اٹکل پچو/رقیہ اکبر چوہدری

ہماری سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ ہم کوئی بھی کام پلاننگ، منصوبہ بندی سے نہیں کرتے بلکہ سب کچھ اٹکل پچو پہ چلتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے اچھے اور کارآمد منصوبوں سے بھی مطلوبہ نتائج حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں۔

قائد اعظم کا قول عظیم، تنظیم، ڈسپلن، ہماری زندگیوں میں موجود نہیں ہوتا اور اگر کہیں”تنظیم سازی” ہوتی بھی ہے تو طلال چوہدری والی ہوتی ہے اسی لئے جوتے پڑتے ہیں مقدر میں ہمارے سروں پر۔

ایسا ہی ایک حکم نامہ لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے آیا جس میں سکول کے بچوں کو صفائی کی اہمیت سمجھانے کیلئے حکم دیا گیا کہ ان سے لاہور شہر کا “کچرا” صاف کروایا جائے۔ باقی کے حکم ناموں کی طرح یہ بھی بس یونہی بنا سوچے سمجھے کا جاری کیا گیا حکم نامہ ہے جس کے فوائد تو بہت کم ملیں گے مگر نقصانات کہیں زیادہ ہوں گے۔

اداروں کے سربراہان سیفٹی مژرز اور مناسب انتظامات کے نام پر سرکاری خزانے سے پیسہ وصول تو کریں گے جو کہ پہلے ہی اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہوگا مگر یہ زیرہ بھی انتظامات اور طلباء و طالبات پر خرچ کرنے کی بجائے چند مخصوص جیبوں میں جائے گا۔

دوسرا بڑا نقصان اس کا یہ ہوگا کہ صرف سرکاری سکولوں کے بچوں سے زبردستی یہ کام کروایا جائے گا جو پہلے ہی غریب طبقے کے بچے ہوتے ہیں ایلیٹ کلاس کے سکولوں پہ ایسے حکم نامے لاگو ہی نہیں ہوتے۔

یہاں بھی بس غریب کے بچے ہی ذلیل و خوار کئے جائیں گے اور لاہور کی کچرا کنڈی میں ان بچوں کو بھیج کر ان کی صحت کو خطرے میں ڈالا جائے گا مگر ظاہر ہے اس سے نا حکم دینے والے جج صاحب کو کچھ فرق پڑے گا نا ان کے حکم نامے پہ عمل درآمد کروانے والے محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران کو فرق پڑے گا کیونکہ ان کے بچے پہلے ہی سے سرکاری سکولوں میں نہیں پڑھتے۔

اگر مقصد بچوں کی تربیت ہے تو اس کے لیے یہ طریقہ ہرگز ہرگز مناسب نہیں۔

ہم اپنے بچپن کو یاد کریں تو سکولوں میں گراونڈز کی صفائی ہفتے میں ایک بار ہم طالبات کے ذمے ہوتی تھی مگر وہاں بھی یہ ذمہ داری سب سے پہلے بڑی کلاسز یعنی دسویں اور نویں جماعت کی بچیوں کی حوالے کی جاتی تھی جہاں ہمارے اساتذہ بھی اکثر ہماری معاونت کر رہی ہوتی تھیں ظاہر ہے مقصد یہی ہوتا تھا کہ چھوٹی بچیوں کیلئے رول ماڈل پیش کیا جائے کیونکہ بچے ہمیشہ وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے بڑوں کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں نا کہ وہ جو انہیں کہا جاتا ہے۔

دوسری بات یہ تھی کہ سکول کے گراؤنڈز میں کسی بھی شہر کی سڑکوں والا کچرا نہیں ہوتا تھا جسے صاف کرتے کسی کو بھی ہچکچاہٹ ہو۔ کاغذ، ریپر، کنکر یا پھر زیادہ سے زیادہ کچھ پھلوں کے چھلکے، خالی بوتلیں، جوسز کے ڈبے اور کبھی کبھار اپنے اپنے کلاس رومز کی کھڑکیوں دروازوں کی صفائی ستھرائی کا کام بھی ہم طالبات سے کروایا جاتا تھا۔

یہ بالکل تھا درست طریقہ تھا جسے دوبارہ سے سکولوں میں رائج کیا جانا چاہیے اس کام میں نا تو کچھ سرکاری سرمایہ خرچ ہوتا ہے ناوسائل کا غلط استعمال اور طلباء و طالبات کی تربیت بھی بخوبی ہو جاتی ہے گویا ایک پنتھ دو کاج۔۔ یا ایک تیر سے دو شکار والا معاملہ بن جاتا تھا۔

اس سرگرمی کی سکولوں میں اشد ضرورت ہے تاکہ ہمارے یہی بچے جب گھر یا گھر سے باہر عوامی پارکوں، مالز یا سڑک پر نکلیں تو کوڑا کرکٹ نہ پھیلانے کی عادت بن سکے ان کی۔ انہیں پتہ ہوگا کہ صفائی ستھرائی کی کیا اہمیت ہے اور وہ اپنے پھیلائے گئے کوڑے کو سمیٹنے میں ہرگز متامل نہیں ہوں گے۔

انہیں صفائی کی تربیت دینے کیلئے سکولوں کے قریب پارکوں میں بھی لے جایا جا سکتا ہے وہاں بھی ریپرز، کاغذ، خالی بوتلیں، جوسز کے خالی ڈبے، ٹشو پیپرز یا پھر پھلوں کے چھلکے پڑے ہوتے ہیں جن کی صفائی کرتے ہوئے بچوں کو مشکل پیش نہیں آئے گی نا ہی ان کی عزت نفس مجروح ہوگی۔ لیکن یہ فیصلہ کہ انہیں لاہور شہر کی سڑکوں پر نکال کر دنیا جہان کا کوڑا اٹھوایا جائے جلد بازی اور گراؤنڈ رئیلٹیز سمجھے بنا کا ایک احمقانہ فیصلہ ہے۔

اگر ہم اس معاملے میں یورپ کی مثالیں دینا چاہیں تو ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ وہاں کی سڑکیں بھی ہمارے سرکاری اداروں سے زیادہ صاف ہوتی ہیں اور وہاں اس کام کی ابتداء ان ممالک کے سربراہان خود عملی نمونہ پیش کرکے کرتے ہیں لہذا ان کی تقلید کرنی ہے تو اول اول یہ کام خود ججز صاحبان کرکے دکھائیں، سربراہان حکومت و ادارے پہل کریں، سیکرٹری صاحبان، وزراء سڑکوں پر آئیں اور فقط فوٹو شوٹ نا کروائیں جہاں ان کیلئے بازار سے نئے نویلے جھاڑو خرید کر لائے جائیں اور وہ محض تصویر بنوانے کیلئے جھاڑو ہاتھ میں پکڑ لیں یا پہلے ہی خصوصی طور پر صاف کروائی گئی سڑک پر خود ہی پھینکے گئے دو چار کینڈیز، بسکٹس کے ریپرز ہی نا اٹھوائے جائیں بلکہ سچ مچ وہ کچرا اٹھائیں۔

پھر یہی کام یونیورسٹی اور کالجز کے طلباء و طالبات سے بنا تفریق کروایا جائے تب آپ سکولوں کے معصوم بچوں سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ آؤ اور اس کارخیر میں”بڑوں” کی معاونت کرو۔

آپ کا معاملہ تو یہ ہے کہ صاحب بہادروں کیلئے “قبرستان” تک میں بھی ریڈ کارپٹ بچھائے جاتے ہیں تاکہ اشرافیہ کے “جوتے شریف” بھی خاکِ قبرستان سے آلودہ نہ ہونے پائیں اور سکولوں کے تعلیم حاصل کرتے ہوئے معصوم، غریب بچوں کیلئے حکم ہے کہ شہر کا “کچرا” اٹھائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply