غیر جانبداری ؟/ اظہر سید

ایک لمحہ کیلئے تصور کرتے ہیں مالکان تیزی سے بڑھتی ہوئی نادہندگی دیکھتے ہوئے سچ مچ غیر جانبدار ہو گئے اور نوسر باز کے بوجھ سے نجات حاصل کر لی ،لیکن کیا مالکان کی غیر جانبداری مسلہ کا حل ہے ؟ جی نہیں پاکستان ایک ایسا جسم بن چکا ہے جس پر بے شمار پھوڑے اگ چکے ہیں ۔
پہلی بات مالکان کی غیر جانبداری مشکوک ہے ۔تحریک عدم اعتماد کی رات بظاہر مالکان نے عدلیہ کی مدد حاصل کر کے چند گھنٹے کیلئے غیر جانبداری ترک کی اور نوسر باز سے چھٹکارا ممکن بنایا لیکن حالات و واقعات میں جس طرح تبدیلیاں آرہی ہیں اور اب تک جو کچھ بھی ہوا ہے مالکان غیر جانبدار نظر آتے ہیں لیکن صرف ان سیاستدانوں کے معاملہ میں جو عمران خان کی چار سالہ حکومت میں مسلسل مزاحمت کرتے رہے ۔
ہم فرض کرتے ہیں مالکان نے غلطی کا احساس کر لیا اور سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ،لیکن مذہبی کارڈ اب بھی کھیلا جا رہا ہے ۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں اب بھی مسلح گروپ “ریاست مخالف” متحرک لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ریاست مخالف اصطلاح ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کی ہے بالغ نظر سیاسی سوچ اس اصطلاح سے متفق نہیں لیکن سیاسی قیادت کو فیصلوں کا اختیار ہی نہیں ہے بھلے وہ حکومت میں ہوں ۔
ہم فرض کرتے ہیں مالکان غیر جانبدار ہو چکے ہیں لیکن جس طرح کے عدلیہ پاکستان میں وجود پا چکی ہے اس کی موجودگی میں کوئی حکومت ریاست کو معاشی دلدل سے نکال سکتی ہے نہ نادہندگی سے بچا سکتی ہے ۔
جس طرح معاملات چل رہے ہیں یا چلائے جا رہے ہیں معاشی تباہی کو روکنا ممکن ہی نہیں ۔اسحاق ڈار تو بہت دور کی بات ہے سامری جادو گر بھی کچھ نہیں کر پائے گا ۔ریاست کی کوئی معاشی پالیسی موجود نہیں۔کسی معاشی پالیسی کیلئے کوئی مستحکم حکومت موجود نہیں۔ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے کوئی روڈ میپ اور کشش موجود نہیں۔
ریاست ننگی ہے نہانے کیلئے کچھ نہیں نچوڑنے کیلئے کیا ہو گا ۔ادائیگیوں کا بے پناہ بوجھ ہے ۔عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کی طرف سے سال چھ مہینے کیلئے سانس لینے کی مہلت ملتی ہے ۔اس صورتحال میں معیشت کون مستحکم کرے گا اور بے یقینی کی کیفیت کیسے ختم ہو گی ۔
عدلیہ کو کون سو موٹو اور حکم امتناعی کے دانتوں اور ناخنوں سے محروم کر کے پاکستان کو بچائے گا دور دور تک امید نظر نہیں آتی۔
مالکان کے کارپوریٹ مفادات اس قدر زیادہ ہیں انکے کلیجے پر ہاتھ پڑتا ہے جب طاقتور پارلیمنٹ اور سیاسی حکومت ججوں اور اداروں کو قانون اور آئین کے دائرہ میں لانے کی کوشش کرے گی ۔
ایک دو پیسے کا نوسر باز ملکی معیشت کو مسلسل بے یقینی کا نشانہ بنائے ہوئے ہے ۔طاقتور مالکان کو مسلسل متنازعہ بنائے ہوئے ہے ۔عدلیہ حکومت کو کبھی افسران کی تعیناتی سے روک دیتی ہے اور کبھی شہزاد اکبر کو سٹاپ لسٹ سے نکال کر باہر جانے کاموقع دیتی ہے تو ان حالات میں کونسی ریاست یا دوست ملک یہاں سرمایہ کاری کرے گا، جس حکومت کی رٹ ایک ہائی کورٹ کا جج پاؤں تلے روند دے ۔کیا بھارت میں کوئی جج حکومت کے انتظامی معاملات میں مداخلت کی جرآت کر سکتا ہے ؟ کیا امریکہ کا کوئی جج امریکہ میں سرمایہ کاری کے کسی معاہدہ کو منسوخ کر سکتا ہے ؟ نہیں ایسا صرف پاکستان میں ہوتا ہے ۔
چین کی سی پیک سرمایہ کاری کے ساتھ جو کچھ ہوا کون پاگل اس ملک میں سرمایہ کاری کرے گا ؟
ریکوڈیک کے ساتھ جو کچھ ہوا سرمایہ کار بنگلادیش،بھارت اور خلیجی ممالک میں جائیں گے یہاں کوئی نہیں آئے گا ۔
اس ملک کو بچانے اور جنوبی ایشیا کا طاقتور ملک بنانے کیلئے سچ مچ غیر جانبدار ہونا پڑے گا ۔طاقتور سیاسی حکومت اور طاقتور پارلیمنٹ کا کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑے گا ۔اب دو کشتیوں میں سواری ممکن نہیں ۔
آئین موجود ہے لیکن لوگ بدنیت ہیں ۔ائین میں وزیراعظم کی فراغت کا طریقہ درج ہے لیکن بدنیت لوگ کبھی وزیراعظم گیلانی کو خط نہ لکھنے پر اور کبھی وزیراعظم نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر مجرم بنا دیتے ہیں اور وزیراعظم کو فارغ کرنے کیلئے چور دروازے استمال کرتے ہیں ۔اب بھگتیں ۔جو کچھ بھی کھیل کھیلا جاتا رہا اب اسے بھگتیں ۔
سچ مچ غیر جانبدار ہونگے تو پارلیمنٹ ہر مسلہ کا حل تلاش کر لے گی اور دنیا بھی اعتبار کرنے لگے گی۔ فرانس اور جرمنی صدیوں پرانی دشمنی ترک کر کے یورپین یونین کو اپنے عوام کی خوشحالی کا مرکز بنا سکتے ہیں تو ہم سارک تنظیم اور شنگھائی تعاون تنظیم کے زریعے کیوں آگے نہیں بڑھ سکتے ۔مسلہ نیت کا ہے ۔طاقتور اور بڑی فوج کے جواز کیلئے دشمن بنائے رکھنے کا ہے ۔
جس دن غیر جانبداری سچ مچ ہوئی اور نیک نیتی سے ہوئی تو اس دن سے بے یقینی کا خاتمہ بھی شروع ہو جائے گا اور مسائل بھی حل ہونا شروع ہو جائیں گے ۔موجودہ حالات کو کتنی دیر تک چلائے جائیں گے ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply