• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ابارشن: قدامت پرست امریکی ججوں کا متنازع فیصلہ۔۔سیّد محمد زاہد

ابارشن: قدامت پرست امریکی ججوں کا متنازع فیصلہ۔۔سیّد محمد زاہد

کبھی وہ دن تھے جب امریکی قدامت پسند سپریم کورٹ کے ججوں سے نفرت کرتے تھے۔۔یہ وہ دور تھا جب افریقی امریکیوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ پورے جنوب میں انہیں ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھا گیا، عوامی سہولیات سے روک دیا گیا تھا۔ ان کو سرعام تشدد کا نشانہ بنا کر مار دیا جاتا تھا۔ شمال میں، سیاہ فام امریکیوں کو رہائش، روزگار، تعلیم اور بہت سے دوسرے شعبوں میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

پھرعوامی تحریکیں اٹھیں۔
1960 کی صدارتی مہم میں برابر کے شہری حقوق کا مطالبہ سب سے اہم مسئلہ تھا۔
اس الیکشن سے بہت پہلے 1954 میں سپریم کورٹ کے تمام جج متفقہ طور پر سکولوں میں کالے اور گورے بچوں کے درمیان تفریق کرنے والے قانون پر فیصلہ دیتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دے چکے تھے۔

امریکی قدامت پرست اس فیصلے کے خلاف تھے۔ وہ کسی بھی صورت میں کالے بچوں کو اپنے بچوں کے برابر بٹھانا نہیں چاہتے تھے۔ اس فیصلے کے بعد انسانی حقوق کی تحریک کو مزید تقویت ملی۔ انتخابات سے چند ہفتے قبل مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو اٹلانٹا، جارجیا میں ایک احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا۔ جان ایف کینیڈی نے اپنی تشویش کا اظہار کرنے کے لیے کنگ جونئیر کی اہلیہ کو فون کیا، جبکہ رابرٹ کینیڈی کی جج کو کال کرنے سے ان کے شوہر کو رہائی میں مدد ملی۔ کینیڈی کی اس مدد کی وجہ سے سیاہ فام ووٹروں کی اکثریت نے الیکشن میں اس کی حمایت کی۔ قدامت پسندوں نے کینیڈی کی سخت مخالفت کی۔

ابارشن کے مسئلے پر 1973 میں سپریم کورٹ نے Roe v Wade کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ امریکی آئین کی چودھویں ترمیم میں دیے گئے رازداری کے بنیادی حق کی وجہ سے حاملہ خواتین کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اسقاط حمل کروانے یا نہ کروانے میں آزاد ہیں۔ اس فیصلہ میں سپریم کورٹ نے عورت کو ابارشن کراونے کا نہ صرف حق دیا بلکہ ڈاکٹر جو اس کام میں مدد کرتے ہیں ان کو بھی قانونی پابندیوں سے آزاد کر دیا۔ اس کے بعد سے اب تک امریکہ کی سیاست میں اس کی حمایت اور مخالفت میں مسلسل تحریکیں چل رہی ہیں۔

ملک بھر میں، تقریباً 70 فیصد افریقی امریکیوں نے کینیڈی کو ووٹ دیے۔ یہ ووٹ کئی اہم ریاستوں میں جیت کی بنیاد بنے۔ اس کے باوجود کینیڈی کو بہت کم مارجن سے فتح حاصل ہوئی۔ کانگرس میں بھی اس کے پاس اکثریت نہیں تھی۔

اس وقت امریکہ میں کل آبادی کا 6.88 فی صد سفید فام تھے اوران قدامت پرستوں کا دعویٰ تھا کہ کالے اور ان کے حامی جو قانون بیلٹ باکس کے ذریعے تبدیل نہیں کروا سکتے وہ مفاد سپریم کورٹ میں جا کر حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ سارے سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف تھے۔ اس کے برعکس آج قدامت پرستوں کی ایک نئی قسم بیلٹ باکس کے ذریعے جیتے ہوئے حقوق کی مخالفت میں سپریم کورٹ کے ہم خیال ججوں کی مدد سے قوانین تبدیل کروا رہے ہیں۔

یاد رہے کہ کینیڈی کے قتل کے بعد ووٹروں کی اکثریت لنڈن جانسن کی حامی ہوگئی اوراس نے کانگرس میں اپنے بیس سالہ تجربہ اور تعلقات کی بنیاد پر جولائی 1964 میں انسانی حقوق کا بل منظور کروا لیا۔
اس دور میں عورتوں کی آزادی اور حقوق کی تنظیمیں بھی جدوجہد کر رہی تھیں۔ ان کے مسائل میں ایک اہم مسئلہ ابارشن تھا۔ عورت یہ فیصلہ خود کرنے کی آزادی مانگ رہی تھی۔ قدامت پسند اس کے سخت خلاف تھے۔

ابارشن کے مسئلے پر 1973 میں سپریم کورٹ نے Roe v Wade کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ امریکی آئین کی چودھویں ترمیم میں دیے گئے رازداری کے بنیادی حق کی وجہ سے حاملہ خواتین کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اسقاط حمل کروانے یا نہ کروانے میں آزاد ہیں۔ اس فیصلہ میں سپریم کورٹ نے عورت کو ابارشن کراونے کا نہ صرف حق دیا بلکہ ڈاکٹر جو اس کام میں مدد کرتے ہیں ان کو بھی قانونی پابندیوں سے آزاد کر دیا۔ اس کے بعد سے اب تک امریکہ کی سیاست میں اس کی حمایت اور مخالفت میں مسلسل تحریکیں چل رہی ہیں۔

ابارشن کا حق صرف آزادی نہیں وسیع تر سماجی انصاف کی ایک جہت ہے۔ ہر کسی کو مکمل آزادی ہونی چاہیے وہ جب چاہے اولاد پیدا کرے یا نہ کرے۔ تمام معاشرے کو اس معاملہ میں اس کا مدد گار ہونا چاہیے.

اس جمعہ کے روز امریکی سپریم کورٹ نے پچاس سال پرانے رو بمقابلہ ویڈ کے فیصلے کو غلط کہتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔ 5۔4 کے اکثریتی فیصلے میں ریپبلکن پارٹی کے مقرر کیے گئے ججوں نے یہ فیصلہ دیا۔ ٹرمپ کی زیر قیادت اس پارٹی کو سفید فام قدامت پسندوں کی حمایت حاصل ہے۔ فیصلے کے چند ہی گھنٹے بعد امریکی صدر بائیڈن نے اس پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ اس فیصلے سے قدامت پسند، انتہا پسند سفید فام امریکیوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے درمیان خلیج مزید بڑھے گی۔

عدالت کا کہنا ہے کہ انہیں عوامی ردعمل کی ذرہ  برابر پرواہ نہیں، ججوں کو اپنا کام کرنا چاہیے اور قوانین کی تشریح کرنی چاہیے۔ انہیں پرواہ نہیں ہونی چاہیے چاہے ان کے فیصلے سے ملک کے دو حصے ہو جائیں۔ غلط کو ہمیشہ غلط کہنا چاہیے باقی جو چاہے ہو۔

کئی مہینے پہلے سامنے آنے والے خفیہ پیپرز سے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ امریکی سپریم کورٹ نصف صدی پہلے دیے گئے فیصلے کو واپس لینے جارہی ہے، لیکن پھر بھی جب فیصلہ آیا تو انسانی حقوق کے علمبردار ششدر رہ گئے۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ جسے انسان کا بنیادی حق قرار دیا جا چکا تھا مستقبل کی عورتیں اس حق سے محروم کر دی جائیں گی؟۔ اس فیصلےکے بعد ترقی پسند لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ کسی کو بھی آئینی حقوق کا عادی نہیں ہوجانا چاہیے کیونکہ وہ کسی وقت بھی چھینے جا سکتے ہیں۔

پوری دنیا میں قدامت پرست ہمیشہ صدیوں پرانے قوانین، روایات اور مذاہب کی آڑ میں انسانوں پر اپنی دھونس جماتے رہے ہیں اور اس کام کے لیے بوڑھے اور فرسودہ سوچ کے مالک ججوں کی مدد لیتے رہے ہیں۔ ترقی پسند لوگ ہمیشہ ایسے نظام پر نکتہ چیں رہے ہیں جس میں نو میں سے پانچ جج یہ فیصلہ کر دیتے ہیں کہ عوام کے حقوق کیا ہیں؟ عدالتیں سماجی انقلابات کی لیڈر نہیں ہوتیں اور نہ ہی آئینی اقدار کی صحیح محافظ ۔ سال ہا سال سے یہ قدامت پرست جج مقبول عوامی تواقعات اور آراء  کے مخالف رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جج ہمیشہ قدامت پرست رہے ہیں اور کبھی بھی جدیدیت کے حامی نہیں ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے فیصلوں پر لوگ ناراض ہو کر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں اور یہ فیصلے ان کی اور ان کے ادارے کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

امریکی عدالت کا یہ فیصلہ اس کہانی کو ختم نہیں کرے گا جو پچھلے پچاس سال سے جاری ہے ان فیصلوں سے ابارشن کے آئینی حق کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکے گا۔ عدالت کے پاس بہت طاقت ہے لیکن عوامی طاقت بھی کچھ کم نہیں۔ اب عوام سڑکوں پر ہوں گے اور شہر شہر مہم چلا کر اپنے منتخب نمائندوں کو مجبور کریں گے کہ وہ اس حق کے لیے قانون سازی کریں۔ اب یہ جنگ امریکی ریاستوں کے قانون ساز اداروں میں لڑی جائے گی۔

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply