مادری زبان کا دن مبارک/محموداصغرچودھری

پنجابی دنیا بھر میں بولی جانے والی زبانوں میں دسویں نمبر پر ہے ۔اس کا تقابل اگر یورپی زبانوں سے کیا جائے تو جرمن ، فرنچ ، اٹالین سمیت بہت سے ترقی یافتہ ممالک کی زبانوں کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے، پاکستان میں 80فیصد لوگ پنجابی بولنا جانتے ہیں ۔ ملک کی 60فیصد آبادی کی مادری زبان پنجابی ہے ۔ امریکہ کینیڈا، برطانیہ ، آسٹریلیا ۔ دنیا کا کون سا ملک جہاں پنجابی بولنے والے موجود نہیں ہیں ۔ برطانیہ میں تیسری بولی جانے والی زبان پنجابی ہے ۔

حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ انڈیا میں صرف 5فیصد لوگ پنجابی بولتے ہیں لیکن انڈین پنجاب میں اس کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے اس کے برعکس پاکستان میں 13کروڑ لوگوں کی مادری زبان پنجابی ہے لیکن اسے کوئی سرکاری سرپرستی حاصل نہیں ہے ۔ بلکہ الٹا پنجابی بولنے والوں کو پینڈو ، جاہل اور کم پڑھا لکھا تصور کیا جاتا ہے ۔ پاکستانی کے پنجابی گھروں میں بچوں کو سختی سے اردو بولنے کی تاکید کی جاتی ہے تاکہ اسے گھر کے لوگوں کو پڑھا لکھا سمجھا جائے ۔ حالت یہ ہے کہ انتہائی تعلیم یافتہ شخص بھی پنجابی بول تو سکتے ہیں لیکن پڑھ نہیں سکتے ۔میرا لمیہ یہ ہے کہ میں یہ بات اردو میں لکھ رہا ہوں کیونکہ پنجابی میں لکھوں گا تو کوئی پڑھ ہی نہیں سکے گا۔

پنجابی کے ساتھ ستم یہ ہے کہ لوگ شاعری میوزک ، بھنگڑا سب کچھ پنجابی میں سننا چاہتے ہیں اور ا س پر ناچنا بھی چاہتے ہیں لیکن علامہ اقبال سمیت بڑے سے بڑے پنجاب کے شاعر بھی اپنی زبان میں شاعری کرنے سے قاصر رہے ،اور اس زبان کو بالکل اہمیت نہیں دی ۔ پاکستان جو پنجابی بولنے والوں کا مرکز ہونا چاہئے وہاں ایک خاص ذہنیت کی بِنا پر اس زبان کے ساتھ سب سے زیادہ زیادتی کی گئی ۔ اشرافیہ کی یہ زبان نہیں ہے ۔ مقتدرہ پنجابیوں کو ڈگھا ۔۔ بیل ۔۔ مشہور کرواتی ہے ۔ملک میں سب سے زیادہ لطیفے بھی پنجابیوں کے بنتے ہیں ۔ اور دیگر صوبہ سے تعلق رکھنے والوں کی نظر میں سب سے زیادہ قابل نفرت بھی یہی پنجابی ہی ٹھہرتے ہیں ۔

پنجابی زبان کے علاوہ پنجابی لوگ اور پنجابی ثقافت بھی مہمان نوازی ، محبت اور دوستی میں اپنی مثال آپ رکھتی ہے ۔ پاکستان کے پنجاب میں انڈیا یا افغانستان سے آنے والوں کے لئے مہاجر کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا جبکہ اس کے برعکس سندھ ، کراچی یا دیگر علاقوں میں اس قسم کی عصبیت پائی جاتی ہے ۔ اس کا اندازہ ان علاقوں میں اپنے حقوق کے لئے بننی والی جماعتوں سے لگایا جا سکتا ہے ۔ بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا ہ جہاں کہیں بھی پنجابیوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں قتل کیا جائے ۔ کبھی بھی ایسی کوئی تحریک یا آواز نہیں اٹھی جس میں پنجابی مظلومیت کا کارڈ کھیلا گیا ہو ۔ پنجابیوں کی عصبیت سے نفرت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اگر کوئی پنجابی ازم کا نعرہ لگائے تو اسے سب سے زیادہ مزاحمت پنجابیوں کی جانب سے ہی ملتی ہے کہ ایسی باتیں نہ لکھو ۔

پنجابی زبان کو سکولوں میں رائج نہ کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ زبان میں نکھار پیدا نہیں ہوا ۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ گالیاں اسی زبان میں ہیں ۔ پنجابی لہجے میں بات کرنے والے کو اکھڑ سمجھا جاتا ہے ۔ پنجابی بولنے میں ذرا آواز میں کھنک پیدا ہوتی ہے تو سننے والا یہ سمجھتا ہے کہ شاید غصے میں ہے حالانکہ پنجابی دل سے نرم ہوتے ہیں ۔

پنجابی میں شکریہ ادا کرنے کا کوئی لفظ نہیں ہے ۔ وہ اس لئے کہ پنجابی سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے کی مدد کرنا فرض ہے اس میں شکریے کی کون سے بات ہے ۔ پنجابی میں سوری کا بھی کوئی لفظ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں اگر کوئی دوست بیمارہو یا پریشان ہوتو اسے یہ نہیں کہتے کہ سب ٹھیک ہوجائے گا اسے پکڑ کے کہتے ہیں ۔۔اوتینوں کی موت پے گئی اے ۔۔۔ اس کھلے پن کا نتیجہ ہے کہ پنجابیوں کو ڈپریشن ۔ فرسٹریشن انیگزائیٹی جیسی بیماریا ں نہیں ہوتیں ۔ ان میں وکٹم بننے کا کوئی تصو رنہیں ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پنجابی زبان کے عروج میں صوفیا ء کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ بلھے شاہ ، شاہ حسین ، سلطان باہو، میاں محمد بخش اور بابا فرید جیسے صوفیاء نے اس زبان کو جلا بخشی ۔ لیکن حالیہ دور میں منو بھائی ، مسعود انور ،منیر نیازی ، موہن سنگھ اورامرتا پریتم نے اس کو چار چاند لگائے ۔ لیکن اگر آ پ نے شیو کمار بٹالوی کا کوئی کلام نہیں سنا تو آ پ کا پنجابی زبان سے دعوی جھوٹا ہے ۔ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انڈیامیں انہیں ادب کا سب سے بڑا ایوارڈ ساہتہ اکیڈمی ایوارڈ ملا اور ان کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ وہ یہ ایواڈ حاصل کرنے والے کم عمر ترین شاعر بھی تھے ۔
پنجابی کو بچاناچاہتے ہیں تو بچوں کو پنجابی زبان بولنے سے منع نہ کریں ۔ زبان افراد کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہوتی ہے ذہانت ماپنے کا پیمانہ نہیں ۔
آخر میں میری پنجابی کی ایک غزل
مینوں تیری لوڑ وے بیبا
دل نوں تیری تھوڑوے بیبا
کالہی ایڈی کانہوں پائی آ
جاون دی کی سوڑ وے بیبا
عمراں ساڈیاں لنگ چلیاں نے
مکدی نہیں اے دوڑ وے بیبا
اک واری تے اکے مل جا
گڈی دا منہ موڑ وے بیبا

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply