• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی براہ راست کارروائی نشر

تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی براہ راست کارروائی نشر

ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کی جارہی ہے اور عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف اپیلوں پر فل کورٹ بنانے کی درخواستیں منظور کر لیں۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 15 ججز پر مشتمل فل کورٹ سماعت کررہاہے۔فل کورٹ کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کررہے ہیں جبکہ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شاہد وحید فل کورٹ کا حصہ ہیں۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے 13 اپریل کو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو معطل کیا تھا۔ عدالت نے اس ایکٹ کو عدلیہ کی آزادی میں مداخلت قرار دیا تھا۔

وفاقی حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں جواب جمع کرا دیا:

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس انڈ پروسیجرایکٹ کیخلاف درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کردی۔

وفاقی حکومت نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے قانون کیخلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں خارج کی جائیں۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 191 کے نیچے قانون سازی کر سکتی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روکتا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت کوئی اختیار سپریم کورٹ کا واپس نہیں کیا گیا۔میرٹ پر بھی پارلیمنٹ قانون کیخلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں۔

سماعت کے آغاز پر خواجہ طارق رحیم نے چیف جسٹس کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تاخیر کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ ہم فل کورٹ اجلاس میں تھے۔ پائیلٹ پراجیکٹ کے طور پر کیس کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کیس میں 9 درخواست گزار تھے۔ نام بتائیں کس کس نے دلائل دینے ہیں۔ عدالتی کارروائی سرکاری ٹیلی وژن میں براہ راست نشر کرنے کی اجازت دی ہے۔

چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے میں کوئی خلل پیدا نہ ہو۔ اس کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔

پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ بننے کی درخواست منظور کرلی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اس درخواست پر فل کورٹ بنا دیا ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگوں نے کیس پہلے سنا کچھ نے نہیں سنا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوال تھا کیا جنہوں نے پہلے کیس سنا وہ بینچ کا حصہ ہوں گے یا نہیں؟ پھر سوال تھا کہ کیا سینئر ججز ہی بینچ کا حصہ ہوں گے؟ ہمیں مناسب یہی لگا کے فل کورٹ بنایا جائے۔

وکیل درخواست گزار خواجہ طارق رحیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولز بنارکھے تھے۔ پارلمینٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب جو کچھ ماضی میں ہوتا رہا آپ اس کو سپورٹ کرتے ہیں؟ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب اپنے کسی معاون کو کہیں کہ سوالات نوٹ کریں۔ آپ کو فوری طور پر جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ اپنے دلائل کے آخر میں سب سوالات کے جواب دے دیں۔ آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں؟

خواجہ طارق رحیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار آئین سے مشروط ہے۔ رولز بنانے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا۔

ایران میں دھماکہ، 2 افراد زخمی
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین کے ساتھ قانون کا بھی کہا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب آپ سوال نوٹ کرتے جائیں۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ کیا کہ رہے ہیں یہ قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا۔ آئین اور قانون دونوں کا لگ گیا اس پر آپ کی کیا تشریح ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ جو باتیں کر رہے اس پر الگ درخواست لے آئیں ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بنچ کی تشکیل سے متلعق کمیٹی بنانے کا قانون کیا جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی پاور؟ کیا پارلیمان انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بناسکتی ہے؟ کیا پارلیمان نئے انتظامی اختیارات دیکر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور کو پس پشت ڈال سکتی ہے؟

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب کیا آپ کو قبول ہے کہ ایک بندہ بنچ بنائے؟ پارلیمان نے اسی چیز کو ایڈریس کرنے کی کوشش کی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے موکل کی کوئی ذاتی دلچسپی تھی یا عوامی مفاد میں درخواست لائے ہیں؟

خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ یہ درخواست عوامی مفاد میں لائی گئی ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس پر مطمئن ہیں کہ بنچ کی تشکیل کا اکیلا اختیار چیف جسٹس کا ہو۔ آپ اس پر مطمئن نہیں کہ چیف جسٹس دو سنئیر ججز کی مشاورت سے فیصلہ کریں۔

چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب میں آپ کی زندگی آسان بنانا چاہتا ہوں آپ نہیں چاہتے۔ کہا ہے آپ صرف سوال نوٹ کریں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا اس قانون سے چیف جسٹس کو بے اخیتار سا نہیں کردیا گیا۔

خواجہ طارق رحیم کے جواب دینے پر چیف جسٹس نے پھر ٹوک دیا:

چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ آپ پھر جواب دینے لگ گئے ہیں۔ میں نے صرف کہا کہ ابھی صرف نوٹ کریں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا صرف قانون بنانے سے سپریم کورٹ کا اختیار متاثر ہوا یا چیف جسٹس کا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب میں یہی سمجھا کہ آپ مطمئن ہی پرانے ماڈل سے ہیں۔ آپ مطمئن ہیں کہ چیف جسٹس اکیلے ہی روسٹرم کے ماسٹر ہوں؟

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب کیا اس طرح کے اختیارات پر سادہ قانون کی بجائے آئینی ترامیم نہیں ہونی چاہئیں؟ جسٹس منصور شاہ نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب ایک سادہ سا سوال میرا بھی ہے۔ یہی پریکٹس اینڈ پروسیجر بنالیں تو ٹھیک ہے۔ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہی کام پارلیمنٹ کرے تو وہ غلط ہے۔

یاد رہے کہ ایک دن قبل اتوار کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالتے ہی اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دیا تھا۔اتوار کو ہی ہدایات نامےمیں شامل تھا کہ سپریم کورٹ کا 15 رکنی فل کورٹ بینچ پیر کو کیس کی سماعت پورا دن کرے گا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات سے متعلق ہے جسے پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی لارجر بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع جاری کیا تھا۔

قبل ازیں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر پانچ سماعتیں ہوئی ہیں۔ 13 اپریل کو پہلی سماعت میں ہی قانون پر حکم امتناع جاری ہوا تھا جب کہ دو اور آٹھ مئی اور پھر یکم اور آٹھ جون کو بھی کیس سماعت ہوئی۔

اس قانون کے تحت ازخود نوٹس لینے اور کسی بھی بینچ کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس سے لے کر سپریم کورٹ کے تین سینئر ججز پر مشتمل کمیٹی کو دیا تھا۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت ازخود نوٹس کے فیصلے سے متاثر ہونے والا فریق ایک ماہ میں اپیل کا حق دیا گیا ہے جب کہ متاثرہ فریق کو وکیل تبدیل کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔

مقامی میڈیا کے مطابق ایکٹ میں ون ٹائم پروژن کے تحت سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے علاوہ جہانگیر ترین کو اپیل کا حق مل گیا تھا۔ ازخود نوٹس کے مقدمات میں ماضی کے فیصلوں پر بھی اپیل کا حق دیا گیا ہے۔

جون میں سپریم کورٹ نے شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے فیصلے پر حکمِ امتناع کی درخواست پر سماعت کے کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک ہر بینچ غیر قانونی ہے۔ وہ اس بینچ سے الگ ہو رہے ہیں۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ہے کیا؟

پاکستان کی پارلیمان نے اپریل 2023 میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی منظوری دی تھی۔

بل کے مطابق سینئر ترین تین ججوں کی کمیٹی از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کرے گی۔ یہ کمیٹی چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ہو گی۔

ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی آئینی تشریح کے لیے کمیٹی پانچ رُکنی بینچ تشکیل دے گی۔

آرٹیکل 184 کے تحت کوئی بھی معاملہ پہلے ججوں کی کمیٹی کے سامنے آئے گا۔

بل کے تحت سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے خلاف اپیل کا حق بھی ہوگا۔ کسی بھی سوموٹو نوٹس پر 30 دن میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔

بل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سوموٹو کے خلاف اپیل کو دوہفتوں میں سنا جائے گا۔

ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ کا اطلاق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں پر ہوگا۔

عدالتی اصلاحات کے ترمیمی بل کے ذریعے چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار کو محدود کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں کے بعد اس پر عمل درآمد روک دیا تھا۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

چیف جسٹس کی زیرصدارت سپریم کورٹ کی فل کورٹ میٹنگ ختم:

قبل ازیں ذرائع کے مطابق چیف جسٹس کی زیرِ صدارت سپریم کورٹ کی فل کورٹ میٹنگ ختم ہوگئی ہے۔ فل کورٹ میٹنگ میں کیے گئے فیصلے کھلی عدالت میں سنائے جانے کا امکان ہے۔

اس حوالے سے پی ٹی وی کے چار کیمرے اوپر مہمانوں کی گیلری میں لگائے ہیں جبکہ ایک کیمرہ ڈائس پر لگایا گیا ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر لگائے کیمروں کی تعداد پانچ ہوگئی ہے۔

پی ٹی وی عملہ نے تصدیق کی ہے کہ ہمیں کارروائی براہ راست دکھانے کی اجازت دی گئی ہے۔

دوسری جانب سرکاری ٹی وی نے براہ راست عدالتی کارروائی دکھانے کیلئے انتظامات کرنا شروع کردیے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کچھ دیر بعد فل کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کرے گا۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply