تاریخ کے اوراق

جب کوئی چیز “لیک” کر رہی ہو تو سب کو نظر آتا ہے کیا چیز لیک ہو رہی ہے۔ ہمارے ملک میں بلکہ پوری دنیا کو معلوم ہے کیا لیک ہو رہا ہے ۔ ہمارے ملک میں جس کی چیز لیک کرتی ہے وہ مانتا ہی نہیں یہ میری ہے ۔ مثال دیتا ہے خوشبو اور بدبو کی کہ کیسے پتہ چلے کسی کی ہے اور کہاں سے آئی ہے ۔
فیصلہ کروانے کی غرض سے شہر کے قاضی کے پاس چلے گئے ۔
اب شہروں میں ہر طرح کےقاضی دستیاب ہیں جو دست ملاتے ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کس کے حق میں فیصلہ کرنا ہے۔
ثبوت کے نام پر وہ ثبوت مانگتے ہیں جو ثبوت آپ لانے سے قاصر ہوں ۔
وکیل صاحب دلائل دیتے ہوئے قاضی سے کہا قانون کی کتاب میں اسکا جواب صفحہ نمبرپچاس پر موجود ہے ۔
جب قاضی نے صفحہ نمبر پچاس کھولا تو وہاں سونے کی دس اشرفیاں موجود تھیں ۔
قاضی نے کہا مجھے ایسے دس ثبوت اور چاہئیے تب میں فیصلہ تمھارے حق میں کر دوں گا ۔
جن کی خبریں لیک ہوتی ہیں وہ جانتے ہیں تمام لوگ جو آج موجود ہیں سو سال بعد ان میں سے کوئی نہیں ہو گا ۔
مورخ کی مدد حاصل کرتے ہیں اور چند اشرفیوں کے عوض جو چاہے لکھوا لیتے ہیں ۔ پہلے زمانے کے مورخ تاریخ لکھنے کے پیسے لیتے تھے۔ آج جو انکو پیسے نہیں دیتے ہیں انکے خلاف لکھ دیتے ہیں۔ چالاک مورخ تاریخ کے اوراق میں چند صفحات خالی چھوڑ دیتے ہیں تا کہ وقت ضرورت پچھلی تاریخ میں تاریخ کا اضافہ ممکن ہوسکے۔
شہر کا قاضی ریٹائرڈ ہو گیا اسکی گزر بسر کے لیے پیسے ناکافی تھے اور کیوں نہ ہوتے جب پائوں بڑے ہو جائیں تو چادر چھوٹی ہو جاتی ہے اسی طرح جب منہ بڑا ہو جائے تو پیٹ ہر وقت خالی لگتا ہے ۔
مورخ نے تاریخ کے اوراق میں لکھا گاؤں میں ایک قبر موجود ہے ۔
صاحب قبر جب زندہ تھے تو انکے آستانے سے کبھی کوئی مجرم خالی ہاتھ نہیں لوٹا ۔ آج ایک مزار قائم ہے لوگوں کا ہجوم ہر وقت رہتا ہے ۔ ساری آمدنی قاضی کے حصے میں آتی ہے۔
صرف مورخ اور قاضی جانتے ہیں یہ اسی بادشاہ کی قبر ہے جس کی لیک ہونے والی خبر کو چند اشرفیوں کے عوض ثبوت مانگ مانگ کر اور تاریخ پر تاریخ دے کر تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا تھا ۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply