گنگا میّا۔۔بھیرو پرسادگپت(6)۔۔ہندی سے ترجمہ :عامر صدیقی

’’ بلرا!‘‘ اونچی برادری کا تکبر بھبک اٹھا،’’پھر کبھی یہ بات زبان پر مت لانا! جس مالک کا تو نمک کھاتا ہے، اس کی عزت کا تو خیال کر، ایسی بات پھر منہ سے نکالی، تو میں تیری زبان کھینچ لوں گی! تجھے کیا معلوم نہیں کہ اس ذات کی بیوہ زندہ جل کر چتا میں بھسم ہو جاتی ہے، لیکن ۔۔۔جا، ہٹ جا تو!‘‘ کہہ کر بھابھی اپنی چارپائی پر جا گری اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

ساس سسر ابھی سو رہے تھے۔ کافی دیر تک بھابھی روتی رہی۔ یہ رونا باعث ذلت تھا۔ نیچ، کمینے آدمی نے جس تارکو چھیڑا تھا، وہ کتنی ہی بار آپ ہی آپ بھی جھنجھنا اٹھا تھا، بھابھی نے اس کا ذائقہ دل ہی دل میں لیا تھا۔ لیکن یہ تار اتنا خفیہ، اتنا متکبرانہ اور اصولوں کے درمیان چھپا کر احتیاط سے رکھا گیا تھا کہ اسے کبھی کوئی چھو پائے گا، اس کا تصور بھابھی کو نہ تھا۔ اسی تار پر اس نیچ کمینے آدمی نے براہ راست انگلی رکھ دی تھی۔ یہ کیا کوئی عمومی توہین کی بات تھی! بھابھی کی ماندگی ہی رونے میں نکلی تھی۔ اس ماندگی کی ایک دھار جہاں اس کمینے کی گردن پر تھی، وہیں اس کی دوسری دھار خود بھابھی کی گردن پر، اس کا علم بھابھی کو تھا۔ ورنہ وہ کمینہ کیا تھپڑ کھائے بغیر جا پاتا؟ راجپوتنی کے خون کی بات تھی کہ کوئی مذاق تھا؟

بھابھی اس دن سے مزید محتاط ہو گئی، ٹھیک اسی طرح جیسے ایک بار چوری پکڑے جانے پر چور۔ اب وہ بلرا کے سامنے بھی نہ جاتی۔ ساس کو صبح ہی جگا دیتی۔ اسی کے ہاتھ دودھ نکالنے کے لئے گھُونچا اور ناند میں ڈالنے کیلئے بھوسا بھی بھجواتی۔ کوئی بھی ہو، آخر مرد ہی تو ہے۔ کسی مرد کے سامنے بیوہ نہ جانا چاہے، تو اس کی تعریف کون نہ کرے؟

جو بھی ہو، اس کمینے آدمی کی اس بات نے بھابھی کی خفیہ، گناہوں سے آلودہ سوچوں کو پروان چڑھنے کیلئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کردی۔ جانے انجانے میں بھابھی کے خیال میں دیور اب ابھر ابھر آتا۔ اسکی سینکڑوں باتوں کی یادیں ایسا ایسا روپ لے کر آتیں کہ بھابھی کو شک ہونے لگا کہ دیور کہیں سچ مچ تو اسے نہیں چاہتا تھا۔ معصوم، بے داغ، مقدس پیار پر ہوس کی دھندلی چادر اوڑھاتے کس کو کتنی دیر لگتی ہے؟ پھر بھابھی کا بھوکا من آج کل تو ایسی سوچوں میں ہی منڈلایا کرتا، کبھی کبھی تو اُس کمینے کی برادری سے بھی جلن ہو جاتی کہ کاش ۔۔۔تبھی پھر نہ جانے کہاں سے ایک کٹھورمرد آکر بھابھی پر اتنے کوڑے لگا دیتا کہ بھابھی خون خون ہوکر چھٹپٹا اٹھتی۔

بھابھی کی خواہشوں کی سیج بھی کانٹوں کی تھی، جس پر اس کا جسم پل پل چھدتا رہتا۔
سات

بنارس ضلع جیل پہنچتے ہی مٹرو کی سانس کی بیماری بیدارہو گئی۔ تین چار دن تک تو کسی نے اس کی پرواہ نہ کی، جب وہ بالکل نڈھال پڑ گیا، اورکوئی بھی کام کرنے کے قابل نہ رہا، تو اسے ہسپتال میں پہنچا دیا گیا۔ اس کا بستر ٹھیک گوپی کے برابر میں تھا۔

ڈاکٹر کسی دن آتا، کسی دن نہ آتا۔دیکھا جائے تو کمپوڈر ہی یہاں کا کرتا دھرتا تھا۔ وہ بڑا ہی نیک سیرت آدمی تھا، اس کی خدمت گذاری سے ہی مریض آدھے اچھے ہو جاتے تھے۔ پھر یہاں کھانا بھی کچھ اچھا ملتا تھا، کچھ دودھ بھی مل جاتا تھا، مشقت سے چھٹکارا بھی مل جاتا تھا۔ یہی سہولت حاصل کرنے کیلئے بہت سے تندرست قیدی بھی ہسپتال میں پڑے رہتے۔ اس کیلئے ڈاکٹر اور وارڈن کی مٹھی تھوڑی گرم کر دینی پڑتی تھی۔ ظاہر ہے کہ ایسا خوشحال قیدی ہی کر سکتے تھے۔

ایک ہفتے تک مٹرو بے حال پڑا رہا۔ وہ خشک کھانسی کھانستا اور درد کے مارے ’’آہ آہ‘‘کیا کرتا۔ بلغم سوکھ گیا تھا۔ کمپوڈر رات گئے تک اسکے سینے اور پیٹھ پر دوا کی مالش کیاکرتا۔ وہ اپنی چھٹی کی پرواہ بھی نہ کرتا۔

کئی انجکشن لگنے کے بعد جب بلغم کچھ ڈھیلاہوا، تو مٹرو کو کچھ آرام ملا۔ اب وہ گھنٹوں سویا پڑا رہتا۔ سوتے میں ہی کبھی کبھار وہ ’’ ماں ماں‘‘ چیختا، اٹھ کر بیٹھ جاتا اور چاروں جانب آنکھیں پھاڑ پھاڑکر دیکھنے لگتا۔

ایک دن ایسے ہی موقع پر گوپی نے پوچھا،’’ماں، تمہیں بہت یاد آتی ہے؟‘‘

’’ ہاں ’’، مٹرو نے جیسے دور دیکھتے ہوئے کہا،’’وہ رات دن مجھے پکارا کرتی ہے۔ جب تک میں اس کے پاس نہ پہنچ جاؤں گا، چین نہ ملے گا۔ جب تک اس کا پانی اور ہوا مجھے نہ ملے گی، میں صحت یاب نہ ہوں گا۔‘‘

گوپی نے استعجاب سے کہا،’’ماں سے پانی ہوا کا کیا لینا دینا؟ تم۔۔۔‘‘

’’ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘ مٹرو نے ذراسا مسکراکر پوچھا،’’مٹرو سنگھ پہلوان کا نام نہیں سنا ہے؟ اس کی ماں گنگا میا ہے، یہ بات کون نہیں جانتا!‘‘

’’ مٹرو استاد!‘‘ گوپی آنکھیں پھیلا کر چیخ پڑا،’’پا لاگی! میں گوپی ہوں، بھیا، بھلا مجھے تم کیا جانتے ہو گے؟‘‘

’’ جانتا ہوں، گوپی، سب کچھ جانتا ہوں۔ میں اس دنگل میں بھی شریک تھا اور پھر جو واردات ہو گئی تھی، اس کے بارے میں بھی سنا تھا۔ کیا بتاؤں، کوئی کسی کی طاقت نہیں دیکھ پاتا۔ جب کسی طرح کوئی پار نہیں پاتا، توکمینے پن پر اتر آتا ہے۔ تمہارے بھائی کی وہ حالت ہوئی، تمہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ میرا بھی تو سنا ہی ہوگا۔ کمینے سے اور کچھ کرتے نہ بنا، تو نجانے کیا کھلا دیا۔ سانس ہی اکھڑ گئی۔ جسم مٹی ہو گیا۔ دیکھ رہے ہو نہ؟‘‘

’’ ہاں، سو تو آنکھوں کے سامنے ہے،’’دکھ بھرے لہجے میں گوپی نے کہا،’’پھر یہاں کیسے آنا ہوا، بھیا؟‘‘

مٹرو ہنس پڑا اور بولا،’’وہی، زمیں داروں سے میری وہ زندگی بھی نہ دیکھی گئی۔ ڈاکے میں ملوث کرکے یہاں بھیج دیا۔‘‘کہہ کر وہ پوری کہانی سنا گیا۔ آخر میں بولا،’’کیا بتاؤں، سب سہہ سکتا ہوں، لیکن گنگا میا کا بچھڑنا نہیں سہا جاتا۔ آنکھوں کے سامنے جب تک وہ دھارا نہیں رہتی، مجھے چین نہیں ملتا، کچھ کرنے کے لیے جوش و خروش نہیں رہتا۔ وہ ہوا، وہ پانی، وہ مٹی اب کہاں ملنے کی؟ جب سے بچھڑا ہوں، بھر پیٹ پانی نہیں پیا۔چلتاہی نہیں، بھیا، کیا کروں؟ جانے کیسے کٹیںگے تین سال؟‘‘

’’ مجھے تو پانچ سال کاٹنا ہے، بھیا! مرد کے لئے کہیں بھی وقت کاٹنا مشکل نہیں، لیکن دل میں ایک کانٹا لیے کوئی کیسے وقت کاٹے! مجھے بیوہ بھابھی کا خیال کھائے جاتا ہے اور تمہیں گنگا میا کا۔ ایک نہ ایک دکھ سب کے پیچھے لگا رہتا ہے۔ پھر بھی وقت تو کٹے گا ہی، چاہے دکھ سے کٹے، چاہے سکھ سے۔ اب تو ہم ایک جگہ کے دو آدمی ہو گئے ہیں۔ دکھ سکھ ہی کہہ سن کر مزے سے کاٹ لیں گے۔ سنا تھا، تم نے شادی کر لی تھی؟‘‘

’’ ہاں، اب تو تین بال گوپال بھی گھر آ گئے ہیں۔ بڑے مزے سے زندگی کٹ رہی تھی، بھیا! ہر سال پچاس سو بیگھا جوت بو لیتا تھا۔ گنگا میا اتنا دے دیتی تھیں کہ کھائے ختم نہ ہو، لیکن زمیں داروں سے یہ دیکھا نہ گیا۔ گنگا میا کی دھرتی پر بھی انہوں نے فتنہ انگیزی کرنا شروع کر دی۔ ناانصافی دیکھی نہ گئی، بھیا مرد ہوکر ماں کے سینے پر مونگ دلتے دیکھوں، یہ کیسے ہوتا ہے!‘‘

’’تم نے جو کیا، ٹھیک ہی کیا، بھیا! یہ زمیندار اتنے حرامی ہوتے ہیں کہ کسان کی ذرا بھی خوش حالی ان سے نہیں دیکھی جاتی۔ تمہیں وہاں سے ہٹا کر اب اپنی من مانی کریں گے۔ لالچی کسانوں نے جو تمہارے رہنے پر نہ کیا، ان سے وہ اب سب کروا لیں گے۔ تمہارا کوئی ساتھی وہاں ہوگا نہیں، جو روک تھام کرے؟‘‘

’’ ایک سالا ہے تو۔ مگر اس میں وہ ہمت نہیں ہے۔ پھر بھی وہ خاموشی سے نہ بیٹھے گا۔ تھوڑے دن کی میری شاگردی کا اثر اس پر کچھ نہ کچھ پڑا ہی ہوگا۔ دیکھتے ہیں۔‘‘

’’ وہ تم سے ملنے آئے گا نہ، تو پوچھنا۔‘‘

آہستہ آہستہ مٹرو اور گوپی کا تعلق مضبوط ہو گیا۔ دونوں کے یکساں مزاج، یکساں دکھ، یکساں جیون نے انہیں یک جان بنا دیا۔ ان کی زندگی اب ایک دوسرے کے ساتھ سہارے سے کچھ مزے میں کٹنی لگی۔ ایک ہی بیرک میں وہ رہتے تھے۔ جہاں تک کام کا تعلق تھا، ان سے کسی کو کوئی شکایت نہ تھی۔اس لئے کسی افسر کو انہیں چھیڑنے کی ضرورت نہ تھی۔ مٹرو کی ’’ گنگا میا‘‘ جیل بھر میں مشہور ہو گئیں۔ انہیں چھوٹے بڑے ،بہت ہی زیادہ مذہبی آدمی سمجھتے اور جب ملتے،’’جے گنگا میا ‘‘ کہہ کرمخاطب کرتے۔ ایک نوع کی زندگی ان دیواروں کے اندر بھی پیدا ہو گئی۔ ہنسی مذاق، لڑنا جھگڑنا،بغض و عناد، رونا گانا، وہاں بھی تو ویسا ہی چلتا ہے، جیسے باہر۔ کب تک کوئی وہاں کی سماجی زندگی سے کٹا ہٹا، الگ اکیلے پڑا رہے؟ سینکڑوں کے ساتھ سکھ دکھ میں گھل مل کر رہنے میں بھی تو آدمی کوایک قسم کا اطمینان مل جاتا ہے۔

اب مٹرو اور گوپی کے درمیان کبھی کبھی جیل کے باہر بھی ساتھ ہی رہنے سہنے کی بات چل پڑتی۔ دونوں میں اتنی انسیت ہو گئی تھی کہ علیحدگی کا سوچ کرکے بھی وہ بے چین ہو اٹھتے۔ مٹرو کہتا،’’جیل سے چھوٹ کرتم بھی میرے ساتھ رہو، تو کیسا؟ گنگا میا کے پانی، ہوا اور مٹی کا چسکا تمہیں ایک بار لگ جائے، پھر تو میرے بھگانے پر بھی تم نہ جاؤ گے۔ پھر مجھے تمہارے جیسے ایک ساتھی کی ضرورت بھی ہے۔ زمیندار اب زور زبردستی پر اتر آئے ہیں۔ نہ جانے مجھے وہاں سے ہٹانے کے بعد انہوں نے کیا کیانہ کیا ہو۔میں چاہتا ہوں کہ گنگا میا کی چھاتی پر منڈیریں نہ کھنچیں۔ویسے منڈیریں کھینچنا ناممکن بھی ہے، کیونکہ گنگا میا کی دھارا ہر سال سب کچھ برابر کر دیتی ہے۔ کوئی نشان وہاں قائم نہیں رہ سکتا ہے۔ میاکی زمین چھوڑنے پر جو جتنا چاہے، جوتے بوئے۔ زمین کی وہاں کبھی کوئی کمی نہ ہو گی، جوتنے والوں کی کمی بھلے ہی ہو جائے۔ وہاں سب کا برابر حق رہے۔ زمیندار اسے ہڑپ کر، وہاں اپنی زمینداری قائم کرکے لگان وصول کرنا چاہتے ہیں، وہی مجھے پسند نہیں۔ گنگا میا بھی کیا کسی کی زمینداری میں ہیں، گوپی؟‘‘

’’ نہیں بھیا، یہ تو سراسرانکی ناانصافی ہے۔ ایسا کرکے تو ایک دن وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ گنگا میا کاپانی بھی ان کا ہے جو پینانہانا چاہے، ادائیگی کر کے کرے۔‘‘

’’ ہاں، سننے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ گھاٹ کو وہ ٹھیکے پر اٹھانا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں، گھاٹ ان کی زمین پر ہے۔ وہاں سے جو پار اترائی ملتا ہے، اس میں بھی ان کا حق ہے۔ میرے ہوتے تو وہاں کسی کی ہمت ایسا کرنے کی نہیں ہوئی۔ اب میرے پیچھے جانے انہوں نے کیا کچھ کیا ہو۔ سو بھیا، وہاں ایک مورچہ بنا کر اس ناانصافی کا مقابلہ کرنا ہی پڑے گا۔ اگر تم میرے ساتھ ہو تو میری قوت دوگنی ہو جائے گی۔‘‘

’’ سو تو میں بھی چاہتا ہوں۔ لیکن تمہیں تو معلوم ہے کہ گھر میں، میں ہی اکیلا بچ گیا ہوں۔ بابو کوگٹھیا نے اپاہج بنا دیا ہے۔ بوڑھی ماں اور بیوہ بھابھی کا بوجھ بھی میرے ہی سر پر ہے۔ ایسے میں گھر کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟ ہاں، کبھی کبھار تم کو سو پچاس لاٹھی کی ضرورت ہوئی، تو ضرور مدد کروں گا۔ تمہارے اطلاع دینے بھر کی دیر رہے گی۔ یوںبھی، دو چار دن آ ٹھہر کر گنگا میا کا جل سیون ضرور سال میں دو چار بار کروں گا۔ تم بھی آتے جاتے رہنا۔ اس طرح،خیر خبریں تو برابر ملتی ہی رہیں گی۔‘‘

یہ سن کرمٹرو اداس ہو جاتا۔ وہ حقیقت میں گوپی پر جان چھڑکنے لگا تھا۔ لیکن اسکے گھر کی ایسی حالت جان کر بھی وہ کس طرح اپنی بات پر زور دیتا۔ وہ کہتا،’’اچھا، جیسے بھی ہو، ہماری دوستی قائم رہے، اس کی ہمیں برابر کوشش کرنی چاہیے!‘‘

ادھر بہت دنوں سے مٹرو یا گوپی سے ملاقات پر کوئی نہیں آیا تھا۔ دونوںہی فکر مند تھے۔ دور دیہات سے کاروباری کسانوں کا بنارس آنا جانا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ زندگی میں بہت ہوا تو سالوں سے انتظام کرنے کے بعد، وہ ایک بار کاشی پریاگ کا تیرتھ کرنے نکل پاتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی گڑھا ہوا خزانہ تو ہوتا نہیں کہ جب ہوا نکل پڑے، گھوم آئے۔ پھر انہیں فرصت بھی کب ملتی ہے؟ ایک دن بھی کام کرنا چھوڑ دیں، تو کھائیں گے کیا؟ اور کھانے کو ہو تو بھی پیسہ بٹورنے اور کھیت خریدنے کی خواہش کی طرف سے انہیں چھٹکارا کیسے ملے؟

گوپی کے سسر پہلے دو دو، تین تین مہینے پر ایک بار آ جاتے تھے۔ لیکن چونکہ ایک بیٹی بیوہ ہو گئی تھی اور دوسری چل بسی تھی، ان کی دلچسپی بالکل ختم ہو گئی تھی۔ خواہ مخواہ کی دلچسپی کے نہ وہ قائل تھے، نہ اسے پالنے کی ان کی حیثیت ہی تھی۔ دوسرا کون آتا۔

مٹرو کے سسر بالکل معمولی آدمی تھے۔ زندگی میں کبھی باہر جانے کا انہیں موقع ہی نہ ملا تھا۔ ہاں البتہ سالے سے کچھ امید ضرور تھی۔ لیکن وہ بھی نجانے کس الجھن میں پھنسا ہوا ہے، جو ایک بار بھی خیرخبر لینے نہیں آیا۔

اگلے مہینے میں چندر گرہن پڑ رہا تھا۔ مٹرو اور گوپی کو پورا یقین تھا کہ اس موقع پر ضرور کوئی نہ کوئی تو آئے گا۔ برداری میں کاشی نہان کی بڑی اہمیت ہے۔ ایک پنتھ، دو کاج۔

گرہن کے ایک دن پہلے اتوار تھا۔ صبح سے ہی ملاقاتوں کی دھوم مچی تھی۔ جن قیدیوں کی ملاقاتیں ہونے والی تھی، ان کے نام وارڈن پکار رہے تھے اور دروازے کے پاس صحن میں بیٹھا رہے تھے۔ جس کا نام پکارا جاتا، اس کا چہرہ کھل جاتا، جس کا نام نہ پکارا جاتا، وہ اداس ہو جاتا۔ صحن سے خوشیوں بھری آوازوں کا شور سا اٹھ رہا تھا۔

مٹرو اور گوپی آنکھوں میں اداسی بھری حسرت لیے بیرک کے باہر کھڑے تھے۔ انہیں پوری امید تھی کہ آج کوئی نہ کوئی ان سے ملنے ضرور آئے گا۔ لیکن جب پکارنا بندہو گیااور ان کا نام نہ آیا تو ان کی آنکھوں میں بھری حسرت خاموشی بھرے رونے میں بدل کر مٹ گئی۔

’’ دیکھو نہ۔‘‘تھوڑی دیر بعد گوپی جیسے رو ہانسا ہوکر بولا،’’آج بھی کوئی نہیں آیا۔‘‘

’’ ہاں۔‘‘ٹھنڈی سانس لیتا ہوامٹرو بولا،’’گنگا میا کی مرضی ۔۔۔‘‘

تبھی انہیں وارڈن نے بھاگتے ہوئے آ کر کہا،’’چلو، چلو، گنگا پہلوان، تمہاری ملاقات آئی ہے! جلدی کرو، پندرہ منٹ ایسے ہی گزر گئے۔‘‘

مٹرو نے سنا، تو اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ تبھی گوپی نے وارڈن سے پوچھا،’’میری ملاقات نہیں آئی ہے، وارڈن صاحب؟‘‘

’’ نہیں، بھائی نہیں۔ آتی تو بتاتا نہیں؟‘‘ وارڈن نے کہا،’’گنگا پہلوان کی آئی ہے۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ انکا گنگا میا کے سوا کوئی ہے ہی نہیں، مگر آج معلوم ہوا کہ ۔۔۔‘‘

’’ میرے ساتھ گوپی بھی چلے گا!‘‘ مٹرو نے اداس ہو کر کہا،’’یہ بھی تو میرا رشتہ دار ہے۔‘‘

’’ جیلر صاحب کے حکم کے بغیر یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ چلو، دیر کرکے وقت خراب نہ کرو!‘‘ وارڈن نے مجبوری ظاہر کی۔

’’ ارے وارڈن صاحب، اتنے دنوں بعد تو کوئی ملنے آیا ہے، کون کوئی ہر مہینے آنے والا ہے ہمارا؟ مہربانی کر دو! ہمارے لئے تو تم ہی جیلر ہو!‘‘ مٹرو نے منت سماجت کی۔

’’ مشکل ہے، پہلوان! ورنہ تمہاری بات خالی نہ جانے دیتا۔ چلو، جلدی کرو۔ ملنے والے انتظار کر رہے ہیں!‘‘ وارڈن نے جلدی مچائی۔

’’ جاؤ، بھیا، مل آئو۔ ہماری طرف کی بھی خیر خبریں پوچھ لینا۔ کیوں میری خاطر ۔۔۔‘‘

’’ تم چپ رہو!‘‘ مٹرو نے جھڑک کر کہا، وارڈن صاحب چاہیں تو سب کر سکتے ہیں، میں تو یہی جانوں!‘‘ اتناکہہ کر مٹرو، وارڈن کی طرف بڑی قابل رحم آنکھوں سے دیکھ کر بولا،’’وارڈن صاحب، اتنے دن ہو گئے یہاں رہتے، کبھی آپ سے کچھ نہ کہا۔ آج میری گذارش سن لو! گنگا میا تمہیں بیٹا دیں گی!‘‘

وارڈن لاولد تھا۔ قیدی اسکے بیٹاہونے کی دعا کر کے، اس سے بہت کچھ کرا لیتے تھے۔ یہ اس کی بہت بڑی کمزوری تھی۔ وہ ہمیشہ یہی سوچتا، جانے کس کی زبان سے بھگوان بول پڑے۔ وہ دھرم سنکٹ میں پڑکر بول پڑا،’’اچھا، دیکھتا ہوں۔ تم تو چلو، یا میری شامت بلائوگے؟‘‘

’’ نہیں، وارڈن صاحب، بات پکی کہیے! ورنہ میں بھی نہ جاؤں گا۔ اب تک کوئی نہ ملنے آیا، تو کیا میں مر گیا؟ گنگا میا ۔۔۔‘‘

’’ اچھا بھائی اچھا۔ تم تو چلو، میں جلد موقع دیکھ کر اسے بھی پہنچا دیتا ہوں۔ تم لوگ تو ایک دن میری نوکری لے کر ہی دم لو گے!‘‘ اتناکہہ کر وہ آگے بڑھا۔

مٹرو، سسرکا پاؤں چھو چکا تو سالا اس کا پاؤں چھوکراس سے لپٹ گیا۔ بیٹھ کر ابھی باتیں شروع ہی کی تھیں کہ جانے کدھر سے گوپی بھی آہستہ سے آکر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ مٹرو نے کہا،’’یہ ہر دیا کا گوپی ہے۔ وہی گوپی، مانک ! سنا ہے نہ نام؟‘‘

’’ ہاں ہاں!‘‘ دونوں بول پڑے۔

’’ یہ بھی یہاں میرے ہی ساتھ ہے۔ اس کے گھر کی کوئی خیر خبر؟‘‘ مٹرو نے پہلے دوست کی ہی بات پوچھی۔

’’ سب ٹھیک ہی ہوگا۔ کوئی خاص بات ہوتی، تو سننے میں آتی نہ؟‘‘ بوڑھے نے کہا،’’اچھاہے کہ تم جوار کے اپنے دو آدمیوں کے ساتھ ہو۔ پردیس میں اپنے جر جوار کے ایک آدمی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔‘‘
’’ اچھا، پُوجن۔‘‘مٹرو نے سالے کی جانب مخاطب ہو کر کہا،’’تو دِیّر کا حال چال بتا۔ گنگا میا کی دھارا وہیں بہہ رہی ہے، یا کچھ ادھر ادھر ہٹی ہے؟‘‘

’’ اس سال تو پاہُن، ندی بہت دور ہٹ کر بہہ رہی ہے، جہاں ہماری کٹیا تھی نہ، اس سے آدھا کوس مزید آگے۔ اتنی بڑھیا چکنی مٹی اب کے نکلی ہے پاہُن کہ تم دیکھتے تو نہال ہو جاتے! اس سال فصل بوئی جاتی، تو کٹّا پیچھے پانچ من ربیع ہوتی۔ میں تو ہاتھ ملکر رہ گیا۔ زمیں داروں نے مغرب کی طرف کچھ جوتابویا ہے۔ ان کی فصل دیکھ کر سانپ لوٹ جاتا ہے۔‘‘

’’ کسانوں نے بھی ۔۔۔‘‘

’’ نہیں پاہُن ، زمیں داروں نے چڑھانے کی تو بہت کوشش کی، لیکن تمہارے خوف سے کوئی تیار نہیں ہوا۔ زمیں داروں کی بھی فصل کو بھلا میں بچنے دوں گا۔ دیکھو تو کیا ہوتا ہے! ترواہی کے کسان خار کھائے ہوئے ہیں۔ تمہارے جیل ہونے کا سب کو صدمہ ہے۔ پولیس والوں نے بھی معمولی تنگ نہیں کیا۔ ذرا آپ چھوٹ تو آؤ، پھر دیکھیں گے کہ کیسے کسی زمیندار کے باپ کی ہمت وہاںپاؤں رکھنے کی ہوتی ہے۔ تمام تیاری ہو رہی ہے، پاہُن !‘‘

’’ شاباش!‘‘ مٹرو نے پوجن کی پشت ٹھونک کر کہا،’’تُو تو بڑا شاطر نکلا رے! میں تو سمجھتا تھا کہ تو بڑا ڈرپوک ہے۔‘‘

’’ گنگا میا کاپانی پی کر اور مٹی بدن میں لگا کر بھی کیا کوئی ڈرپوک رہ سکتا ہے پاہُن ؟تم آنا تو دیکھنا! ایک دانہ بھی زمیں داروں کے گھر گیا تو، گنگا میا کی دھار میں ڈوب کر جان دے دوں گا! ہاں!‘‘

’’ اچھا اچھا اور سب خبریں کہہ۔ بابوجی کو اس سردی پالے میں کاہے کو لیتا آیا؟‘‘ مٹرو نے تشویش سے پوچھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

’’ مائی نہیں مانی! گرہن کا سنان اسی حیلے ہو جائے گا۔ وشوناتھ جی کادرشن کر لیں گے۔ زندگی میں ایک تیرتھ تو ہو جائے۔ اب تم اپنی کہو۔ جسم تو ڈھلک گیا ہے۔‘‘
جاری ہے

Facebook Comments

عامر صدیقی
لکھاری،ترجمہ نگار،افسانہ نگار،محقق۔۔۔ / مائکرو فکشنسٹ / مترجم/شاعر۔ پیدائش ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ؁ ء بمقام سکھر ، سندھ۔تعلیمی قابلیت ماسٹر، ابتدائی تعلیم سینٹ سیوئر سکھر،بعد ازاں کراچی سے حاصل کی، ادبی سفر کا آغاز ۱۹۹۲ ء ؁ میں اپنے ہی جاری کردہ رسالے سے کیا۔ ہندوپاک کے بیشتر رسائل میں تخلیقات کی اشاعت۔ آپ کا افسانوی مجموعہ اور شعری مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔ علاوہ ازیں دیگرتراجم و مرتبہ نگارشات کی فہرست مندرجہ ذیل ہے : ۱۔ فرار (ہندی ناولٹ)۔۔۔رنجن گوسوامی ۲ ۔ ناٹ ایکیول ٹو لو(ہندی تجرباتی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۳۔عباس سارنگ کی مختصرسندھی کہانیاں۔۔۔ ترجمہ: س ب کھوسو، (انتخاب و ترتیب) ۴۔کوکلا شاستر (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۵۔آخری گیت اور دیگر افسانے۔۔۔ نینا پال۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۶ ۔ دیوی نانگرانی کی منتخب غزلیں۔۔۔( انتخاب/ اسکرپٹ کی تبدیلی) ۷۔ لالٹین(ہندی ناولٹ)۔۔۔ رام پرکاش اننت ۸۔دوڑ (ہندی ناولٹ)۔۔۔ ممتا کالیا ۹۔ دوجی میرا (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۱۰ ۔سترہ رانڈے روڈ (ہندی ناول)۔۔۔ رویندر کالیا ۱۱۔ پچاس کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۵۰ء تا ۱۹۶۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۲۔ ساٹھ کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۳۔ موہن راکیش کی بہترین کہانیاں (انتخاب و ترجمہ) ۱۴۔ دس سندھی کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۵۔ قصہ کوتاہ(ہندی ناول)۔۔۔اشوک اسفل ۱۶۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد ایک ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۷۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۸۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد سوم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۹۔ہند کہانی ۔۔۔۔جلد چہارم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۰۔ گنگا میا (ہندی ناول)۔۔۔ بھیرو پرساد گپتا ۲۱۔ پہچان (ہندی ناول)۔۔۔ انور سہیل ۲۲۔ سورج کا ساتواں گھوڑا(مختصرہندی ناول)۔۔۔ دھرم ویر بھارتی ۳۲ ۔بہترین سندھی کہانیاں۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۴۔بہترین سندھی کہانیاں ۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۵۔سب رنگ۔۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۶۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۷۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ سوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۸۔ دیس بیرانا(ہندی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۲۹۔انورسہیل کی منتخب کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۳۰۔ تقسیم کہانی۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۱۔سورج پرکاش کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۲۔ذکیہ زبیری کی بہترین کہانیاں(انتخاب و ترجمہ) ۳۳۔سوشانت سپریہ کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۴۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۵۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۶۔ سوال ابھی باقی ہے (کہانی مجموعہ)۔۔۔راکیش بھرامر ۳۷۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۸۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۹۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ سوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) تقسیم کہانی۔ حصہ دوم(زیرترتیب ) گناہوں کا دیوتا(زیرترتیب ) منتخب پنجابی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) منتخب سندھی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) کبیر کی کہانیاں(زیرترتیب )

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply