دی فالس کانسینسزایفیکٹ(The False Consensus Effect)-توقیر بُھملہ

چار دہائیاں قبل سٹینفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ علم نفسیات میں ریسرچ کے بعد اصطلاح ایجاد کی گئی جسے The False Consensus Effect کہتے ہیں۔

غلط بنیادوں پر یا ذاتی خیالات و خواہشات پر کوئی مفروضہ قائم کرنا پھر اس پر ڈٹ جانا ایک علمی و فکری تعصب ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنے عقائد، اقدار، خصوصیات، تجربات اور طرز عمل جیسی چیزوں کو دوسروں کے ساتھ شئر کرنے کے معاملے میں اس بات کا اندازہ لگاتے ہیں ان جیسی سوچ سمجھ رکھنے، یا ہم خیال اور ہم سے متفق لوگ کتنے ہیں۔ بنیادی طور پر، اس کا مطلب یہ ہے کہ محض تصور کرنے سے لوگ یہ ماننے لگتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی ان سے ملتے جلتے خیالات کے حامل ہیں۔

مثال کے طور پر، سیاسی عقائد رکھنے والے کسی فرد کو اپنے پسندیدہ امیدوار کے متعلق یہ یقین ہوجاتا ہے کہ آبادی کی اکثریت اس امیدوار کی حامی ہے اور اس امیدوار کے متعلق لوگ میرے سیاسی نظریات و عقائد کو درست جان کر میری بات فالو کرتے ہیں حالانکہ زیادہ تر لوگ ایسا نہیں کرتے ہیں۔

اس کا اطلاق ہر قسم کے اس فیصلے پر کیا جاسکتا ہے جس کے لیے باقاعدہ طور پر درست اعدادوشمار اکٹھے نہ کیے گئے ہوں۔ مثلاً کوئی حکمران ایک فیصلہ کرتا ہے اور محض اپنی پارٹی کی حمایت کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ پوری قوم کی حمایت اسے حاصل ہے، یا کوئی جج فیصلہ کرتا ہے اور چند ہم خیال ججوں اور وکلا کے باعث وہ سمجھتا ہے کہ تمام کا تمام جوڈیشیل کانسٹیٹیوشن اس کے ساتھ کھڑا ہے۔

اسی نفسیاتی اصطلاح The False Consensus Effect کو سوشل میڈیا جیسے فیس بُک کے الگورتھم نے بھی اپنا لیا ہے اور فیس بک کا الگورتھم آپ کے مزاج، لائک، شئر کمنٹس ری ایکٹ یعنی کس کو دل دیا اور کس کو اگنور کیا، کون سی سیاسی ایکٹیویٹی کو پسند کرتے ہیں اور کون سی کو ناپسند، کس طرح کے کرنٹ افئیرز میں آپ دلچسپی لیتے ہیں اور ٹرینڈ فالو کرتے ہیں اسی حساب سے الگورتھم اور اے آئی پورا ڈیٹا لے کر آپ کی نیوز فیڈ میں سب وہی ہرا ہرا دکھانے لگتے ہیں جو آپ کی ترجیحات ہوتی ہیں۔

مثلاً آپ کی پسندیدہ جماعت کا کوئی واقعہ ہوتا ہے جو آپ کی جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے ٹرینڈ بنا کر خوب اچھالا جاتا ہے تو اب آپ کو الگورتھم وہی مخصوص پروفائلز اور کمنٹس دکھانے لگے گا جو آپ کے پہلے سے بنے نظریات و عقائد کو تقویت دیتا ہو، حتیٰ کہ آپ کو ان پروفائلز کے کمنٹس اور پوسٹ بھی نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں جو آپ کے ساتھ نہ تو ایڈ ہوتے ہیں نا آپ کا ان کے ساتھ کوئی انٹریکشن ہوا ہوتا ہے۔

اس ساری صورتحال کو آپ فوراً اس تناظر میں دیکھتے ہیں کہ “ہر پروفائل یا ہر شخص” اس مسئلے پر آپ کے عقیدے کی حمایت میں آواز اٹھا رہا ہے اور آپ اسی وقت کوئی پوسٹ بنا کر شئر کر دیں گے کہ اس وقت لوگوں کی اکثریت فلاں کے غم میں ڈوبی ہوئی ہے، ہر پروفائل اس دکھ کو ہائی لائٹ کررہی ہے، پوری قوم جاگ چکی ہے، ہر شخص ہمارے نظریے کے ساتھ کھڑا ہوچکا ہے۔

یہ سب الگورتھم کا اشتہاری دھوکا تھا جو اس نے محض بیس تیس پروفائل کو بار بار آپ کو دکھایا اور آپ نے جتنی بار بھی نیوز فیڈ ریفریش کی آپ کو ہر جگہ وہی کچھ نظر آیا جس پر آپ نے کسی سے بات کی، پوسٹ کی، لائک کیا، کمنٹ کیا، حتیٰ کہ کوئی پوسٹ لکھ کر ڈرافٹ میں سیو کر لی مگر شئر نہ کی ہو۔ وہ آپکو ذہنی طور پر باور کرا دیتا ہے کہ آپ کی بات اور نظریہ ہر جگہ اپنا لیا گیا ہے، لوگ بڑھ چڑھ کر اسے فالو کررہے ہیں، یوں وہ آپ کو مجبور کر دیتا ہے کہ آپ اسی مائنڈ سیٹ والی پوسٹوں کو ہر روز جاری رکھیں۔ بیس لوگ سمجھتے ہیں کہ جو وہ سوچ رہے ہیں چاہ رہے ہیں باقی اسی 80 بھی وہی سوچیں گے اور چاہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

Your Opinions Are Not as Popular as You Think They Are۔۔

Facebook Comments

توقیر بھملہ
"جب خلقت کے پاس آؤ تو زبان کی نگہداشت کرو"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply