کہانی بھی وہی ہے اور ویرانی نہیں بھرتی /ڈاکٹر سعدیہ بشیر

پرانی کہانی ہے کہ کسی شہر میں جب تخت و تاج سنبھالنے کے قابل کوئی نہ رہا تو شہر کے دانا لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اگلی صبح جو بھی شہر میں داخل ہو گا۔ اسی کے سر پر تاج رکھ دیا جائے گا۔اسے دانائی سمجھیے یا غداری؟ ایک شخص نے کبوتر کے ذریعے ساتھ والے شہر کے شہزادے کو پیغام بھیجا اور اسے ہدایت کی کہ وہ علی الصبح ادھر کا رخ کرے۔دوسرے نے ایک اور ملک کے وزیر زادے کو یہ پیغام بھجوایا اور اشرفیوں کی بوری کمائی۔ کسی نے درویش کو لبادہ پہن کر شہر میں داخل ہونے کی تلقین کی۔ یہ کہانی اتنی سادہ نہیں تھی، جس میں بیرونی حملہ آوروں کو گھی سیدھی انگلی سے نکالنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ جدید دور میں پرانی کہانیاں اس طرح پھیلیں اور ان کی تفہیم کے اتنے زاویے ابھرے کہ انسانی شعور بھی بہتے بہتے اپنا رستہ بھول گیا۔ چھلنی میں اتنے سوراخ نہیں تھے جتنے دروازے شہر کی بوسیدہ دیوار میں رکھے گئے تھے۔ اب بغیر چھنے آٹے کی موٹی روٹیوں کی طمع کا رواج تھا۔جن کے ذریعہ شہر میں داخل ہونا آسان تھا لیکن اس سے ایک پریشانی ہوئی۔ کچھ لوگ تو چھن کر داخل ہوئے اور ان کی تربیت، تہذیب، شعور اور تجزیاتی صلاحیتوں کو جلا ملی۔ لیکن وہ لوگ جو چھلنی کے موٹے سوراخوں سے بغیر چھنے کہانی کا حصہ بنے اور پروپیگنڈہ کے ذریعہ اپنے ہونے کا اعلان کرتے رہے۔ ان کی موجودگی کا تاثر عجیب ہی نہیں، نا قابل تفہیم بھی تھا۔کہانی کا خلاصہ جو بھی ہو۔ہم اسے “چھپڑ پھاڑ بادشاہت”اور قسمت کے نام سے باندھتے ہیں۔ ہر بار اس کہانی کی رسی کھل جاتی ہے۔ ہر بار اسے نئی کہانی کے سرے سے باندھا جاتا ہے۔یوں توتا کہانی سننے کے شوق میں قصہ خوانی بازار سجا رہتا ہے۔ لیکن اس بار تو رسی نظر ہی نہیں آ رہی۔جس سے کہانی کو باندھا جا سکے۔زمین گرم ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اب تو ثقافتی یلغار کے پروپیگنڈہ نے “دل اپنا اور پریت پرائی ” کے شعلوں کو یوں ہوا دی ہے کہ یہ آگ کسی طور بجھنے میں نہیں آ رہی۔ اس تیز آنچ پر نہ کھانا پکانا آسان ہے اور نہ ہی ہاتھ سینکنا ممکن ہے۔ ان باندھی گئی کہانیوں کو سن کر کانوں سے نکلتا دھواں بتاتا ہے کہ آگ کے شعلوں کو منافرت و تعصب کی زہریلی ہوا سے جلایا جا رہا ہے۔

آنکھیں سینکنا البتہ دور حاضر کا وہ مشغلہ ہے جو کوئی بھی اختیار کر سکتا ہے۔بات کہانیوں سے باہر نکلتی ہی نہیں کہ پکڑ میں آ سکے۔ بھیڑیے کی میمنے کو کھانے کی خواہش اسی کہانی کا حصہ ہے۔بندر کی بلیوں کی روٹی کھانے سے لے کر ضحاک تک کی کہانیوں کا ایک ہی نتیجہ ہے کہ قسمت پر شاکر ہونا کثیر المعانی تجزیہ کاری کا متمنی ہے۔ضمیر جاگنے اور مرنے کی کہانیاں ہوں یا افسران کی اوزار بند کے ساتھ خود کشی کی روایات، دکھاوے کی ویڈیوز ہوں یا آڈیو کالز کی ایڈیٹنگ، بند کمروں میں بلیک میلنگ کے حربے ہوں یا پریس کانفرنسوں میں سر اور راگ کی بے وفائی۔ معاملات وہی چلتے ہیں جن کو دھڑا دھڑ شئیر کیا جائے۔شیر چاہے جنگل کا بادشاہ ہو لیکن اس کی دھاڑ پر جھینگر کی آواز فٹ کر کے اسے مصلحت اور خاموشی کے پاٹھ پڑھائے جا سکتے ہیں۔شیر کے سر پر دستار ہے لیکن اس کی آنکھیں نم ہیں۔مصنوعی کھال پر رنگا رنگ شیشوں کا عکس دل لبھاتا ہے اور سب عجیب و غریب قیاس کے عادی ہیں۔ جنگل میں زیادہ عقل مند اور ہوشیار وہ جانور سمجھے جاتے ہیں جو جتھے بنا لیتے ہیں۔اس کے لیے کوئی معیار مقرر نہیں ہے۔ہر شور مچاتا کیکڑا اس جتھے کا حصہ بن سکتا ہے۔پروانوں کے بس میں البتہ چپ چاپ جل مرنے سے زیادہ کچھ نہیں۔کوے کی کائیں کائیں، لاش دفن کرنے کے حربے اور شور مچانا شامل ہے۔لیکن کوے کبھی بھی باز نہیں بن سکتے۔جنگل کے قانون کی کہانی انسانوں کی بستی میں نئی نہیں۔ جانوروں کی آبادی میں بھی فلاح کی صورت جنگ و جدل جاری ہے۔ نتائج کی ذمہ داری چیخ و پکار کرنے والوں کے سر ہوتی ہے۔ پتہ نہیں آج کل مجھے کیوں بالی ووڈ کی فلم “نائیک” یاد آ رہی ہے۔ کبھی کبھار یہ فلم والے ایسی کہانیاں کیوں بناتے ہیں جو آنے والے سالوں میں زندہ حقیقت بن جاتی ہیں۔اس کے ساتھ ہی ساتھ ایسی فلموں سے بھی مدد لی جاتی ہے جو باکس آفس پر بری طرح پٹ چکی ہیں۔ خاندانی سیاست اور جاگیردارانہ نظام کی چکی میں پسنے والے عوام کا البتہ کوئی پرسان حال نہیں۔ جنگل کے قانون کی حد کوئی نہیں اور انسانوں کے قانون کی زد میں آنے والوں کی زندگی کی اونچ نیچ کی ضمانت دینے والا کوئی نہیں۔۔جنگل، فلموں اور سازشوں کا قانون نہیں بدلے گا تو انسانوں کی دنیا کا قانون کیوں بدلے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ فلمی ٹچ اور اس کا اثر ہمارے حقیقی اور مصنوعی سیاست دان لیتے رہیں گے۔

ایک پرانا مدفن جس میں دفن ہیں لاکھوں امیدیں

چھلنی چھلنی سینۂ آدم دیکھنے والے دیکھتا جا

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ روزنامہ پاکستان

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply