امام مالک رحمہ اللہ اپنے شاگردوں کو درس دے رہے تھے کہ اگر کوئی شخص کسی شخص کی ایک انگلی کو بلا وجہ توڑے تو اس شخص کو دس اونٹ جرمانے میں دینے ہونگے اس طرح دو انگلیوں پر بیس اونٹ تین پر تیس ،پانچوں انگلیاں توڑنے پر پچاس اونٹ جرمانہ دینا ہو گا ۔یہ سن کر ایک نوجوان نے امام صاحب سے سوال کیا کہ آپ کے مطابق ایک انسان کا ایک ہاتھ برابر ہے پچاس اونٹ کے ،تو یہ کیا ماجرا ہے کہ اسلام میں ایک درہم چوری کرنے پر وہ ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے حالانکہ اس کا ہاتھ پچاس اونٹ یا ان کی برابر مالیت پر کاٹا جائے لیکن ایسا تو نہیں ہے اور آپ کی بات اس بات کے خلاف ہے۔
تو امام صاحب نے جواب دیا کہ آپ بالکل درست فرما رہے ہیں لیکن معاملہ یہ ہے کہ جب وہ ہاتھ ایماندار تھا تو اس کی قیمت پچاس اونٹ تھی لیکن جب وہ ہاتھ بد دیانت ہوگا تو اسے ایک درہم پر کاٹ دیا جائے گا کیوں کہ بد دیانتی کی وجہ سے اس نے اپنی قیمت اور اہمیت گنوا دی۔
ایساہی کچھ معاملہ ہمارے ساتھ بھی ہے دنیا میں جو ہماری اہمیت ہونی چاہیے تھی اب وہ نہیں رہی ،اس کی وجہ ہماری وہ بد دیانتی ہے ،پاکستان میں اکثریت کا احوال کچھ اسی طرح ہے اگر بائیس کروڑ عوام میں کوئی ایک اچھا ہو بھی تو اس کے ساتھ معاملہ اکثریت کو دیکھ کر کیا جاتا ہے جو کہ بد دیانتی ہے۔
ہمارے ہاں انفرادی یا اجتماعی سارے معاملات بد دیانتی پر مشتمل ہیں اور ان حالات میں جس چیز نے جنم لینا ہے وہ ہے غیر یقینی صورتحال جس سے آج سارے بھگت رہے ہیں اور کچھ نبرد آزما ہیں اور اس غیر یقینی صورتحال نے پاکستان کو کھوکھلا کر دیا ہے۔
پاکستان کی ساری عوام بد دیانت ہے اور پاکستان کے سارے ادارے اور سیاسی ماحول اسی عوام سے ہی نکلا ہے ،عوام کا مآخذ ہے۔
سندھی زبان کی ایک کہاوت ہے جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ کسی ملک کے ایک درخت کو دیکھ کر باقی ملک کے احوال کو دیکھا سمجھا جا سکتا ہے۔
ہم جب تک فرد بہ فرد اپنا محاسبہ نہیں کریں گے تب تک ہم اس غیر یقینی صورتحال سے نہیں نکلیں گے اور غیر یقینی صورتحال کا ذمہ دار بائیس کروڑ عوام کی بد دیانتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں