رات دیر گئے تک دوستوں کے ساتھ/عبدالرؤف

بڑوں سے سنا تھا بلکہ حقیقت بھی تھی کہ شادی کے بعد شادی شدہ مرد گھروں کو رات دیر گئے کے بجائے جلد ہی ہو لیتے ہیں ، اور ہم بھی اسی روایات پر چلتے رہے۔ لیکن پھر اچانک ہماری دوستی پانچ دوسرے دوستوں سے ہوئی جن میں چار شادی شدہ اور اک شدید کنوارہ تھا، شدید کنوارہ اس لئیے کہا کہ وہ شادی شدہ دوستوں کو دیکھ کر شادی کے لئیے مرے جارہا تھا،لیکن اس کے والد اور ہونے والے سسر اک دوسرے سے بگاڑ کر بیٹھے ہوئے تھے اور اس کی سزا اس کنوارے دوست کو مل رہی تھی۔ لہذا اس کی شادی تو دور دور تک نظر نہیں آرہی تھی۔

لیکن یہ جو چار شادی شدہ تھے ساتھ ہی کئی بچوں کے باپ بھی تھے ، لیکن چاروں رات دیر تک گھر سے باہر رہتے تھے اور دیر سے گھر کو لوٹتے تھے۔ کچھ عرصے میں، میں بھی ان کی فہرست میں آگیا ۔

میں اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ شادی کے بعد دیر گئے بہت کم گھر لوٹتا تھا۔ کوشش ہوتی تھی کہ ساڑھے دس، گیارہ بجے تک گھر کو لوٹ چلیں۔ اس کی وجہ کیا تھی وہ تو آج تک کوئی نہیں بتا سکا، لیکن یہ جو چار دوست تھے، ان کا رات گئے باہر رہنا سمجھ سے بالاتر تھا۔

خیر کچھ عرصے میں، میں بھی ان کا گرویدہ ہوگیا ، اور رات کو ان کے ساتھ باہر رہنے لگا۔

چس تو اچھی تھی رات گئے باہر رہنے کی۔ بڑا مزہ آتا جب اک دوست کے گھر سے چائے آتی اور سب دوست مل کر پیتے اور چائے لانے والے دوست کو چھیڑتے کہ سہی سہی بتا چائے بھابھی نے بنائی یا تونے اور وہ فخر سے سینہ چوڑا کر کے کہتا کہ ابھی وہ دن نہیں آئے کہ تمھارا بھائی خود چائے بنائے۔

ہر دوست اپنی باری پر اک دن چائے گھر سے بنوا کر لاتا اور ہم اسی طرح کا مزاق کرتے کہ چائے کس نے بنائی اور ہر دوست کا جواب بڑا فخریہ انداز میں ہوتا کہ ابھی وہ دن نہیں آئے کہ ہم ڈر جائیں اور دب جائیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔ چائے خود بتاتی کہ چائے بنانے والا کون ہے۔

شادی کے بعد ویسے بھی گھر سے باہر نکلنے کی عادت آرام آرام سے ختم ہی ہو جاتی ہے۔ بس بندہ کام اور کام سے گھر اک مشین بن کر رہ جاتا ہے۔ اور پھر دو چار بچوں کے بعد تو بندہ کہیں کا نہیں رہتا۔

صرف دودھ، بسکٹ پیمپرز تک ہی محدود ہو جاتا ہے۔ اکثر راہ چلتے دوست اگر کہیں مل جائیں تو پوچھتے ہیں کہ کہاں ہو ملک سے باہر نوکری کر رہے ہو کیا؟ اور ہمارا جواب، نہیں یار ! یہیں پر ہیں۔ اور پھر وہی جملہ ، یار شادی کے بعد تو تم گھر سے ہی نہیں نکلتے۔ بھابھی نہیں چھوڑتی کیا؟

اگر دیکھا جائے تو شادی شدہ زندگی اور شادی سے پہلے کی زندگی بہت مختلف ہوتی ہے۔ شادی سے پہلے آپ کے مختلف ہی ٹھاٹھ باٹھ ہوتے ہیں۔ کوئی چھیڑ چھاڑ کرنے والا نہیں ۔ کوئی دخل اندازی کرنے والا نہیں۔ صبح نکلے رات کو لوٹے۔

اک عیاشی والی زندگی ہوتی ہے۔

لیکن کب تک ؟ لگام بھی تو دینی ہوتی ہے۔ اور والدین خوب جانتے ہیں کہ ان نکٹھوؤں کو اپنے ڈگر پر واپس کیسے لانا ہے اور پھر ہم اک سے دو ہو جاتے ہیں اور خوب برباد ہو جاتے ہیں۔

وہ جو بدمعاش بنے پھرتے تھے اور ہر اک سے پنگا۔ لیکن اب ” بد ” تو ہم سے نکل گیا لیکن ” معاش ” خوب گلے کو آیا۔ کمائے کمائے تھک گئے لیکن خرچے ہیں کہ پورے ہی نہیں ہوتے۔

ویسے اس کنوارے دوست کو سلام ہے جو اب تک کنوارہ ہے ۔ لیکن اس دوست کی مثال بھی اس محاورے جیسی ہے کہ۔ کنواری کو ارمان، بیاہی پریشان۔

خیر بات نئے دوستوں کی اور رات گئے باہر رہنے کی ہورہی تھی۔ جوانی کی یادیں تازہ ہوگئیں ، جب کنوارے تھے اور دوستوں کے ساتھ رات گئے باہر رہتے اور اماں سے چھپ کر گھر میں داخل ہوتے کہ ڈانٹ پڑے گی، لیکن وہ بھی والدین تھے جو ہمارے انتظار میں سوتے ہی نہیں تھے اور ہماری راہ تکتے کہ بچہ لوٹے گا تو سوئیں گے۔

اب تو بیگمات کہتی ہیں کہ کہیں بھی جاؤ باہر سے تالا لگا کر جاؤ ہماری نیند خراب نہ کرو۔ شروع میں تو گھر سے نکلنے نہیں دیتیں اور کچھ عرصے کے بعد گھر میں گھسنے نہیں دیتیں۔

اک دن میں نے ان دوستوں سے پوچھا کہ یار تم لوگ شادی شدہ ہو بچوں کے باپ ہو۔ یہ کس طرح زندگی سے محظوظ ہورہے ہو کوئی گھر سے روک ٹوک نہیں۔ رات گئے باہر بیٹھے رہتے ہو بھابھیاں ناراض نہیں ہوتیں۔

اک دوست جو برابر میں بیٹھا تھا منہ سے گٹکے کی پچکاری مار کر جو وہ کب سے منہ میں لئیے بیٹھا تھا اک موٹی اور غلیظ گالی نکال کر اور ساتھ میں کہتا ہیکہ بھاڑ میں جائے یار یہ بیویاں۔ ان کے لئیے ہم اپنی دوستیاں ختم نہیں کر سکتے۔

سارا دن ان کے لئیے کماؤ دھکے کھاؤ رات کو گھر لوٹو تو ان کے تماشے شروع، اب ہم رات کو دوستوں کے ساتھ بھی نہ بیٹھیں تو پھر کہاں کو جائیں گھر میں تو دم گھٹتا ہے۔

بیگمات کے ساتھ تو آپ نہ مذاق کر سکتے ہیں اور نہ ہی گپ شپ۔ مذاق اور گپ شپ ، دونوں صورتوں میں نتیجہ جھگڑے کی صورت میں نکلتا ہے۔ بہتر ہے بندہ باہر نکل کر دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنی دن بھر کی تھکان دور کرے گپ شپ کی شکل میں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس دوست کا یہ بے ہنگم سا پرسہ سن کر مجھے بھی کچھ ڈھارس بندھی کہ چلو اس سفر میں ہم اکیلے تو نہیں۔ ویسے بھی ہمارا ماننا ہیکہ دن بھر کی تھکان کے بعد ، محنت مشقت کرنے کے بعد دوستوں میں ضرور بیٹھنا چاھیئے، تاکہ بندہ پھر سے ریفریش ہوجائے۔ دوستوں کی محفل میں ہنسی مزاح، چٹکلے ، شرارتیں یہ سب کھل کر چلتا ہے۔ اب وہ دن کی روشنی میں ہو یا رات کے اندھیرے میں۔ کسی بیٹھک، اوطاوق، یا ڈیرے میں۔ بندہ محظوظ اور لطف اندوز ضہرور ہوتا ہے۔

Facebook Comments

عبدالرؤف خٹک
میٹرک پاس ۔اصل کام لوگوں کی خدمت کرنا اور خدمت پر یقین رکھنا اصل مقصد ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply