ن لیگ اور ڈَک ٹیسٹ/راؤ کامران علی

کمشنر پنڈی کا تذکرہ ن لیگ کے احمق ترین سیاستدان بڑے عجیب پیرائے میں کررہے ہیں۔ ضروری نہیں سیاستدان ہی ترجمان ہو۔کبھی دیکھا ہے کہ وائٹ ہاؤس کا ترجمان عطا تارڑ جیسا   انسان ہو؟ دو تین پڑھے لکھے لوگ پے رول پر رکھ لو تاکہ انسانوں والا رسپانس دے سکو۔
کمشنر پنڈی کہتا ہے” میرا خود کشی کا ارادہ تھا”؛ پوری دنیا میں کوئی بھی سمجھدار انسان بالخصوص ڈاکٹر اسے غیر سنجیدگی سے نہیں لے سکتا ہے۔ ایسے ہی جیسے کسی بلڈنگ میں بم لگانے کی ننانوے فیصد اطلاعات غلط ہوتی ہیں لیکن مہذب معاشرے اسے سنجیدگی سے لیکر فوراً بلڈنگ خالی کرواتے ہیں کیونکہ ایک پرسنٹ چانس کیوں لینا؟ اس لئے کمشنر لیاقت چٹھہ کی اس بات کو، جذبات کی شدت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

ایک کمشنر (بالخصوص جو ریٹائرڈ ہونے والا ہو) بطور ڈپٹی کمشنر ڈسڑکٹ مجسٹریٹ بھی رہا ہوتا ہے اور اسے پتا ہوتا ہے کہ کس جرم پر سزائے موت ملتی ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ مجھے چوک پر پھانسی دو تو یہ guilt اور remorse کا اظہار ہے جو کہ ڈپریشن کے مرض سے جڑا  ہے۔

تو کمشنر صاحب کو شدید ڈپریشن لگتا ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے یا کوئی پاگل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مکمل سچ بول رہا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تھوڑا بڑھا کر پیش کر رہا ہو۔ شدید ڈپریشن میں جھوٹ کے امکانات کم ہوتے ہیں لیکن مبالغہ آرائی کے چانسز کافی ہوتے ہیں۔اب جقیقت کیا ہے اس کا تعین کیسے ہوگا؟

منطق کی زبان میں Abductive reasoning “استدلال برحسب تکمیل” کی اصطلاح اس وقت استعمال ہوتی ہے جب مشاہدات کی روشنی میں سچائی کا تعین کیا جاتا ہے۔ فلاسفر چارلس پئیرس نے اسکے لئے ڈک یعنی بطخ ٹیسٹ ایجاد کیا۔ اسکا کہنا ہے کہ اگر کوئی پرندہ بطخ کی طرح نظر آتا ہے بطخ جیسی آوازیں نکالتا ہے اور بطخ جیسے تیرتا ہے تو وہ بطخ ہی ہوگی (گو کہ سو فیصد نہیں کہہ سکتے) اس کے مقابلے میں سو فیصد یقین سے Adductive reasoning استعمال ہوتی ہے جیسے کہ ہر انسان فانی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ بھی انسان ہے تو اس نے بھی ایک دن فوت ہوجانا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب ڈک ٹیسٹ کی رو سے مشاہدہ کیا جائے تو  ن لیگ کے جلسے ویران تھے، سارے غیر جانبدار سروے ن لیگ کے خلاف تھے، رزلٹ روک کر نمبرز ٹی وی پر سب کے سامنے بدلے گئے،کمشنر پنڈی کے کیرئیر کی ستّر اسّی فیصد بہترین پوسٹیں ن لیگ کے زمانے میں تھیں تو وہ انکا اپنا بندہ تھا اور بظاہر کوئی ٹھوس وجہ نظر نہیں آتی کہ وہ جھوٹ بول کر اتنا بڑا رسک لے۔ عمران خان کا فین نہ ہونے کے باوجود مجھے لگ یہی رہا ہے کہ ن لیگ نے دھاندلی سے سیٹیں جیتی ہیں۔ مرکز میں حکومت بنائے گی تو ہر کونے سے مار کھائے گی! نہ انٹرنیشنل سپورٹ ہوگی، نہ عوامی سپورٹ ہوگی، نہ بیوروکریسی عزت کرے گی (چٹھہ کی طرح) اور زرداری کی بلیک میلنگ چلتی رہے گی، فوج کتنا اور کب تک بچا لے گی؟ ڈک ٹیسٹ کی روشنی میں عمران کی حکومت کے سوا کوئی چارہ رہ نہیں گیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply