بڑے عہدے پر بد نیت بندہ آخر کیوں؟-ٹیپو بغلانی

مجھے معاف شاف سکھاؤ مت
میرے پاس ظرف خدا نہیں
میرے پاس سیدھا جواب ہے
میں تیرا نہیں تُو  میرا نہیں

عالمی خبر رساں ادارے کی صحافی نے، پی ٹی آئی کے ترجمان سے، علی  امین کو سی ایم کے پی نامزد کرنے پر، ممکنہ منفی عوامی رائے کا حوالہ دیتے ہوئے، وجہ بتانے کی درخواست کی۔
یوسف اکبر نے جواب دیا کہ
” عمران خان کا سامنا ریاست کے تعلیم یافتہ اور مہذب طبقہ سے نہیں ہے کہ جماعت کسی پروفیسر کو عہدے پر تعینات کرے اس لیے علی امین کو نامزد کیا گیا”

“علی امین کی نامزدگی کی نفسیاتی دلیل”۔

ایڈووکیٹ میاں طارق صاحب یونیورسٹی میں ہمیں پڑھاتے تھے، ایک بار کلاس نے ان سے کوئی سوال کیا، سوال کے جواب میں ایک بالغ لطیفہ بھی آ گیا۔
یہ لطیفہ تو میں سناتا ہوں اور یہاں اس کے درج کرنے کا مقصد پختون اور پنجابی ذہنیت کا موازنہ کرنا ہے۔

سر نے بتایا کہ ایک قابل وکیل صاحب ایک دن معمول سے قدرے قبل گھر میں داخل ہوئے، سونے والے کمرے میں ایک روشندان بھی کھلتا تھا، بیگم کے کردار پر ان کو کچھ تحفظات تھے، آج واردات کی بُو پائی تو جاسوسی کی ٹھان لی۔
روشندان سے کمرے میں جھانکا تو محترمہ اپنے آشناء اور قدردان کے ساتھ مصروف دلربائی تھیں۔
اب وکیل صاحب روشندان سے لگے کھڑے سوچ رہے ہیں کہ
اگر اس آشناء کو دبوچ کر بازو توڑ دوں تو یہ دفعہ  لگے گی۔
اگر ناک کاٹ لوں تو یہ دفعہ لگے گی اور اگر پستول سے گولی مار دوں تو یہ دفعہ  لگے گی۔
اب وکیل صاحب صورتحال کا ادراک کرنے میں خود سے جرح فرما رہے تھے
ادھر آشناء اور محترمہ کام  مکمل کرنے تک آن پہنچے تھے۔
آشناء کچھ ٹھنڈا تھا اور آہستہ آہستہ معاملہ چلا رہا تھا۔
وکیل صاحب غصے میں بھی تھے اور نقصان سے بچنے کی احتیاط میں بھی مصروف تھے۔
اب بڑبڑاتے ہوئے فرمانے لگے کہ
“ابے جلدی جلدی ۔۔۔ لے، ورنہ تمہارے قتل کے جرم میں، میں خود کو جیل میں پہنچا دوں گا”۔

تو اب عمران خان اس قصے کے باشعور وکیل صاحب کی طرح
اگر عاطف خان یا اسد قیصر یا ایسے کسی دوسرے تعلیم یافتہ بندے کو وزارت اعلیٰ پر بٹھا دیتے ہیں،
جیسا کہ
وہ وفاق میں اس سے قبل پڑھے لکھے اور باشعور شخصیت ڈاکٹر عارف علوی صاحب کو صدر لگا چکے ہیں اور تہذیب کا دامن پکڑتے پکڑتے علوی صاحب پارٹی چیئرمین کو موت کے منہ تک چھوڑ آئے ہیں۔
تو علوی صاحب کے انتخاب کا ایک شرمندہ سبق ان کے لیے کافی ہے اب وہ ان حالات میں ہیں، جب ان سے ان کی جائز بیوی چھین لی گئی، ان کو 30 سال سے اوپر کی قید با مشقت مل چکی ہے، جرمانوں میں گھر ضبط ہو چکے،
بانی جماعت کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں،
وہ رفاحی پالیسی بنانے کے بدلے دفاعی پالیسی ترتیب دے رہے ہیں
اور ناقدین فرماتے ہیں کہ
علی امین مناسب نہیں.
بھیّا جی
بکری اپنی جان کو رو رہی تھی اور قصاب کو پریشانی تھی کہ بکری پر چربی ٹھیک ٹھیک نہیں چڑھی۔۔

عمران خان نے محمود خان اور عثمان بزدار جیسے  بھی کمپنی کی فرمائش پر بھرتی کیے تھے اور وہ دونوں بدبخت اس کو تخت سے تختے پر پہنچا گئے ہیں۔
یہ تو اس کے نصیب اچھے ہیں کہ عوام اب تک اس کے ساتھ کھڑی ہے۔
کمپنی کے بس میں ہوتا تو جماعت کے شیدائی اب تک کمپنی کے بانی کی برسی بھی منا چکے ہوتے۔

علی امین پختون ذہنیت کا بندہ ہے، پنجابی باشعور ذہنیت کی بزدلی اس کے اندر نہیں۔
عمران خان نے اگر اسے آواز دی، جیسا کہ آواز دینا پڑے گی کوئی شک ہی نہیں کہ ضرورت نہ پڑے
تو علی امین نے وکیل صاحب کی طرح یہ نہیں سوچنا کہ کون کون سی  دفعات لگیں گی
وہ سیدھا آگ میں کود پڑے گا
جان دے بھی دے گا اور جان لے بھی لے گا۔

اس وقت جب اسٹیبلشمنٹ پی ڈی ایم 2 کو لا رہی ہے اور یہ صاف ظاہر ہے کہ کمپنی کو ملکی معیشت اور عوام کے مسائل کی ذرہ بھر پرواہ نہیں۔تو یہ کون لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ وفاق چاہے قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہو، لواحقین کو آخری ملاقات کی پکار ہو رہی ہے
مگر کے پی کے دلہن کی طرح بنا سنورا رہے۔

ترجیحی لسٹ میں اس وقت بقاء ہے نہ کہ عوامی بہبود و فلاح۔
ریاست کے حالات شروع سے ہی ایسے تھے،76 سال بعد یہ ادراک ہوا کہ آخر ایسے تھے جس کی وجہ سے،تو دوسرا بھی ایک ایک واقعہ سن لیجیے
ایک بزرگ نے فرمایا
کہ میرے چار بیٹے ہیں اب چاہتا ہوں کہ بڑا جج بن جائے، دوسرا تھانیدار بنے، تیسرا چور بنے اور چوتھا گھر پر آرام کرے۔
بھائی وجہ آخر؟
وجہ یہ ہے کہ چور چوریاں کرے گا، مال لائے گا، تھانیدار اور جج اسے بچائیں گے اور جو گھر پہ آرام کر رہا ہے
وہ گھر اور گھر والوں کا خیال رکھے گا مکمل سکون سے۔

میرا ایک دوست، انتہائی سلجھا ہوا اور پڑھا لکھا، ہم ساتھ چائے پینے گئے، چائے والے لڑکے کو جب اس نے بلایا تو بڑے روکھے اور ترش لہجے میں آواز دی۔
میں تو حیرت زدہ رہ گیا کہ یہ کیسے آواز دی
تو بولے کہ بھائی ہر مخاطب، خطیب کا لہجہ خود طے کرتا ہے۔
آگے بولے کہ گھر میں کام چل رہا تھا، میری ذمہ داری لگی کام اور مستری مزدوروں کی دیکھ بھال کی۔
پہلے دن میں چائے پیش کر رہا ہوں، شربت بنوا رہا ہوں، لذیذ کھانے پیش کر رہا ہوں۔
چار دن بعد بڑے بہنوئی آئے تو بولے یہ کیا؟
دو دن کا کام تھا، چار دن لگ گئے اور کام آدھا بھی نہیں نکلا، مہینہ لگواؤ گے کیا؟
اگلی صبح وہ خود ہی ورک سائٹ پر پہنچ گئے۔
مستریوں کی مدارات بند، خدمتیں بند۔
بات کرنے سے پہلے ایک گالی دیتا، درمیان میں بات سینڈوچ کرتا اور آخر میں پھر گالی کا کَور لگا دیتا۔
میں بڑا حیران کیونکہ مستریوں نے دو دن میں کام مکمل کر کے دے دیا۔
مجھے بڑا افسوس ہوا اور میں نے یہ سمجھ لیا کہ کتابیں جھوٹ بولتی ہیں اور کم از کم تیسری دنیا کے سماج کے لیے یہ سب کہانیاں بے معانی ہیں، یہاں سب چھڑی سے چلتے ہیں۔
اب عمران خان نے بھی سمجھ لیا کہ مستری مزدوروں کے ساتھ کتابی تعلقات نہیں چلے لہذا بات سے پہلے بھی گالی دینے والا رکھ لیا اور بات کے بعد بھی گالی دینے والا رکھ لیا۔

دوسری نفسیاتی بات بھی سامنے  رکھنا چاہوں گا۔
ہم سب ہی تیسری دنیا کے لوگ ہیں، ہمارے فیشن اور بول چال پر نہ جائیے
یہ سب اداکاری ہے۔
اصل میں تو ہمارے ڈاکٹر، وزیراعظم، چیفس، اداکار اور سبھی لوگ، تیسری دنیا کی انتہائی کمتر ذہنیت کے مکمل مکمل مالک ہیں، اوپر بس ملمع کاری ہے، بیوٹی پارلر والا پینٹ چڑھا ہوا ہے۔
منہ ٹیڑھا کر کے بات کرنے سے کوئی شائستہ نہیں ہو جاتا۔
غصہ آتا ہے نہ ہم سب کو؟
غصہ اگر کسی کو نہی‍ں آتا تو وہ بے غیرت ہے، غصہ آنا تو حلالی پن کی نشانی ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ آپ غصہ پر قابو پا سکتے ہیں؟
قابو پا سکتے ہیں تو پھر آپ بہادر اور جری ہیں۔
زیادہ آبادی والے بے روزگار اور بے شعور پاکستانی سماج میں لوگ مہاتما بدھ کو بھی باؤلا کر دیتے وہ بھی لوگوں کو کاٹتے پھرتے۔
آپ لاکھ صبر کا مظاہرہ کریں لیکن آپ کے ارد گرد ایسے کردار ضرور موجود رہتے ہیں جو آپ کے صبر کو بار بار چیلنج کرتے ہیں، آپ کو اکساتے ہیں لہذا آدمی مجبور ہو کر، تعلیم یافتہ اور پڑھا لکھا ہو کر بھی اس اکسانے والے بدتمیز آدمی کے لیول پر آ کر اسے سبق سکھانے کی کوشش کرتا ہے۔
پھر چاہے کسی کی ناک ٹوٹے، ٹانگ ٹوٹے یا پھر کوئی قتل ہو، بپھرا ہوا انسان اس کا حساب نہیں رکھتا پھر۔۔
شاید عمران خان بھی لیول سے نیچے آ کر مدمقابل کو سبق سکھانا چاہتے ہیں۔
وہ غصہ پر صبر کرتے کرتے اکتا چکے اور انہیں اکسانے والوں نے زبردست اکسا دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:تحریر میں بیان کردہ  خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ  ویب کا ان سے اتفاق  ضروری نہیں  اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply