• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(چوبیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(چوبیسواں دن)۔۔گوتم حیات

لاک ڈاؤن میں تیس اپریل تک توسیع کردی گئی ہے۔ آج ایک پریس کانفرنس کے دوران وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ آبدیدہ ہو گئے۔ انہوں نے ہاتھ جوڑ کر التجا کی کہ صوبائی حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے، اس وبا سے نمٹنے کے لیے ہم سب کو ایک ہونا پڑے گا۔
سندھ میں کرونا کے سبب ہونے والی اموات کی شرح 2.4 فیصد ہے۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ نے اگلے دو ہفتوں میں لاک ڈاؤن کو مزید سخت کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔
میرے خیال میں وسیع تر عوامی مفاد کی خاطر ان کا یہ فیصلہ جراتمندانہ ہے۔ ہمیں ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہمارے پاس لاک ڈاؤن کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں ہے۔ کرونا کی وبا کا مقابلہ ہم گھر پر بیٹھ کر، سماجی دوری کو اختیار کیے بغیر نہیں کر سکتے۔ یہی وہ حکمتِ  عملی ہے جس کو بروئے کار لا کر ہم اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنا سکتے ہیں۔

شہر بھر میں گزشتہ بائیس، تئیس دنوں کے لاک ڈاؤن میں عوامی سطح پر بہت سی ایسی منفی چیزیں ہمیں دیکھنے کو ملیں، جس میں لوگ بِلا ضرورت گھروں سے باہر دیکھے گئے، حکومت کی سخت تنبیہہ کے باوجود لوگوں نے مساجد میں باجماعت نمازیں ادا کیں، کئی جگہوں پر ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جس میں شہریوں نے پولیس اہلکاروں کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کیا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کراچی پریس کلب میں علمائے دین نے پریس کانفرنس کر کے مساجد کھولنے اور باجماعت نمازیں پڑھانے کا اعلان کیا۔ مذہبی عمائدین کی طرف سے اس طرح کا غیر ذمہ دارانہ رویہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور ایک لاکھ 26 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ خود ہمارے ملک میں کرونا کے مریضوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے، تقریباً چھ ہزار سے زائد افراد کرونا کے مرض میں مبتلا ہیں اور 107 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ آنے والے دنوں میں شاید کوئی بہتری ہمیں دیکھنے کو ملے، لیکن اس کے امکانات بہت کم ہیں۔۔۔
کاش کہ کچھ بہتری ہو سکے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے عوام اس وبائی بیماری سے کسی حد تک محفوظ ہوئے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے، خصوصاً وہ طبقہ جن کی گزر بسر ہی روزانہ کی اُجرت پر ہے۔ شہر میں لاکھوں خاندان ایسے ہیں جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے دوہرے عذاب کا شکار ہیں۔

حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے لوگوں کی مالی مشکلات کو ہنگامی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلاحی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ احسن طریقے سے اپنے فرائض سرانجام دیں۔ لیکن نہایت ہی دکھ کے ساتھ مجھے یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ اس مشکل وقت میں ہر کوئی بس اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوششوں میں مگن ہے۔ سندھ حکومت کی طرف سے آج اس بات کا بھی اعلان کیا گیا کہ وہ  اڑھائی لاکھ خاندانوں میں  راشن تقسیم کر چکی ہے۔ کیا اڑھائی لاکھ خاندان ہی متاثرین میں شمار ہوں گے؟؟؟۔۔کروڑوں کی آبادی رکھنے والے  صوبہ سندھ میں محض اڑھائی لاکھ راشن کی کیا کوئی اخلاقی حیثیت ہے۔۔۔؟
جبکہ صرف کراچی کی آبادی اڑھائی کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ وبا کے ان دنوں میں بہت سے فلاحی اداروں کے سربراہان بلند و  بانگ دعوؤں میں مصروف ہیں، ویڈیو اور تصاویر کے ذریعے یہ لوگ اپنے آپ کو “حاتم طائی” ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غریب لوگ راشن کے انتظار میں سارا سارا دن سڑکوں پر خوار ہو رہے ہیں۔ شام ڈھلے افق پر ڈوبتا آفتاب ان کی خالی ہتھیلیوں کو ایک اور دن کے انتظار کی نوید دے کر رخصت ہو رہا ہے۔۔۔

آج شام جب میں ڈائری لکھنے بیٹھا تو وٹس ایپ گروپ  میں  میری ایک دوست سیما کا میسج موصول ہوا، اس کا میسج اور تصاویر دیکھ کر میں نے فوراً اس کا نمبر ملایا، دوسری طرف سے سیما کی دکھ بھری آواز مجھ سے ہمکلام تھی۔ میں پڑھنے والوں کو بتاتا چلوں کہ سیما انفرادی طور پر کچھ لوگوں سے ڈونیشن لے کر ایسے غریب لوگوں کے گھروں پر راشن تقسیم کر رہی ہے جہاں نہ ابھی تک حکومتِ سندھ کا کوئی نمائندہ پہنچا ہے اور نہ ہی “جے ڈی سی” کی طرف سے “حاتم طائی صاحب” کا “راشن سے بھرا ہوا ٹرک”۔

سیما سے جو فون پر بات ہوئی وہ میں یہاں مختصراً بیان کر رہا ہوں۔۔۔
سیما نے مجھے بتایا:
“عاطف آج میں نے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر نئی سبزی منڈی، ہائی وے کے پاس موجود کچی آبادی میں رہنے والے لوگوں میں راشن تقسیم کیا۔ ہمارے پاس راشن محدود تھا جبکہ آبادی کا ایک جم غفیر ہمیں اداس نظروں سے تکے جا رہا تھا، اس امید میں کہ ان کی باری بھی آئے گی، لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس راشن کے تھیلے ختم ہو چکے تھے۔ راشن تقسیم کرنے کے دوران ہمیں اس بات کا علم ہوا کہ ابھی تک یہاں حکومتی اور نجی سطح پر کسی بھی قسم کی کوئی مالی امداد نہیں پہنچائی گئی۔
روز گار کے سلسلے میں یہ لوگ برسوں سے یہاں اپنے خاندانوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ہائی وے روڈ کے اطراف میں پھیلی ہوئی یہ محنت کش آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہ لوگ دو وقت کی روٹی کی خاطر اپنے بیوی بچوں سمیت کڑی مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے روزگاری میں مبتلا یہ مزدور پیشہ افراد ابھی تک امداد کے منتظر ہیں۔”
سیما کا مزید کہنا تھا کہ:
“وہ سب لوگ ہمیں سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔۔
ہمارا کیا قصور ہے؟؟ ہم کیوں محروم ہیں؟؟
وہ سوال کرتے ہوئے دکھی چہرے، صدیوں کی مشقت سے مزیّن ان کے خالی سپاٹ ہاتھ، جن کی لکیریں بھی اب معدوم ہو چکی تھیں، مجھ سے آج بھلائے نہیں جا رہے۔۔۔”

سیما کی کال ختم ہو چکی تھی لیکن اس کی آواز میرے کانوں میں مستقل گونج رہی تھی۔۔۔
“ہمارا کیا قصور ہے؟؟؟ ہم کیوں محروم ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply