عمران خان کا بیانیہ ،بیانات اور اسٹیبلشمنٹ

عمران خان صاحب کے بیانیے اور بیانات پر نظر دوڑائیں تو متعصب ذہنیت کے علاوہ کوئی بھی مختلف الخیال نہیں ہو گا۔ انھوں نے چونکہ ہمیشہ ہی مذہبی کارڈ کھیلا ہے اس لیے مذہبی سوچ رکھنے والے ان سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکے۔ اپنی انتخابی کمپین میں جو ان کا نعرہ زبان زد عام تھا وہ پاکستان کو “مدینہ کی ریاست” بنانا تھا۔ سب نے یک زبان ہو کر اس مبارک کام کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے لبیک کہا۔

خیبر پختونخوا کے باسیوں نے انھیں حکومت دی تو جماعت اسلامی کا کاندھا استعمال کرنا بھی مجبوری تھی ، جماعت نے اصولی موقف اپناتے ہوئے مخالف کیمپس سے آئی پیشکشوں کو جھٹلا کر ریاست مدینہ کے نام لیوا کو کاندھا دینا اپنا فرض سمجھا حالانکہ باقی اپوزیشن جماعتوں سے ہاتھ ملا کر حکومت بنانا آسان اہداف میں سے ایک تھا۔ ایک صوبے کی گورنری یا حکومت ان کے چیلنجز پر پورا اترنے کے لیے ناکافی ٹھہری البتہ بلدیاتی و دیہی ترقی ، مذہبی اور خزانچے کی وزارتوں میں تبدیلی نظر آئی ، پشاور کو پھولوں کا شہر بنوانے کے لیے کام کیا گیا۔ اس کا کریڈٹ عمران خان صاحب نے خود جماعت اسلامی کو دیتے ہوئے اس کے وزراء کو تحریک انصاف کے وزراء کے لیے “مثالی” قرار دیا ،گویا تبدیلی و فلاح کی چابی کے متلاشیوں کو “منصورہ” کے دروازے کھٹکھٹانے کا درس دے رہے ہوں۔ اس حکومت نے بہت بہترین پانچ سالوں کو منطقی انجام تک پہنچایا اور جماعت اور تحریک انصاف کے نمائندوں نے پہلی دفعہ باہمی رضامندی سے علیحدگی اختیار کی۔ یہ بذات خود ایک تبدیلی تھی کیونکہ اس سے پہلے جھگڑے ہی حکومتی تحلیل کا سبب بنتے تھے۔

عمران خان صاحب کو وفاق میں حکومت تحفے میں ملی ، ڈھنڈورا پیٹا گیا ، “سیلیکٹڈ ، سیلیکٹڈ” کے طعنے مارے گئے تاہم حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتیں اپنے بنچوں پر براجمان ہو گئیں۔ حتی کہ فضل الرحمان صاحب جن کا ماننا ہے کہ انھیں جان بوجھ کر حکومتی بناؤ بگاڑ سے پرے رکھا گیا ہے ، نے بھی اپنے بارہ حکومتی نمائندوں کو ایوان میں جنگ لڑنے جبکہ خود کو ایوان سے باہر میدان عمل میں کوششوں کے لیے تیار کیا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے بھی اسٹیبلشمنٹ کو کوستے ہوئے عمران نیازی صاحب کو ان کا مہرہ قرار دیا۔ ان تمام جماعتوں نے اصولی موقف اپنانے کی بجائے “لگی لپٹی” سیاست کی ،حالانکہ سب کا مطالبہ ایک تھا لیکن یہ “ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا”۔

عمران خان صاحب کو یہ حکومت ملی اور اس سب کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کے عمل دخل کے ساتھ عمران خان کے بیانات اور بیانیہ تھا۔ ان کے ایک سو چھبیس دن کے دھرنوں میں ہزاروں تقاریر اٹھا کر دیکھ لیں ، آپ اختلاف نہیں کر سکیں گے۔ بھلا کون نہیں چاہتا کہ میٹرو پر تعلیم کو ترجیح دی جائے ، بھلا کس کو اعتراض ہے کہ لیپ ٹاپس کی جگہ تعلیم و صحت کو سستا اور معیاری بنایا جائے ، کون اختلاف کرنے کی جسارت کر سکتا ہے کہ معیشت کو چار چاند لگائے جائیں۔ کون نہیں چاہتا تھا کہ عافیہ گھر آ جائے اور آسیہ سے پوچھ گچھ کی جاتی۔ کس کو مسئلہ درپیش ہے کہ مدینہ کی ریاست قائم ہو جائے۔

اس سب کی توقعات ہم پچھلے حکمرانوں سے اس لیے نہیں باندھ سکتے کیونکہ انھوں نے کبھی بھی شہد و دودھ کی ندیاں بہانے کے خواب عوام کو نہیں دکھائے۔ ہاں ن لیگ کے دور میں لیپ ٹاپ سکیم تھی ، مانا ترجیحات نہیں تھیں لیکن طالب علم کی ضرورت تھی وہ پوری ہوئی۔ عمران خان صاحب آئے تو سکھ کا سانس لیا کہ نئی نسل تعلیم کے حصول میں فیسوں کی وجہ سے رکاوٹیں نہیں کھڑی پائے گی لیکن فیسیں آسمانوں سے باتیں کرنے لگ گئیں ، تنخواہوں میں معمولی جبکہ بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں بے حد اضافہ دیکھنے کو ملا۔ جنگلہ بس آج بھی بھاگ رہی ہے لیکن آپ نے نا صرف بی آر ٹی کو جنگلہ بس بنا دیا بلکہ باعزت میٹرو سفر کا کرایہ بھی بڑھا دیا۔ صحت کے معاملات سامنے ہیں ، حکومت ہاتھ لگتے ہی فری ادویات کو مہنگا ترین کر دیا۔ کینسر کے مریضوں نے سڑکوں پر دہائیاں دینا شروع کر دیں۔ معیشت آج بھی آئی ایم ایف کے تابع ہے ، کل والے رکوع میں تھے اور آپ سجدے میں گر گئے۔ انھوں نے بھی قرضے لیے لیکن آپ نے اسے خود کشی سے تعبیر کیا تھا ، مرحوم ہوتے تو عوام پر رحم کرتے۔ آپ نہ صرف آئی ایم ایف کے سربراہ کے سامنے جھکے بلکہ دیگر ممالک سے بھی بھیک مانگی۔ اسٹیٹ بینک کا گورنر آئی ایم ایف سے لگایا ، وزارت خزانہ حفیظ کی حفاظت میں دے دی۔

آپ کی سیاست “عافیہ کی واپسی” کے گرد گھوم رہی تھی ، آپ نے تو امریکہ میں ان سے متعلق سوال پر بھی صحافی کو جھاڑ پلادی۔ آپ نے “آسیہ” کے مخالف نکلے لوگوں سے تو اظہار یکجہتی کی لیکن جب موقع آیا تو “آسیہ” چلتی بنی ، حالانکہ جس کی وجہ سے جس جماعت کا گورنر مارا گیا وہ اپنے دور میں اس کے خلاف کارروائی سے گریزاں رہے۔ آپ تو ختم نبوت کے پہرہ دار تھے تو بتائیں کہ عبدالشکور قادیانی جس کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں تھا ، ٹرمپ تک کیسے پہنچا ، آپ کا مشیر ملک سے نکلتے کیسے کہہ اٹھا کہ “الحمدللہ میں قادیانی ہوں”۔ آپ کو کابینہ میں مشیر شامل کرنے کی جرات کیسے ہوئی۔

آپ کو نہیں معلوم کہ مدینہ کی ریاست میں یہودیوں سے معاہدے ہوئے لیکن انھوں نے لاج نہ رکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے در بدر کیا اور خیبر پہنچا دیا۔ بعد ازیں خیبر کے قلعے بھی فتح کر لیے۔ آپ نہیں جانتے کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ “یہود و نصارٰی کو دوست مت بناؤ ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں”۔ پھر مدینہ کی ریاست میں ایسا کیوں ہوا کہ پہلی دفعہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے میڈیا کی نکیل نکال کر ذہن تیار کیا جارہا ہے ، اور کچھ تو حامی بھی بھر چکے۔ ایسا کیوں ہونے لگا کہ یہاں سے شہری اسرائیل پہنچ رہے ، معلوم پڑتا ہے کہ سفارتی تعلقات کو بحال کیا جا رہا ہے۔ پہلی دفعہ وہ پارلیمنٹ جس کی تقدیس ہے کیونکہ قادیانیت پر اسی ایوان نے وار کیے ، میں تحریک انصاف کی پارلیمنٹیرین خاتون نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس سے متفق تھے ، اللّٰہ نے انھیں اسی لیے قبلہ بدلنے کا حکم دیا کیونکہ وہ قبلہ اول کو یہودیوں کی امانت کو انھیں کے سپرد کر رہے تھے۔

کیا آپ سیرت النبی نہیں جانتے ، کہاں ہے یونیورسٹی جو سیرتِ سرورِ کائنات پر تحقیق کرنے جارہی تھی۔ کیا آپ قرآن مجید نہیں پڑھتے ، نہیں معلوم کہ ارشاد ہے کہ “شرک بڑا گناہ ہے” اور “اللّٰہ سب گناہ معاف فرمائے گا سوائے شرک کے”۔ پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کے پیرنی کی پیروکاری میں کبھی قبروں کو سجدے تو کبھی “باب الجنت” کے تالے کھولتے آپ کو پایا جائے۔ آپ کو نہیں معلوم کہ مدینہ کہ ریاست اس آیت پہ کھڑی تھی جب ہم حکمرانی عطا کرتے ہیں تو مومنین نماز و زکوٰۃ کا نظام قائم کرتے ہیں ، برائی کی روک تھام اور معروف کی مشہوری کے لیے ادارے بناتے ہیں جہاں برائی کرنا مشکل اور اچھائی آسان ہوتی ہے۔ جہاں زانیوں پر کوڑے برسائے جائیں اور چوروں کے ہاتھ کاٹے جائیں۔ اگر ایسا نہیں کرنا تو مدینہ کی ریاست کا نام لے کر سیاست کیوں چمکائی ، جب چمکائی ہے تو خدارا ایک قدم خدا کی طرف تو بڑھائیں ، وہ بھاگتا آئے گا لیکن خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف چھیڑی گئی جنگ کی آگ میں پانی ڈالنے کی بجائے آپ تیل ڈال رہے ہیں۔ سود کو پہلے سے بھی زیادہ بڑھا کر خدا کی لعنت ملک و قوم کی تقدیر میں لکھ رہے ہیں۔

چونکہ ہمارے ہاں آزادی اظہار رائے کا فقدان ہے اور کسی کی رائے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر رد کرنا ہمارا وطیرہ ہے ، اس لیے اختلاف کرنا یا رکھنا آسان نہیں ہے۔ بندوق برداروں سے کریں تو غدار ، ملاؤں سے کریں تو خارج از اسلام اور ان سیاست دانوں سے کریں تو متعصب ذہنیت۔۔ بہرحال ہمارا ماننا ہے کہ چمن کی خوبصورتی گلہائے رنگارنگ سے ہے۔ چند ماہ قبل عمران خان صاحب نے اقوام متحدہ میں تقریر کی ، اسلام اور پاکستان کی خوب ترجمانی کی۔ بھارت اور آر ایس ایس کا مکروہ چہرہ اقوام عالم کے سامنے رکھا ، قوم نے شاباشی دی۔ بلکہ یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ ن لیگ کے کارکنان جو تحریک انصاف کے کارکنوں کے نزدیک شاید جاہلوں میں شمار ہوتے ہیں ، وہ بھی عمران خان کے بیان پر تالیاں بجاتے نظر آئے حالانکہ تحریک انصاف کے کارکنان میں یہ ظرف نہیں کہ نواز شریف کے اچھے اقدامات کی بھی تعریف کریں ، ان کا بس چلے تو ایٹمی دھماکے بھی واپس کروائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان اب عملی اقدامات کریں ورنہ یہ تجویز قابل قدر ہے کہ دو وزیر اعظم بنا لیں ، ایک تقریری اور دوسرا عملی۔ عمران خان صاحب آپ کی باتوں پر ہم کیسے یقین کریں جب آپ خود فرماتے ہیں کہ “میں یوٹرن لے کر وزیراعظم بنا ہوں” ، ہم کیسے مان لیں جب آپ کہتے ہیں کہ یوٹرن لیڈرز لیتے ہیں۔ کشمیر پر آپ کے یو ٹرن کو کیا سمجھا جائے۔ آپ آموں کی پیٹیاں اور ساڑھیوں کے تبادلوں پر ہمارے ساتھ کھڑے تنقید کرتے تھے اور غدار قرار دیتے تھے لیکن آپ کا یہ حال ہے کہ 58 کا دعویٰ کر کے 16 ممالک بھی قائل نہ کر سکے اور وہ مودی نے ایک عظیم جلسے میں جہاں اسے ٹرمپ کی بھی صحبت تھی کہا گیا کہ کشمیر کا معاملہ مودی خود دیکھ لیں گے ، ہم تو ریڈیکل اسلام سے دنیا کی آزادی اور امن کو مل کر بچائیں گے ، ہاں البتہ اقوام متحدہ میں کی گئی عمران خان صاحب کی تقریر کمال کی تھی۔ لیکن یہ مت بھولیں کہ نجاشی کو قائل کرنے کے لیے بھیجے گئے مشرکین کی بھی تقریر کمال کی تھی۔ ہم تو چاہتے ہیں آپ یوٹرن نہ لیں۔ ہم چاہتے ہیں “گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان” ہو۔۔۔! ہم یہ نہیں چاہتے کہ قرآن کا وہ درس نظر انداز کریں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ “لم تقولون ما لا تفعلون” کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ عمران خان صاحب تقریر آپ کی ہمیشہ سے کمال کے جوہر دکھاتی آئی ہے لیکن ہم ہر گز یہ نہ چاہیں گے کہ “گفتار کا غازی یہ تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply