امرتا پریتم اُن لکھاریوں میں سے ایک ہے جو کچھ حد تک اپنی ایک آدھ کتاب، ایک آدھ نظم اور بہت حد تک اپنے اندازِ زندگی کی وجہ سے پسند کی جانے لگیں۔ 1950ء کی دہائی میں سیمون دی بووا نے سارتر کے ساتھ آزادانہ تعلق میں زندگی گزاری، اور ادب کے ساتھ ساتھ نہایت اہم کتاب ’’دی سیکنڈ سیکس‘‘ بھی لکھی جو دو حصوں میں الگ الگ بھی شائع ہوئی۔
امرتا پریتم سیمون دی بووا جیسی تھوڑی سی بھی گہرائی پیدا کرنے کی بجائے جذباتی شعبدوں کے بل پر زندہ رہی۔ اُس کی کتاب لال دھاگے کا رشتہ میں وہ اپنی اصل حالت میں سامنے آتی ہیں: نہایت توہم پرست، بنیاد پرست اور قدامت پسند۔ وہ حقیقت اپنی ترجیحات کے مطابق زائل کرنے اور موڑنے کی خواہش مند خواتین کے لیے بھی مشعلِ راہ بنی۔
لیکن ہر کسی کو نہ سیمون دی بووا ملتی ہے، نہ ہی امروز۔ سیمون نے تو پھر بھی She Came to Stay لکھ کر سارتر پر کافی حد تک تنقید کر دی تھی۔ مگر یہاں اب بھی امروز اور امرتا کے تعلق کو مثالی بنا کر پیش کرنے والے کافی تعداد میں موجود ہیں۔
امرتا کے کریڈٹ پر کون سا بڑا ناول ہے جو خوشونت سنگھ کے دِلی یا ٹرین ٹو پاکستان جیسی وقعت رکھتا ہو؟ کونسی تحریر بلونت سنگھ، کرشن چندر، بیدی اور منٹو کے قریب پہنچتی ہے؟ وہ چیزوں کو ادھیڑنے اور مختلف ڈھنگ سے دکھانے کی بجائے موضوعیت کی دل دادہ ہے۔
سب سے بڑی بات کہ وہ بہت گہرائی میں ایک سکھ مذہبی خاتون ہے جس نے انسانیت کو بھی اِسی حلقے کے اندر رہ کر دیکھا۔ چنانچہ وہ تفہیم کی کاوش سے کترانے والوں کو بہت پسند آئی۔ مجھے وہ کبھی بھی اچھی یا متاثر کن لکھاری معلوم نہیں ہوئی۔ وہ آپ کو چیلنج نہیں کرتی، دلاسے دیتی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ایک شاعرہ ہے۔ اُس کے پاس اپنی تفہیم کو وسعت دینے کا بہت وقت اور موقع تھا، مگر اُس نے محض ایک توہم پرست شاعرہ رہنے کو ترجیح دی۔ اُس کی محبت کی تثلیث بھی ویسی ہی فرضی لگتی ہے جیسے سارا شگفتہ کے متعلق اُس کی کتاب۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں