حدیث اور سنت کا فرق(حصّہ اوّل)۔۔ڈاکٹر طفیل ہاشمی

(نوٹ :فیس بک پر حدیث، سنت، کتب احادیث اور ان کی استنادی حیثیت پر گفتگو دیکھ کر سوچا کہ اس موضوع پر اپنا حاصل مطالعہ پیش کیا جائے۔ شاید پوری بحث کئی اقساط پر چلے۔ اہل علم سے درخواست ہے کہ اغلاط و أخطاء سے آگاہ کریں تاکہ ساتھ ساتھ تصحیح ہو سکے)
حدیث :ہر وہ بات، عمل اور تصویب جو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسوب ہو نیز آپ کی ہر بدنی اور اخلاقی صفت کا بیان حدیث ہے خواہ وہ قبل از نبوت سے متعلق ہو یا بعد از نبوت سے۔
سنت :ہر وہ متواتر عمل جو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہو اور بعد میں صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے ادوار میں رائج رہا ہو، خواہ لفظاً متواتر نہ ہو۔ حدیث کی دو قسمیں ہیں
تشریعی
غیر تشریعی
تشریعی سے مراد وہ امور ہیں جنہیں رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن کی تبیین و تفسیر کے طور پر بیان فرمایا ہو یا سماج میں رائج کر دیا ہو۔ یا وہ ایسا حکم ہو جس کے بارے میں قرآن خاموش ہو اور آپ نے اسے ایک حکم شرعی کے طور پر رائج کر دیا ہو جیسے موزوں پر مسح کرنا۔

سنت کبھی قرآن کا بیان و تشریح ہوتی ہے اور کبھی قرآن کے حکم سے زائد حکم تاہم ہر صورت میں قرآن کو اولین حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اگر سنت قرآن کا بیان ہو تو اصل حکم قرآن سے ثابت ہوتا ہے تاہم سنت کے ذریعے عام کی تخصيص، مطلق کی تقیید، ظاہر کی تاویل اور استثناء کی تعمیم ہوتی ہے نیز مصطلحات مثلا صلاۃ، زکاۃ، صوم، حج وغیرہ کے مفاہیم کا تعین بھی سنت سے ہوتا ہے۔ اگر سنت سے ثابت ہونے والا حکم قرآن سے زائد ہو تو ضروری ہے کہ قرآن اس ضمن میں خاموش ہو۔ بہر طور اولین حیثیت قرآن کو حاصل ہے۔

غیر تشریعی روایات سے وہ روایات مراد ہیں جو کوئی حکم شرعی نہیں بتاتیں مثلا جو کام آپ نے بطور عادت کئے یا بشری تقاضے یا سماجی حالات کے تحت کئے مثلا آپ کا مخصوص لباس، کھانوں میں پسند نا پسند، جنگی ساز و سامان، سواریاں، کسی کو گورنر، عامل یا قاضی بنانا کسی میدان جنگ کا انتخاب اور اس نوعیت کی ہزار ہا چیزیں ہیں جن کا بیان آپ کو کتب حدیث میں ملے گا، یہ امور احادیث ہیں لیکن سنت نہیں۔

سنت کی حفاظت
رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں تک صرف قران ہی نہیں پہنچایا بلکہ آپ نے ایک زندہ سماج کی تشکیل بھی فرمائی  جو اپنی اساس میں قرآنی سماج تھا البتہ اس کے لیے قالب عرب تمدن سےمستعار لیا گیا۔ آپ نے صرف زبانی تعلیمات ہی نہیں دیں بلکہ ایک ایسی جماعت تیار کر دی جس کی دانش و بصیرت، صداقت و دیانت، حب رسول اور تعلق مع النبی کو ماپنے کے لیے ہنوز تاریخ نے پیمانے وضع نہیں کئے۔

آپ نے اور آپ کے بعد آپ کی تیار کردہ قیادت نے پوری انسانی تہذیب کو ان فکری، علمی اور سماجی روایات سے روشناس کروایا جس کی کوئی مثال ما قبل اور مابعد کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
یہ جماعت اس فرق سے بخوبی آگاہ تھی کہ کون سا پہلو تشریعی ہے اور کون سی ادا غیر تشریعی۔ انہوں نے کبھی تمدن اور تدین کو خلط ملط نہیں ہونے دیا،نتیجتاً انہوں نے بہت جلد ایسے افراد اور ادارے تیار کر دیئے جنہوں نے تشریعی روایات یعنی سنن نبوی کو اس طرح کی حفاظت، صیانت، ثبوت اور دلالت فراہم کر دی جس طرح کی کتاب اللہ کو حاصل تھی۔

اس تناظر میں یہ عین ممکن تھا کہ کوئی حکم الفاظ کے اعتبار سے خبر واحد ہو مگر عملا اسے تداول و تواتر کی حیثیت حاصل ہو مثلا تیامن(یعنی دائیں پہلو کوترجیح دینا جیسے پہلے دایاں ہاتھ اور پاؤں دھونا، مسجد میں پہلے دایاں پاؤں اندر رکھنا، لباس پہننے میں دائیں جانب کو ترجیح دینا وغیرہ)

چونکہ تشریعی روایات قرآن کی تبیین اور سماج کی تشکیل میں اساسی حیثیت رکھتی تھیں اس لیے کبھی اور کسی دور میں ان سے بے اعتنائی نہیں برتی گئی۔ خلافت راشدہ میں تشریعی روایات کی جستجو اور ان کے مطابق زندگی کی تشکیل اور اہل علم کی تربیت، عمال، قضاۃ اور معلمین کا تقرر ایک معمول کی بات تھی۔
یہی وہ روایات ہیں جن میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کبھی کسی دور میں بھی ان میں سے کوئی بات امت کی نگاہوں سے اوجھل ہوئ ہو__یہی وہ روایات ہیں جو ائمہ مجتھد ین کے مکاتب فقہ کی بنیاد ہیں۔

عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ جمع و تدوین حدیث کا مرتب کام تیسری صدی ہجری میں ہوا جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ تشریعی روایات مکمل طور پر چھان پھٹک کر فقہاء صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین نے پہلے سے نہ صرف محفوظ کر لی تھیں بلکہ ان پر سماج کی بنیاد رکھ دی تھی اور تشریعی روایات کی جمع و تدوین کا کام صحاح ستہ سےتقریبا ڈیڑھ دو صدیاں پہلے ہوچکا تھا۔

گاہے ہم دیکھتے ہیں کہ صحاح ستہ کی کسی مستند کتاب کی کسی روایت کی بنیاد پر کسی فقہی مذہب کے ایسے مستدل پر اعتراض کیا جاتا ہے جو ان کتب میں نہیں ہوتا، کہا جاتا ہے کہ آپ کے فقہی مذہب کا مستدل ضعیف روایت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس نوع کا اعتراض کم علمی کا شاخسانہ ہوتا ہے،کیونکہ اولا یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ جس سند کی بنا پر آج ہم ایک حدیث کو ضعیف کہہ رہے ہیں امام مجتہد کے پاس بھی یہی سند تھی، اگر یہی تھی تب بھی اس میں ضعف بعد کے دور میں آیا ہوگا کیونکہ امام مجتہد کو اگر اس حدیث کی صحت میں کوئی شک ہوتا تو وہ اس پر اپنے مذہب کی بنیاد کبھی نہ رکھتے۔ نیز تیسری اور چوتھی صدی ہجری کی سند کی بنا پر پہلی اور دوسری صدی ہجری میں موجود کسی ایسی حدیث پر اعتراض کرنا جسے امام مجتہد نے دلیل بنایا ہے سراسر کج فہمی ہے کیونکہ متأخر کتب اور اسناد کی بنا پر خیرالقرون کے مستدلات کو بے اعتبار قرار دینے سے سارے دین پر سے اعتبار ختم ہو جاتا ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دین اسلام اور شریعت مصطفوی کا بنیادی ماخذ قرآن حکیم ہے۔ اگرچہ قرآن کے احکام کی تبیین اور ابلاغ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذمہ داری اور فریضہ نبوت تھا لیکن قرآن میں اللہ نے جس طرح حفاظت اور جمع قرآن کو اپنی ذمہ داری بتایا اسی طرح قرآن کے بیان، تفسیر اور تشریح کو بھی اپنی ذمہ داری قرار دیا۔۔۔۔۔ ثم إن علینا بیانہ (القیامۃ :19)۔۔۔قرآن کا بیان بھی ہماری ذمہ داری ہے اور قرآن کا بیان سنت ہے، اس ذمہ داری کا تقاضا ہے قرآن کی طرح اس کا بیان بھی متواتر ہو ورنہ حفاظت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔

قرآن کلیات اور اصول پر مشتمل ہے،جس میں عملی جہات( practical aspects )کی تفصیلات بیان کرنا ممکن تھیں نہ جزئیات کا استقصاء۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بطور “اسوہ حسنہ” مبعوث کیا گیا۔ آپ نے شریعت کے تمام احکام عام اجتماعات میں زبانی اور عملی طور پر بیان فرمادیے۔ اس لئیے یہ کہنا درست ہے کہ شریعت مصطفوی کا تمام اساسی مواد متواتر ہے – – لیکن یہ تواتر معنوی ہے۔ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین اہل زبان تھے، انہیں الفاظ یاد کرنے کی چنداں حاجت نہیں تھی اس لیے آپ سے جو کچھ سنتے اور دیکھتے اسے اپنے الفاظ میں بیان کر دیتے اور اس کے مطابق عمل کرتے۔ محدثین کے ہاں تواتر سے تواتر لفظی مراد ہے جو ذخیرہ احادیث میں تقریباً عنقا ہوگیا ورنہ امر واقعہ یہ ہے کہ سارا دین اور مکمل شریعت ہم تک تواتر سے پہنچی ہے اور یہ تواتر معنوی ہے۔

البتہ سنت کا ثبوت جہاں تواتر معنوی اور ابلاغ عام سے ہوتا ہے وہیں احادیث بھی سنت کے ثبوت کے لیے اساس بن سکتی ہیں۔ تشریعی امور میں فقہی اختلافات کے جہاں دیگر اسباب ہیں وہاں اخبار آحاد کے ثبوت اور ان کے بارے میں معیارات کے اختلاف کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ جس مسئلہ میں کتاب اللہ اور سنت متواترہ سے رہنمائی نہ مل رہی ہو اس میں خبر واحد کی طرف رجوع ایک فطری امر ہے۔
اخبار آحاد سے سنت کے ثبوت کا مسئلہ عہد صحابہ سے ہی پیدا ہو گیا تھا۔ خبر واحد کی قبولیت کے بارے میں کتاب اللہ نے دو ضابطے بیان کئے ہیں

رپورٹر کی ثقاہت (الحجرات:6)
خبر کی صداقت (النور:16)

اگر ان میں سے کسی پہلو سے بھی خبر واحد معیار پر پوری نہ اترتی ہو تو اسے بلا توقف رد کر دیا جاتا تھا۔ صحابہ کرام خبر واحد کی صحت جانچنے کے لیے ان دونوں امور کو ملحوظ رکھتے تھے۔ ان کے ہاں جن امور میں کتاب اللہ یا سنت متواترہ سے رہنمائی موجود ہوتی وہاں خبر واحد کی تلاش نہیں کی جاتی تھی جہاں کوئی رہنمائی میسر نہ ہوتی تو وہاں اجتہاد اور قیاس سے قبل خبر واحد تلاش کی جاتی تاہم انہوں نے کوئی ایسا Method ڈیزائن نہیں کیا تھا جس میں ہر روایت کو ڈال کر پرکھا جاتا بلکہ کبھی کسی مجتہد اور طویل الملازمہ صحابی سے پوچھ لیا جاتا، کبھی گواہی طلب کر لی جاتی اور کبھی قسم لی جاتی تاہم یہ امر طے تھا کہ جب کوئی روایت کتاب اللہ یا سنت متواترہ کے خلاف ہوتی تو اسے رد کر دیا جاتا۔

صحابہ کرام کا یہی طریق کار بعد میں باقاعدہ اخبار آحاد کو جانچنے کا معیار بنایا گیا اور یہ طے ہوا کہ کسی بھی روایت کے دونوں حصوں میں سے سلسلہ سند کو اصول روایت اور متن کو اصول درایت پر پرکھا جائے گا اور اگر خبر واحد دونوں معیارات پر پوری اترے تو اسے قبول کر لیا جائے گا مگر اس سے صرف علم ظنی حاصل ہوگا علم قطعی نہیں اس لئے یہ کتاب اللہ اور سنت متواترہ کو Replace نہیں کر سکے گا۔

اسلامی سماج کی تشکیل کی تحریک اس قدر پرزور، متحرک اور ہمہ گیر تھی کہ صحابہ کرام جہاں ایک دوسرے سے بے تکلف روایات لے کر انہیں آگے روایت کر دیتے تھے وہیں جب کوئی روایت کتاب و سنت سے ہم اھنگ نہ پاتے تو اسے رد کر دیتے۔ اگرچہ اس دور میں احادیث کے رپورٹر صرف صحابہ کرام تھے پھر بھی کئی ایک احادیث کی authenticity چیلنج کی گئی جس پر ہم ان شاء اللہ نسبتاً تفصیل سے بات کریں گے تاہم اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ ان میں سے کسی پر دروغ گوئ کا الزام لگایا جاتا بلکہ اولا یہ بات سب جانتے تھے ہر شخص نے ہر روایت خود رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نہیں سنی ہوتی تھی بلکہ ایک دوسرے سے معلوم کر کے اسے روایت کرتے تھے۔ ان حالات میں احتیاط کی ضرورت تھی کیونکہ اسی معاشرے میں منافقین بھی رہتے تھے جو باقاعدگی سے تمام اسلامی امور میں شریک ہوتے نیز ہر فرد کے فہم روایت کا معیار مختلف تھا اور حافظے یکساں نہیں تھے سماجی پس منظر بھی اثر انداز ہوتا تھا، اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی تھا کہ دین کی کوئی بھی بات کسی سے بھی لیتے ہوئے اس کی مکمل تصدیق کر لی جائے، تاہم چند فقہاء صحابہ کرام اس درجے کے تھے کہ ان کے بیانات کی تصدیق کی ضرورت نہیں محسوس کی جاتی تھی بلکہ ان کی طرف مراجعت کی جاتی جن میں خلفاء راشدین، عبداللہ بن مسعود اور سیدہ عائشہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سب سے نمایاں تھے۔

صحابہ کرام کے بارے میں یہ اصول کہ – الصحابۃ کلھم عدول_کا یہ مطلب نہیں کہ صحابہ کرام معصوم تھے۔بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہان کی باہمی خانہ جنگیوں اور ایک دوسرے سے اختلافات کے باوجود وہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف کوئی جھوٹ منسوب نہیں کرتے تھے، یہی بات حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہی کہ کنا لا نتھم بعضنا بعضا الکذب۔ پس عدل سے مراد شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی تصریح کے مطابق “عدالت فی روایۃ الحدیث” ہے۔

أخبار آحاد میں باہمی اختلافات
اخبار احاد کو روایت و درایت کے اصول پر پرکھنے کے باوجود ایسا ممکن نہیں تھا ان میں کوئی مکینیکل یکسانی پیدا کی جا سکتی کیونکہ ان کا تعلق ایک زندہ سماج کے مختلف افراد کے متنوع حالات سے تھا، ان کے پس منظر مختلف تھے، ان کے مسائل گوناگوں تھے، ان کے نفسیاتی، روحانی، جذباتی اور سماجی حالات یکساں نہیں تھے اس لیے ضرورت تھی کہ مختلف لوگوں کو ایک ہی طرح کی صورت حال سے نکلنے کے لیے الگ الگ حل دیے جاتے۔ احادیث میں اسی قسم کا تنوع تھا، مثلاً
کئی لوگوں نے آپ سے سوال کیا :
کون سا عمل سب سے افضل ہے؟
آپ نے ہر ایک کو الگ الگ جواب دیا
کسی سے فرمایا :ایمان باللہ پھر جہاد فی سبیل اللہ پھر حج مبرور
کسی کو بتایا، بروقت نماز پھر والدین سے حسن سلوک
کسی کو بتایا، روزوں کی کثرت
کسی کو ذکر اللہ، دوسرے کو دعا، تیسرے کو حسن خلق، چوتھے کو طویل خامشی، پانچویں کو دوسروں کو اپنی اذیت سے محفوظ رکھنا، چھٹے کو لوگوں کو کھانا کھلانا، ساتویں کو تعلیم قرآن، آٹھویں کو صبر اور نویں کو خوش حالی کا انتظار کرنے کی تلقین کی گئی۔

یہ تمام روایات روایتا ًاور درایتاً درست ہیں لیکن ان میں اختلاف سائلین کے حالات اور پس منظر کی وجہ سے ہے۔
غزوہ تبوک میں آپ نے صدیق اکبر سے ان کا سارا مال اور عمر فاروق سے ان کا نصف مال قبول فرما لیا لیکن دوسری طرف ایک شخص ایک انڈے کے برابر سونے کی ڈلی لے کر آیا تو آپ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا

یاد رہے کہ ان اختلافات کا تعلق حالات اور افراد کے اختلاف سے ہے جسے اختلاف تنوع کہتے ہیں۔
ہماری ابھی تک کی بحث تشریعی روایات سے متعلق ہے

وضع حدیث کا سیلاب
فقہاء صحابہ کرام حدیث اور سنت کے فرق پر مکمل نگاہ رکھتے تھے۔ بے شمار ایسے واقعات ہیں جہاں انہوں نے کسی حدیث کو خلاف سنت ہونے کے باعث رد کر دیا یا اس کا محمل بتایا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی خاص موقع یا کسی فرد کے لیے رخصت، مخلص یا بیان جواز کے لیے کوئی بات کی تھی یا فہم راوی کا قصور تھا جسے سنت کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے(اگر کوئی سکالر چاہے تو ایسی احادیث کا ایک مجموعہ تیار کر سکتا ہے جنہیں سنت متداولہ کے مطابق نہ ہونے کے باعث صحابہ کرام نے قبول نہیں کیا) ۔

صحابہ کرام کے بعد دور تابعین میں مدینہ منورہ میں فقہاء سبعہ کی ایک کونسل تشکیل دی گئی جو جدید پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے کتاب اللہ اور سنت متداولہ کی روشنی میں فیصلے کرتی تھی۔ اس عنوان سے سنت ثابتہ کا اولین مجموعہ جو حدیث و سنت کے درمیان واضح خط امتیاز کھینچتا ہے امام مالک کی معروف کتاب الموطأ ہے۔
فقہاء سبعہ کے طریق کار کے تتبع میں بعد میں کوفہ میں امام ابو حنیفہ نے مجلس تدوین فقہ کی تشکیل کی اور کتاب و سنت کی اساس پر مکمل فقہ مدون کر دی۔
لیکن  عام اہل علم کو حدیث اور سنت کے اس دقیق فرق کا نہ اس وقت ادراک تھا نہ اب تک ہو سکا،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حدیث کی اہمیت کے پیش نظر لوگ علم حدیث کے حصول کے لیے ٹوٹ پڑے اور جمع احادیث کے شوق فراواں اور صحیح و سقیم کے عدم امتیاز کے باعث امت وضع حدیث کے طوفان بلا خیز کا شکار ہو گئی۔

ابتدائی عہد میں علم حدیث کے حامل بے پناہ عزت، شہرت، دولت اور لوگوں کی توجہ حاصل کر لیتے تھے، اس کے لیے لوگ سفر کرتے، مال خرچ کرتے نتیجتاً ہزارہا لوگ اس دوڑ میں شامل ہوگئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply