شرم ناک ہنگامے اور شہباز کی سیاست۔۔محمد اسد شاہ

“اسمبلی میں داخل نہیں ہونا؟” یعنی یہ سزا ہے ۔ اگر یہ سزا ہے تو پھر قوم کے ساتھ اور کیا مذاق ہو گا ؟ یہ لوگ اسمبلی میں کھڑے ہو کر سرعام ماؤں بہنوں کے نام کی ننگی گالیاں بکیں اور آپ انھیں کہیں کہ صرف اتنے دن تک اسمبلی میں نہ آئیں ۔ اس دوران مزید تماشے ہوتے رہیں گے ، لوگوں کو یہ شرم ناک جرم بھول جائے گا ، تب آ جانا ۔ باخبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسمبلی ریکارڈنگ میں پچاس کے قریب ارکان سامنے آئے ۔ لیکن 7 افراد پر پابندی کا حکم ملا ۔ علی امین گنڈہ پور، مراد سعید، زرتاج گل، ملیکہ بخاری اور شیریں مزاری وغیرہ کو اس معمولی سزا سے بھی بچا لیا گیا ۔ جب کہ وڈیوز میں بہت کچھ واضح ہے ۔ وجہ شاید یہ ہو کہ یہ اپنے قائد کے چہیتے لوگ ہیں جو ہر قدم اپنے قائد کے حکم کے مطابق ہی اٹھاتے ہیں ۔ دوسری طرف علی گوہر پر پابندی لگا دی گئی جنھوں نے چور چور والی نعرے بازی کے جواب میں نعرے بازی ضرور کی لیکن علی نواز وغیرہ جیسی ننگی گالیاں نہیں دیں ۔ اسی طرح سرگودھا سے چودھری حامد حمید جیسے شریف النفس اور نظریاتی جمہوری شخصیت پر بھی پابندی لگا دی گئی ، جس کی وجہ شاید ہی کسی کی سمجھ میں آتی ہو ۔ چودھری حامد حمید عرصہ دراز سے بعض نامعلوم حلقوں کے غضب کا شکار ہیں ۔ ان کے خلاف بے بنیاد مقدمات ، گھر پر چھاپے ، گرفتاریاں اور دیگر حربے استعمال ہوتے رہے ۔ انھیں بھاری اکثریت سے منتخب ہونے کے باوجود اہلیان سرگودھا کی نمائندگی سے محروم رکھنے کی بہت کوششیں کی گئیں ۔ اب انھیں اسمبلی میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے ۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ آغا رفیع اللّٰہ پر پابندی لگانے کی بھی کوئی وجہ سامنے نہیں آ سکی ۔ یعنی آپ کی نظر میں اس رویئے کا نام انصاف ہے ، اور اسی وجہ سے آپ اپنی پوری پارٹی کو بھی “تحریک انصاف” کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ جس بات پر اعتراض کیا جا رہا ہے ، وہ سپیکر کی عمران خان سے ملاقات ہے ۔ خان صاحب تحریک انصاف کے چیئرمین بھی ہیں ۔ حالیہ شرم ناک ہنگامہ آرائی میں تحریک انصاف پر الزام ہے ، بل کہ وڈیو ریکارڈنگ موجود ہے ۔ پھر اپوزیشن یہ الزام بھی لگاتی ہے کہ یہ ہنگامہ خان صاحب کی ہی ہدایت پر کیا جا رہا ہے ۔ ہو سکتا ہے یہ الزام غلط ہو ، لیکن خان صاحب اور ان کی جماعت اس معاملے میں ملزم اور فریق تو ہیں ہی ۔ پھر اس فیصلے سے پہلے سپیکر کا ان کی خدمت میں حاضر ہونا چہ معنی دارد؟ کیا ایک جج فیصلہ سنانے سے پہلے خود جا کر ملزم فریق سے ملاقات کر سکتا ہے؟ شاید یہی وجہ ہے کہ ننگی گالیوں سے بھرپور حالیہ شرم ناک ہنگامے کی وڈیوز میں نظر آنے والے بہت سے لوگوں کو اس پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ۔ اور اپوزیشن نے بھی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا اعلان کر دیا ۔ حال آں کہ اس تحریک کا بھی وہی حشر ہوتا نظر آ رہا ہے جو سینٹ میں سنجرانی کے خلاف تحریک کا ہؤا ۔ لیکن کیا کیا جائے کہ شہباز اور بلاول مل کر “سیاں جی” کو خوش رکھنے پر بضد ہیں ۔
اسمبلی کاروائی نوٹ کرنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سارے فساد کی ابتداء شاہ محمود قریشی کی طرف سے کی گئی ۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف بجٹ پر بحث کا آغاز کرنے کے لیے جیسے ہی آئے ، قریشی صاحب مبینہ طور پر بلند آواز سے چور چور کی گالیاں دینے لگے ۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ شاید ایک اشارہ تھا کہ اب “کام” شروع کیا جائے ۔ چناں چہ یہی ہوا اور پھر پی ٹی آئی کے نامی گرامی لوگ اس کام میں باقاعدہ شامل ہو گئے ۔ مراد سعید ، علی امین گنڈہ پور ، فہیم خان ، علی نواز اعوان ، عبدالمجید نیازی ، زرتاخ گل ، ملیکہ بخاری ، شیریں مزاری وغیرہ کو آخر اتنا غصہ کس بات پر تھا ؟ کیا حکومتی ٹیم کا رکن ہونے کے یہ آدابِ ہؤا کرتے ہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سب کچھ “لیڈر” کے حکم پر کیا جا رہا ہو ؟ آپ اپوزیشن میں تھے تب بھی “ات مچا رکھی” تھی ۔ کوئی آئین ، کوئی قانون ، کوئی اخلاق ، کوئی اصول آپ پر لاگو نہیں ہو سکتا تھا ۔۔۔۔ اور اب تو خیر اختیارات ہی آپ کے اپنے “پاک صاف” ہاتھوں میں ہیں ۔ اب بھی آپ کے وہی تیور ہیں ۔ اسمبلیوں میں ہنگامے تو دیگر ممالک میں بھی ہوتے ہیں ، لیکن ہمیشہ یہ کام اپوزیشن کیا کرتی ہے ۔ پہلی بار دیکھا گیا ہے حکومت یہ کام کر رہی ہے ۔
سنجیدہ اور غیر جانب دار تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ معیشت کی تباہی ، بدترین مہنگائی ، ریکارڈ توڑ قرضوں کا پہاڑ قوم کے سروں پر لادنے ، بی آر ٹی ، آٹا ، چینی ، ادویات ، پٹرول ، رنگ روڈ وغیرہ جیسے کئی کرپشن سکینڈلز سامنے آنے کے بعد خان صاحب خود “مظلوم” بننے کے لیے حکومت توڑنا چاہتے ہیں تا کہ اگلے انتخابات کی “مینجمنٹ” بھی آسان ہو سکے ۔ اس مقصد کے لیے ایسے ہنگامے کروائے جا رہے ہیں ۔ اللّٰہ جانے اس خیال میں کتنی صداقت ہے ، لیکن معاملات گھمبیر ضرور ہیں ۔
دوسری طرف پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ نواز کے چند ارکان حکومت کی محبت میں مبتلا ہو کر وزیر اعلیٰ کے ساتھ باقاعدہ ملاقاتیں کرتے پھر رہے ہیں اور اب تو انھوں نے پارٹی سے الگ بنچز کی درخواست بھی کر دی ہے ۔ سابقہ دور میں ق لیگ کے ارکان کا ایک گروپ یہی کام کر چکا ہے ۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ نااہلی کی شق ان پر لاگو نہ ہو سکتی تھی ۔ لیکن مسلم لیگ نواز کے ووٹ سے اسمبلی میں پہنچ کر تحریک انصاف سے ملاقاتیں کرنے والوں کی تعداد انتہائی مختصر ہے ۔ آئین کی چودہوں ترمیم کے مطابق اگر پارٹی صدر ان کے خلاف الیکشن کمیشن کو ایک تحریری درخواست بھجوا دے تو الیکشن کمیشن کے لیے لازمی ہو جائے گا کہ ان ارکان کی رکنیت ختم کر کے ان کے حلقوں میں دوبارہ انتخاب کروائے ۔ لیکن اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ لوگ اپنی پارٹی کے مزید لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملا سکتے ہیں ۔ لاکھ روپے کا سوال یہ ہے کہ ایک سال گزرنے کے بعد بھی آخر شہباز شریف ان لوگوں کے خلاف درخواست دائر کیوں نہیں کرنا چاہتے؟ شہباز کا اصل ایجنڈہ کیا ہے ؟

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply