواز شریف کے قریب نہیں رہے۔ اب ان کا گھر آٹھ کنال کا ہے۔ سوچیں تھال پر سموسے رکھ کر جھنگ کے لاری اڈے میں بیچنے والا یتیم بچہ جو صرف چند جماعتیں پڑھ سکا، اپنی محنت اور خدا داد صلاحیتوں سے کیسے اتنا بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ وہ اکادمی ادبیات پاکستان کے بہترین سربراہ تھے۔ ہمارے ایک اور دوست بھی چیئرمین بنے لیکن ان کی توجہ انٹرنیشنل کانفرنسوں اور نوبیل انعام کے حصول کیلئے اپنی کتابوں کے ترجمے کرانے پر زیادہ رہی۔ وہ اپنے ہی ادارے کی تقریبِات کی صدارت بھی خود کرتے، سٹیج پر بیٹھتے۔ لیکن نذیر ناجی اکادمی کی تقریبات میں سب سے پچھلی صف میں، دروازے کے قریب بیٹھتے اور ہر آنے والے کا مصافحہ کرکے استقبال کرتے۔

ایک شاندار اور یادگار کام انہوں نے یہ کیا کہ سیکڑوں ادیبوں کی گروپ انشورنس کرادی۔ اس کیلئے نواز شریف سے ذاتی تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بڑی رقم منظور کرائی، جسے ڈیپازٹ کرادیا گیا۔ گروپ انشورنس کی سالانہ رقم اسی کے منافعے سے ادا کی جانے لگی۔ یوں مرنے والے ادیبوں کے ورثاء کو ایک مناسب رقم ان کے استحقاق کے طور پر ملنے لگی۔

نذیر ناجی نے ادیبوں کی بیواؤں کیلئے ماہانہ وظائف کا بھی ایک خودکار سا نظام بنادیا۔ اس کا مجھے اپنے سسر پروفیسر دلشاد کلانچوی کے انتقال کے چند ماہ بعد اس وقت اندازہ ہوا جب ان کی اہلیہ کو دو تین ماہ کا وظیفہ اکٹھا ملا۔ اس کیلئے کوئی درخواست نہیں بھیجی گئی تھی بلکہ وہ رقم بھی واپس کرکے لکھ دیا گیا کہ وہ ضرورت مند نہیں ہیں۔

روزنامہ “دنیا” جاری ہوا تو ناجی صاحب اس کے گروپ ایڈیٹر بنائے گئے۔ پرانے زمانے والے کچھ مشترک دوستوں کو بھی وہ وہاں لے گئے۔ مجھے بھی فون کرکے کہا کہ کوشش ہے کہ پرانے دوست یہاں جمع ہوجائیں، مجھے دعوت دی کہ میں بھی وہاں آجاؤں۔ نئے اخباروں میں نئے نئے گروپ بن رہے ہوتے ہیں۔ اِس کے آدمی، اَس کے آدمی۔۔۔ کئی طرح کی سازشیں۔۔۔ ان سے میری طبعیت گھبراتی ہے۔ میرے لیے کسی کا آدمی بننا بہت مشکل ہے۔ اس لیے بڑی بڑی پیشکشوں پر بھی زیادہ غور نہیں کیا۔ ناجی صاحب کو بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ یہ اچھا ہی ہوا کیونکہ تھوڑے ہی عرصے میں ان کی وجہ سے وہاں گئے تین دوستوں میں سے دو کو وہ ادارہ چھوڑنا پڑا۔ شاید کچھ لوگوں کو ان کا کوئی گروپ بننا پسند نہیں ہوگا حالانکہ وہ اُس طرح کا کوئی گروپ بنارہے تھے نہ اس کی ضرورت تھی۔ اس لیے انہوں نے بھی زیادہ پروا نہیں کی۔

میں کچھ عرصے سے انہیں ملنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ شعیب بن عزیز سے خبر ملی کہ وہ اب کسی کو نہیں پہچانتے۔ پھر بدھ (21 فروری ) کو سناؤنی آگئی۔

کل عطاء الحق قاسمی صاحب نے کسی کے حوالے سے ان کے مجموعہ کلام “ایک کٹھن حسن اتفاق” کا ذکر کیا حالانکہ مجھے انہوں نے بتایا تھا کہ مجموعہ “رقصم” کے نام سے آرہا ہے۔ لیکن میں کوئی مجموعہ دیکھ نہیں سکا۔

ناجی صاحب کا سن پیدائش کہیں 1942 چھپا ہے اور کہیں 1943۔ لیکن میرا خیال ہے کہ 1934 زیادہ قرین قیاس ہے۔ وجاہت مسعود صاحب نے بھی توجہ دلائی ہے کہ وہ 1953 کی تحریک ختم نبوت میں گرفتار ہوئے تھے۔ اس وقت صرف دس گیارہ سال کے تو نہیں ہوسکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ناجی صاحب کے بھائیوں علی اکبر عباس، علی اصغر عباس اور علی رضا سہیل سے میری الگ الگ حوالے سے ملاقات رہی۔ سبھی ادب اور صحافت میں ٹیلنٹڈ۔۔۔ سب سے چھوٹا علی رضا سہیل سب سے پہلے رخصت ہوا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply