حقیقت اور مغالطہ۔۔۔ داؤد ظفر ندیم

 بعض اوقات آپ جس بات کو مغالطہ سمجھتے ہیں وہ حقیقت ہو سکتی ہے اس بات کا مجھے اندازہ نہیں تھا۔ یہ 1997 کے موسم سرما کے دن تھے جب میں رات کو پیشاپ کرنے کے لئے اٹھا تو میں نے اپنے کمرے کے دروازے پر ایک 14، 15 سال کی بچی کو بیٹھا دیکھا، تھوڑا سا غور سے دیکھنے پر مجھے اندازہ ہوا کہ اس بچی کو میں جانتا ہوں یہ ہمارے ہمسائے میں رہنے والی بچی تھی جو 1981 میں کسی وجہ سے فوت ہو گئی تھی۔ مجھے نہیں یاد کہ اس کی فوتگی کی وجہ کیا تھی۔ مگر میں نے اسے نظر انداز کیا اور لیٹرین چلا گیا۔ صبح اٹھا تو مجھے یہ بات اچھی طرح یاد تھی میں نے دیکھا کہ وہ لیٹرین کے دروازے تک میرے پیچھے آئی تھی وہ مجھے کچھ بتلانا چاہتی تھی پھر وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلی گئی، کیا یہ ممکن ہے کہ یوں کوئی مردہ شخص نظر آئے۔

میں سائنسی سوچ کا علمبردار تھا میرے لئے یہ بات ہضم کرنا مشکل تھی۔ میں نے اسے محض وہم سمجھا اور خیال کیا کہ یہ محض میرے تخیل کا قصور ہے، مگر دوسرے دن پھر یہی ماجرہ پیش آیا اور اس کے بعد یہ روزانہ کا معمول ہوگیا۔ میں نے سمجھا کہ میں کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہوں اور مجھے اپنا علاج کروانا چاہیئے مگر اس کے علاوہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جسے میں اپنی ذہنی حالت میں بیماری پر محمول کرتا۔ میں راتوں کے خواب بھول جانے والا شخص ہوں اس لئے مجھے اکثر رات کے خواب یاد نہیں رہتے، میرا خیال ہے کہ رات کا خواب محض لاشعوری وجہ سے آتا ہے۔ مگر ایک رات مجھے شدید کپکپی کے ساتھ خواب آیا۔ مجھے کوئی شخص کہہ رہا تھا کہ یا رحیم یا کریم کا ورد کیا کروں۔ میں نے صبح اٹھ کر سوچا کہ میری حالت میں کیا تغیر آرہا ہے۔ میرے اردگرد بیشتر دوست بھی ان باتوں کو نہ ماننے والے تھے۔ جب میں نے اس خواب کا ذکر کیا اور اس بچی کا ذکر کیا تو اکثر نے مذاق اڑایا اور کہا کہ میں کسی بچپن کے لاشعوری واہمے کا شکار ہوں جب میں ایک سخت مذہبی شخص تھا۔ البتہ عارف ملک ایک ایسا دوست تھا جس نے میری بات کو ذرا سنجیدہ لیا اور مشورہ دیا کہ اس میں کوئی پیغام پوشیدہ ہے مجھے اس پیغام کو جاننے کی کوشش کرنا چاہیئے۔ یہ 1998 کے مارچ کے دن تھے جب میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک قبرستان کے سامنے سے گزر رہا ہوں مجھے ایک ہیولا نے آکر پکڑ لیا ہے اور میں اس سے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ مجھے نہیں چھوڑتا، آخر میں کہتا ہوں کوئی مجھے اس سے بچنے کا طریقہ بتلا دے،خواب میں کوئی شخص بتلاتا ہے کہ میں فوری طور پر بابا فرید کی قبر پر حاضری دوں۔ صبح اٹھا تو میرے لئے یہ عجیب معاملہ تھا مگر میں ایک سخت سائنسی سوچ کے سحر میں مبتلا تھا۔ میں نے سوچا کہ میں کسی ذہنی بیماری میں مبتلاہو رہا ہوں۔ مجھے ذہنی بیماریوں سے خوف آتا تھا اور پہلے خواب پر بھی میں دوستوں کے مذاق کا نشانہ بن چکا تھا اس لئے میں نے یہ بات کسی سے نہ کی۔ یہ غالباً اپریل کے شروع کے دن تھے جب میں اپنی دو سالہ بچی سفنا کے ساتھ شہاب پورہ روڈ پر جا رہا تھا کہ اچانک ملا عبدالحکیم کے قبرستان کو دیکھ کر مجھے ایک دم عجیب سا لگا۔ یہ تو وہی قبرستان تھا جو مجھے خواب میں نظر آیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے ایک عجیب سا خوف محسوس ہوا مگر میں نے اس خوف پر قابو پالیا،اور آگے چلا گیا۔ دوسرے دن جب میں نے معمول کے مطابق اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر بٹھانے کی کوشش کی، تو اس نے انکار کردیا، اس نے کہا، بابا مینوں ڈر آئوندا اے۔ میرے لئے اس کا بدلا ہوا رویہ بڑی عجیب بات تھی کیونکہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھنے کے لئے بے قرار ہوتی تھی مگر اس نے سختی سے انکار کیا۔ کوشش کرنے پر رونے لگی اور صرف یہی کہتی رہی کہ بابا مینوں ڈر آئوندا اے ۔۔ میں ان باتوں کو کوئی معنی نہیں پہنا سکا، وہ میری مصروفیت کے دن تھے۔ میں نے ان معاملات پر توجہ نہیں دی، 19 اپریل کو مجھے معلوم ہوا کہ مری بیٹی کھیلتے ہوئے گرم دودھ میں گری ہے اسے فورا ًہسپتال لے جایا گیا۔ یہ 29 اپریل کا دن تھا جب اس نے دم توڑ دیا۔ تدفین کے سخت مراحل سے گزرنے کے بعد میں نے اپنی والدہ سے دریافت کیا کہ ہمارے پڑوس میں ایک بچی ہوتی تھی جو 1981 میں فوت ہوئی تھی والدہ نے مجھے عجیب انداز سے دیکھا اور پوچھا وہ تمہیں کیوں یاد آئی، میں نے کہا نہیں ویسے ہی پوچھا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ بھی دودھ میں جلنے سے فوت ہوئی تھی میں یہ سن کر سکتے میں رہ گیا۔ یہ وہی بچی تھی جو نصف شب کو مجھے متواتر نظر آتی رہی تھی اور مجھے کچھ بتلانے کو کوشش کرتی تھی۔ تب مجھے احساس ہوا کہ جن باتوں کو میں مغالطہ اور ذہنی اور لاشعوری خرابی سمجھتا رہا وہ حقیقت تھا۔۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply