ذہانت (35) ۔ ٹریفک/وہاراامباکر

پال نیومین آکسبوٹیکا کمپنی کے بانی ہیں جو خودکار گاڑیوں کا سافٹ وئیر بناتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مکمل طور پر خودکار گاڑی بنانا بہت بہت مشکل رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پال نیومین کہتے ہیں کہ “فرض کیجئے کہ ایک ہلکا سا خم رکھنے والی سڑک ہے۔ دو گاڑیاں مخالف سمت میں آ رہی ہیں۔ ایک انسان اس صورتحال میں بالکل بھی پریشان نہیں ہو گا۔ اسے معلوم ہو گا کہ دوسری گاڑی اپنی لین میں رہے تو محفوظ طریقے سے دو میٹر دور سے گزر جائے گی۔ لیکن دیکھنے سے یہ لگے گا کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی طرف ٹکراؤ کے لئے بڑھ رہی ہیں۔ بغیر ڈرائیور والی گاڑی کو یہ کیسے بتایا جائے کہ گھبرانا نہیں ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ، چوکنا بھی رہنا ہے تا کہ کہیں واقعی ٹکر نہ ہو جائے۔ یاد رہے کہ گاڑی بھی اچھا اندازہ ہی لگا رہی ہے کہ کیا کرنا ہے۔ اور اس کو کیسے کیا جائے کہ استثنا کے، ہر بار، یہ درست رہے۔ یہ بہت بہت مشکل ہے”۔
ایسے مسائل ماہرین کے لئے معمہ رہے ہیں لیکن ان کا حل ہے۔ اس کا ایک حل یہ ہے کہ ماڈل میں اس چیز کا اضافہ کیا جائے کہ معقول ڈرائیور کیسا رویہ رکھتے ہیں۔
نیومین کہتے ہیں کہ “مشکل چیز یہ ہے کہ ڈرائیونگ کے ہر مسئلے کا تعلق ڈرائیونگ سے نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، الگورتھم کو یہ سکھانا کہ آئس کریم کی گاڑی کی موسیقی کیسی ہے۔ یا بچوں کا گروپ اگر فٹ پاتھ پر گیند سے کھیل رہا ہے تو اضافی احتیاط کیا کرنی ہے۔ یا پھر آسٹریلیا میں ہیں تو اچھلتے کینگرو کو کیسے پہچانا جائے۔ آسٹریلیا میں سڑک پر چلانے کے لئے یہ لازمی مہارت ہے۔
اس سے زیادہ مشکل چیز یہ ہے کہ گاڑی کو یہ کیسے سکھایا جائے کہ کب قوانین توڑ دینے ہیں۔ مثال کے طور پر، آپ سرخ اشارے پر کھڑے ہیں اور کوئی آپ کے آ کر گاڑی کو سائیڈ پر کرنے کا اشارہ کر رہا ہے۔ یا کسی تنگ جگہ پر ایمبولنس کو گزرنے کی جگہ دینے کے لئے گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھا دینی ہے؟ یا سڑک پر تیل کا ٹینکر الٹ گیا ہے اور آپ نے ہر قیمت پر نکلنا ہے۔
ٹریفک کے قوانین ایسی کسی بھی چیز کے بارے میں نہیں بتاتے لیکن اگر ہمیں ایسی خودکار گاڑی کی خواہش ہے جو تمام فیصلے خود لے سکے تو پھر اسے ہر قسم کے معاملے سے نپٹنا ہو گا۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ حل نہیں ہو سکتے۔ مشین کو کسی بھی سطح کی ذہانت دی جا سکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کتنا وقت لگے گا۔
بدقسمتی سے اس کا جواب یہ ہے کہ جلد نہیں۔ جن خودکار گاڑیوں کی ہم توقع رکھتے ہیں، وہ شاید ابھی بہت بہت دور ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیونکہ سائنس فکشن کی طرز کی خودکار گاڑیوں میں مسائل کی ایک اور تہہ ہے۔ اور یہ ٹیکنالوجی کا مسئلہ نہیں۔ یہ لوگوں کا مسئلہ ہے۔
جیک سٹلگو ایک سوشیولوجسٹ ہیں جو کہتے ہیں کہ “لوگ شرارتی ہوتے ہیں۔ یہ منظر کا پرامن اور غیرفعال حصہ نہیں، فعال ایجنٹ ہیں”۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply