گیان بیان اور دھیان /ڈاکٹر مختیار ملغانی

سائنس اور الحاد کا آپس میں گہرا تعلق ہے، الحادی فکر کے افراد ہی سائنس کے میدان میں نئی دریافت اور ایجاد کا بیڑا اپنے سر اٹھائے ہوئے ہیں، آج سائنس کا سٹیٹس ،بطور مضمون، تقریبآ الحادی ہے۔
الحاد کی باقاعدہ ترویج قرون وسطی کے آخر میں دیکھنے کو ملی، تب سائنسی نکتۂ نگاہ سے کائنات کو قدیم اور جامد مانا جاتا تھا، یعنی کہ یہ ابدی ہے، ہمیشہ سے ہے اور مکمل طور پر ساکن ہے۔
انہی عقائد کو بنیاد بناتے ہوئے آئن سٹائن نے اپنی تھیوری کیلئے پیشرفت کی، ان کا کہنا تھا کہ اگر کائنات ابدی ہے تو اس ابدیت کی بدولت کائنات اپنی کشش ثقل کے زیرِ اثر اب تک کسی نکتے کی طرح ایک جگہ سکڑ چکی ہوتی، لہذا یہ ابدی نہیں ہو سکتی، کیونکہ ایک anti-gravitational force مسلسل مزاحمت میں ہے جو کائنات کو اکٹھا نہیں ہونے دیتی، اگرچہ اس فورس پر بحث کی گنجائش وجود تھی، لیکن چونکہ کوئی دوسرا نعم البدل موجود نہ تھا تو اس تھیوری پر اکتفا کر لیا گیا، اور سائنس کی بدولت انسانوں کی اکثریت نے کائنات کے ابدی تصور سے رجوع کر لیا ، اس کے بعد پھر بگ بینگ تھیوری نے گویا پتھر پہ لکیر کھینچ دی، لیکن اس پورے “سائنسی گیان ” میں سب سے بڑا کردار سوویت سائنسدان فرائیڈمین کا ہے، جنہوں نے صرف کاغذ اور پنسل کی مدد سے یہ ثابت کیا کہ آپ کسی بھی جگہ سے اس کائنات کو دیکھیں، یہ آپ کو ہر مقام سے ایک جیسی ہی لگے گی اور یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب یہ کائنات مسلسل حرکت میں ہو اور پھیل رہی ہو، فرائیڈمین سے قبل کائنات کی حرکت پر لب خاموش تھے، وہی پہلے آدمی تھے جنہوں نے اس وقت کائنات کی عمر تقریباً تقریبآ ٹھیک بتائی ، فرائیڈمین حقدار ہیں کہ ان کی قبر پر ، اس شخص نے کائنات کو حرکت دی، کے الفاظ لکھے جائیں، بالکل ایسے جیسے گلیلیو کی قبر کے کتبے پر درج کیا گیا کہ، گلیلیو نےسورج کو ساکن کیا اور زمین کو حرکت دی۔
آئن سٹائن شروع میں فرائیڈمین کی تھیوری کے مخالف رہے، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ فرائیڈمین کی تھیوری درست ہے، آئن سٹائن کو بالآخر ہتھیار تب ڈالنے پڑے جب بگ بینگ تھیوری نے خود کو آن منوایا۔
اب جب بیسویں صدی میں کائنات غیر ابدی اور متحرک ثابت ہوچکی تو الحاد کے علمبرداروں کیلئے مشکل آن پڑی، کیونکہ خدا کے وجود کا انکار اس بنیاد پر تھا کہ یہ کائنات ہمیشہ سے تھی اور ساکن ہے، تو جو ابدی ہے اس کا کوئی خالق نہیں ہو سکتا، کوئی علت نہیں ہو سکتی۔
اب بگ بینگ کے بعد ثابت ہوا کہ کائنات کی پیدائش تقریبا چودہ بلین سال یا اس سے کچھ کم وقت پہلے ہوئی تو یقینا اس کی پیدائش کسی علت کی مرہونِ منت ہے، ایک عام ذہن آدمی نے ان ثبوتوں پر چار حرف بھیجتے ہوئے وہی رٹ جاری رکھی کہ، کوئی خدا موجود نہیں ہے، لیکن سائنسی ذہن کو علت درکار تھی ، وہ اس ڈھٹائی کا مظاہرہ نہ کر سکتا تھا، کیونکہ بڑے اذہان قدیم دور سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ ، کچھ نہیں ، سے ،کچھ، وجود میں نہیں آسکتا۔
تو سوال بالکل منطقی تھا کہ اگر لاشئے سے شئے وجود میں نہیں آسکتی تو کائنات کیسے وجود میں آگئی، اس سوال کو اس طرح ٹالنے کی کوشش کی گئی کہ، یہ تو وہی بے معنی بات ہوئی کہ جنوبی قطب کے جنوب میں کیا ہے؟
یہاں بڑے اذہان کی الحادی اکثریت منہ کے بائیں کونے سے یہ کہتے پائے گئے کہ، لاشئے سے شئے وجود میں نہیں آسکتی، اور دائیں کونے سے دہراتے رہے کہ بگ بینگ سے پہلے کچھ بھی نہ تھا۔
گلیلیو نے زمین کو متحرک بتایا تو بے شمار مذہبی ذہن اپنی انا پر اٹک گئے کہ زمین ساکن ہے اور ساکن ہی رہے گی، اس کی بنیاد ان کا اپنے اپنے منبر و محراب پہ یقین تھا، اتھارٹی پہ یقین تھا کہ مذہبی اتھارٹی ہی حق ہے، بگ بینگ کے بعد بالکل یہی رویہ الحادی گروہ کی طرف سے سامنے آیا کہ سائنس اور سائنسدان جب کہہ رہے ہیں کہ بگ بینگ سے پہلے کچھ نہیں تھا اور علت کا سوال غیر منطقی ہے، لہذا خدا نہیں ہے۔جیسے مذہبی ذہن کیلئے منبر و دستار یقین کا منبع ہیں، ایسے ہی الحادی ذہن سائنس اور سائنسدان کو حرفِ آخر سمجھتا ہے۔
یہاں مذہبی ذہن اپنے مخالف کی نسبت بہتر پوزیشن میں اس لئے ہے کہ وہ اپنے ایمان و بیان کے درمیان اختلاف پر ، ان اللہ علی کل شیء قدیر، کا نعرہ لگا کر کہانی کو ” فائنل ٹچ ” دے سکتا ہے , ملحد ذہن کے پاس ایسا کوئی ہتھیار نہیں، ملحد جب کہتا ہے کہ کائنات لامحدود ہے، اور پھر یہ مسلسل پھیل بھی رہی ہے تو اس سوال پر کہ جو چیز لامحدود ہے، وہ مسلسل پھیل کیسے سکتی ہے؟ کیونکہ پھیلے گا وہی جو ایک خاص حد رکھتا ہے، اس حد سے آگے جائے گا تو پھیلنے کا عمل درست تسلیم ہوگا، اس سوال کا جواب ملحد ذہن کے پاس نہیں، سوائے اس کے کہ زمان و مکان سے پہلے کے معاملات سائنس کی دسترس سے باہر ہیں۔
یہ وہی کیفیت ہے جیسے ایک بدھ مت پیشوا سے اس کا مرید پوچھتا ہے کہ، کیا خدا واقعی موجود ہے؟
پیشوا خاموش رہتا ہے، بدھ مت کے مطابق کچھ سوالوں کا بہترین جواب خاموشی ہے ۔
اس سے اگلا قدم فلسفے کی مدد سے اٹھایا گیا، اس کیلئے ایک اصطلاح ، agnosticism, کا بے دریغ استعمال کیا گیا، یہ یونانی زبان کا لفظ ہے۔ یہاں حرف، A, نفی کر رہا ہے اور gnosticism کا مطلب ہے، کسی بھی قسم کے علم کا وجود۔ یعنی کہ اس اصطلاح کے معنی کسی بھی قسم کے علم کے وجود کی نفی کرنا ہے، آگے جاکر اسے خدا ہے یا نہیں ہے کے فلسفے کی نفی کرنے سے نتھی کر دیا گیا کہ ہم نہیں جانتے ۔
لیکن غور کرنے پر معلوم ہوگا کہ دنیا میں کوئی ایک بھی ایسا باشعور انسان نہیں ہے جو کسی بھی قسم کے علم کی نفی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، یہ چیز سرے سے ناممکن ہے، یہاں ہم فرد کے الفاظ پہ توجہ نہیں دیں گے، بلکہ اس کے فعل کو دیکھیں گے، کہنے کو کئی خوشگفتار بڑی بڑی اخلاقی باتوں کا بھاشن دیتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن ان کا حقیقی معیار ان کے فعل پر تولا جائے گا، کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ سخت چٹائی پہ سوتے تھے کہ جسم مبارک ہر نشان پڑ جاتے، یہ کہتے ہوئےآنکھوں میں آنسو بھی تیرتے دکھائی دیں گے، لیکن اگر مبلغ بیان ختم کرنے کے بعد چنیوٹ کے بنے فرنیچر پہ سرین کے نیچے سائیبیرین بھیڑئیے کی کھال کا تکیہ رکھ کر سستانے کو ملے تو سمجھ جانا چاہئے کہ اس مبلغ کا اصلی چہرہ اس کا یہ فعل ہے نہ کہ وہ الفاظ جو کچھ دیر اس نے منبر سے کہے ۔
جب فعل ہی آپ کی شعوری سمت کا تعین کرتا ہے تو پھر ہمہ قسمی علمی وجود کی نفی کے بعد کیسے آپ دنیا کی آسائشوں ، کاروباری کامیابیوں ، پیسے اور مادیت کی تمنا کر سکتے ہیں؟
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ کامیاب کاروبار کے خواہشمند ہیں، پیسے کی طاقت پہ یقین رکھتے ہیں، اقتدار اور اتھارٹی کے نشے سے واقف ہیں، یعنی کسی نہ کسی علم کا شعور بھی ہے اور اس علم کی مدد سے منزل کو پانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ حقیقی agnostic کیلئے ضروری ہے کہ وہ خود کو حالات و واقعات ، یعنی زمان و مکان کے رحم و کرم پہ ایسے چھوڑ دے جیسے خشک پتے ہوا کے رحم وکرم پہ ہوتے ہیں، لیکن اگنوسٹک جانتا ہے کہ دنیاداری بھی چلانی ہے، سماجی اخلاقیات و ضوابط کی پاسداری بھی ضروری ہے، بچوں اور خاندان کو پالنا پوسنا بھی ہے، یعنی مخصوص علوم وہ رکھتا ہے، وہ علوم جو اس کی ذات اور اس کے اقارب کیلئے فائدہ مند ہیں، اس پر پھر اگناسٹیسزم کا نعرہ چہ معنی دارد؟ اس اصطلاح کا استعمال شاید قصداً کیا جاتا ہے کہ اس کی آواز اچھی ہے، اجنبی ہے، گھمبیر ہے اور کچھ رعب بھی ٹپکتا ہے ، گویا کہ اس لفظ کا پرچار کرنے والا فلسفے اور سائنس کی چابیاں اپنی شلوار کی جیب میں رکھتا ہے۔
یہاں ایک بار پھر مذہبی ذہن بہتر پوزیشن میں ہے، وہ ان تمام سماجی و اخلاقی ضابطوں کو مذہب کا لازمی جزو قرار دیتا ہے اور مطمئن ہے کہ وہ جائز رزق کماتے ہوئے، ہمسائے کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے درحقیقت نیکی کما رہا ہے ، اگناسٹک کے پاس یہ بنیاد نہیں ہے۔
ایک بڑھیا جو شیاطین اور جنات پر یقین رکھتی ہے، اس نے گھر میں آیت الکرسی کی تصویر ٹانک رکھی ہے، اسے یقین ہے کہ یہ آیت دافع شیاطین ہے، لیکن دوسری بڑھیا جو شیاطین و جنات پر یقین نہیں رکھتی لیکن پھر بھی گھر میں آیت الکرسی ٹانکے ہوئے ہے، تو ان دونوں میں سے منطقی فعل کس کا قرار پائے گا ؟
ایک بچے کو بتایا گیا کہ اس کے کمرے میں جو ٹیلی ویژن ہے، یہ متحرک تصویریں دکھاتا ہے، رنگ برنگی تصویریں ، چلتے پھرتے عکس، بچے نے ٹی وی کو کھولا، متحرک تصویر کی تلاش شروع کر دی، ایک ایک پرزہ چھان مارا، متحرک اور رنگ برنگی تصویریں نہ ملنے پر منہ بناتے ہوئے پوچھا کہ تصویر کہاں ہے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply