اک متنازعہ آڈیو اور ویب سائیٹ۔۔۔ سالار کوکب

ایک سینئر صحافی اور ایک کالم نگار خاتون کے درمیان ایک گفتگو کے حوالے سے ایک آڈیو گردش میں ہے – ایک فیس بک یوزر کی ٹائم لائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خاتون  کالم نگار تسلیم کرتی ہیں کہ ان کا اس آڈیو کو بنانے میں کردار ہے اور اس آڈیو کا ان کے ایک آن لائن کالم سے تعلق ہے –
جب تک اس آڈیو کے صحیح ہونے کی تصدیق نہیں ہو جاتی اس میں کی گئی باتیں محض الزام ہیں – کچھ اصحاب نے متعلقہ ویب سائٹ پر الزام لگایا ہے کہ اس میں موجود کچھ لوگ ایسی آڈیوز کے ذریعے لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں –

اگر اس ویب سائٹ کو چلانے والے لوگوں کے ماضی کو دیکھا جائے تو ان میں سے کسی کے متعلق تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس طرح کی کسی سرگرمی میں ملوث ہوسکتے ہیں – الزام لگانے والوں کو بغیر ثبوت کے ویب سائٹ پر  کیچڑ اچھالنے سے گریز کرنا چاہیے –

تاہم اس سارے معاملے میں اس ویب سائٹ کا کردار کچھ زیادہ قابل تعریف نہیں ہے- اس میں شاید نیت سے زیادہ ‘جہالت’ کا دخل ہے – کچھ عرصۂ پہلے اس ویب سائٹ نے ایک مشہورکھلاڑی کے کھیل کے دوران سامنے آنے والے جسم کے حصّے کی تصویر اپنی سائٹ پر لگائی – ایسی تصویروں پر بنیادی بحث یہ بنتی ہے کہ کیا کسی فوٹو گرافر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی خاتون  کی اس طرح کی تصویر لے – لیکن ویب سائٹ نے نہ صرف خاتون کی مرضی کے بغیر کھینچی گئی یہ تصویر استعمال کی بلکہ اس کا تعلق خواتین کے لباس کے انتخاب کے حق  کے ساتھ بنا دیا جو کہ ایک دوسرا موضوع ہے –

موجودہ کیس میں جیسے ہی اس ویب سائٹ کے مالکان کے علم میں یہ بات آئی کہ کوئی  شخص یا گروہ اٹھارہ  سال سے کم عمر کی لڑکیوں کو جنسی عمل / کاروبار میں شرکت پر اکسانے کا دھندہ کرتا ہے تو ان کی ذمہ داری بنتی تھی کہ مضمون کی اشاعت کو روک کرمتعلقہ حکومتی اداروں کو اس کی اطلاع دیتے – مضمون کی اشاعت کو اس وقت تک روک دیا جاتا جب تک اس حوالے سے موثر کارروائی نہ ہو جاتی یا کم از کم بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف کام کرنے والے ادارے معاملے کی نگرانی کی ذمہ داری نہ لے لیتے –

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کے برعکس اس ویب سائٹ نے پہلے اس مضمون کو شائع کیا – اس کے بعد ویب سائٹ یا خاتون کالم نگار کی طرف سے  یا ان کے غیر محتاط ہونے کی وجہ سے ایک آڈیو لیک کر دی گئی – اس آڈیو لیک کے مثبت نتائج بھی ہو سکتے ہیں اور منفی بھی – لیکن اس وقت اہم بات یہ ہے کہ ویب سائٹ کو اس معاملے میں اپنا موقف ، کردار اور مستقبل کا لائحہ عمل واضح کرنا چاہیے – اگر یہ سارا کام مثبت نتائج کے حصول کے لیے کیا گیا ہے تو اسے اس طرح انجام تک پہنچانا ضروری ہے کہ اس کی اصل حقیقت سامنے آئے اور اگر واقعی  کوئی مجرم ہے تو اسے سزا ملے – دوسری صورت میں اس آڈیو کی تشہیر کے  خواتین کے کاروبار ، سکول کی نوکری حتی کہ سکول میں پڑھائی پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply