یہ جو دھواں ہے نشاں ہے آتشِ الفت کا۔یا؟بلال شوکت آزاد

“New allies: Israel and Saudi Arabia?” (7 Nov 2017, The Jerusalem Post).

“The Israeli-Saudi  alliance  beating the drum of war?” (7 Nov 2017, Middle East Eye).

“Are we entering a new stage of the Saudi-Israeli Relationship?” (7 Nov 2017, The Algerian).

“سنی عرب ریاستوں اور اسرائیل کو ایک جیسے مسائل اور تحفظات کا سامنا ہے خطے میں ایرانی جوہری تنصیبات سے اور ایران کی بڑھتی ہوئی جنگی طاقت سے۔سابقہ وزیر دفاع موشے یالون, اسرائیل۔” (دی یروشلم پوسٹ, 7 نومبر 2017)

اوپر درج سب جلی حروف پر مبنی مشرق وسطی کے نامور اخباروں کی سرخیاں ہیں جو مورخہ 7 نومبر 2017 کو شائع ہی نہیں ہوئی بلکہ عرب دنیا میں بہت زیادہ وائرل بھی ہوئیں۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ سب آخر ایک ایسے وقت میں کیوں شروع کیا جارہا ہے جب عالم اسلام بلخصوص عرب دنیا متنزل سیاسی حالات کا شکار ہے اور امریکی اثرو رسوخ کی لپیٹ میں بری طرح پھنس رہی ہے۔سعودی عرب کی ہی بات کریں تو گزشتہ ایک ہفتے سے دنیا کو کافی کچھ دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے جیسے شاہی خاندان کے مقتدر افراد بشمول شہزادہ ولید بن طلال کو کرپشن چارجز کی بدولت حراست میں لینا اور دو شہزادوں کی دو الگ الگ حادثات میں موت کی خبر۔

دوسری طرف سعودی شاہ سلمان کے صاحبزادے ڈپٹی پرائم منسٹر اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کے ہنگامی نوعیت کے فیصلے اور ان کا ستمبر میں مبینہ خفیہ دورہ اسرائیل کافی بحث و مباحثے کی وجہ بنا ہوا ہے۔عرب دنیا میں ایک اور اہم تبدیلی لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری کا سعودیہ میں پناہ لے کر استعفی دینا بھی ہے۔ان سب باتوں کا تجزیہ کیا جائے تو کروٹ لیتی دشمنیوں اور دوستیوں کی بساط پر بہت ہی سنگین حالات نظر آتے ہیں۔

جون میں راقم اپنے ایک گہرے تجزیاتی مضمون “کہیں پہ نگاہیں, کہیں پہ نشانہ” میں بہت مفصل انداز میں سعودیہ اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی محبتوں اور بیک ڈور معاملات سے پردہ اٹھا چکا ہے۔اس سب کا باقاعدہ آغاز تب ہوا جب اس سال ریاض میں منعقدہ مسلم سربراہی کانفرنس میں نئے نامزد امریکی صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ بطور مہمان خصوصی شامل ہوئے اور نہ صرف محفل لوٹی بلکہ عربوں کی حمیت اور غیرت بمع بھاری منافع بھی لوٹ گئے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کا یہ پہلا اہم سرکاری اور غیر ملکی دورہ بھی تھا بطور صدر امریکہ اور یہاں سے بیک ٹو بیک دوسرا اہم سرکاری دورہ اسرائیل کا کیا تھا جناب نے اور تاریخ رقم کی تھی قیام اسرائیل کے بعد پہلی بار ریاض-تل ابیب فضائی پٹی استعمال کرکے۔اسی سفر کو جواز بناکر تب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی دلی اور دبی ہوئی خواہش یوں لبوں پر آئی کہ”مجھے امید ہے کہ ایک دن ایسا بھی ممکن ہوگا کہ اسرائیلی وزیراعظم تل ابیب سے ریاض پرواز کرکےجاسکے گا۔”

کیا یہ سب بیانات اور خبریں محض باتیں اور پروپیگنڈا ہی ہیں؟کیا اسرائیل کے ایسے بیانات اور خواہشات صرف دیوانے کی بڑ ہیں یا واقعی حالات اتنی تیزی سے وقوع پذیر ہورہے ہیں؟۔اسرائیلی اور غیر جانبدار عالمی میڈیا پر زور شور یہ سعودیہ اسرائیل معاشی اور اقتصادی اتحاد کی خبریں کیوں پھیلائی جارہی ہے تواتر سے۔سعودی میڈیا اور سرکاری اطلاعت و نشریات سے اب تک اس خبر کی کوئی باقاعدہ تردید یا تصدیق شائع نہیں ہوسکی کہ آیا واقعی شہزادہ محمد بن سلمان نے کوئی خفیہ اسرائیلی دورہ ستمبر میں کیا ہے کہ نہیں؟

جبکہ دوسری جانب اسرائیلی اور غیر جانبدار عرب میڈیا اس خبر کو جواز بناکر بار بار یہ بات اچھال رہا ہے کہ سعودیہ اسرائیل اتحاد ایران کی جوہری طاقت کے حصول اور شام کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر بننے جارہا ہے۔جس کو اولاً اقتصادی اور معاشی اتحاد کے طور پر شروع کیا جائے گا۔اسرائیل اس اتحاد کو قائم کرنے میں شدید دلچسپی رکھتا ہے تو قرین قیاس اور زمینی حقائق کی روشنی میں سعودیہ بھی اس سے انکاری نظر نہیں آتا۔

لیکن راقم کی اصل پریشانی باقی پاکستانی معتدل عوام کی طرح یہ اتحاد اس لیے بنا ہوا ہے کہ اگر واقع کوئی ایسا اتحاد بنا تو پاکستان کا مقام خطہ عرب میں کیا ہوگا تب جب پاکستان کی دو ڈویژن ایکٹو فورس بھی وہاں موجود ہے اور عالم اسلام کے مایہ ناز جرنیل راحیل شریف جو کہ عالم اسلام کی متحدہ افواج کے سربراہ بھی ہیں اور پاکستان کے غیر سرکاری نمائندہ بھی۔مزے کی بات یہ ہے کہ موقر افراد جو شہزادہ محمد بن سلمان کے اردگرد ہیں یہ مانتے اور کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ راحیل شریف صاحب کا اثرو رسوخ کسی بھی عربی شاہی فرد کی بانسبت بطور عجمی شہزادہ محمد اور شاہ سلمان پر بہت زیادہ ہے۔

اگر ہم دھویں کا پیچھا کریں تو جو آگ لگی اور پھیل رہی ہے خطہ عرب سے نکل کر عالم اسلام اور اقوام عالم میں وہ یہی ثابت کرتی ہے کہ واقعی سعودیہ اسرائیل اتحاد عنقریب آغازاپنے جوبن پر آنے والا اندھیرے کی چادر پھاڑ کر۔چلیں ہم تھوڑی دیر کو مان لیتے ہیں کہ سعودیہ اسرائیل اتحاد محض تجارتی اور اقتصادی افعال کو منظم اور اہم بنانے کی نیت سے ہورہا ہے تو اس اتحاد پر فلسطین کا مسئلہ کیا اثرات مرتب کرےگا؟۔آیا عربوں کے لیئے اب مسئلہ فلسطین واقعی کوئی اہمیت رکھتا ہے یا اب اس کا بھی وہی حال ہوگا جو مسئلہ کشمیر کا پاکستان نے کیا ہے؟

جیسےپاک بھارت تجارتی تعلقات اور ہمارے حکمرانوں کے ذاتی تعلقات نے مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالا ہے کیا اب اس متوقع اتحاد سے فلسطین کا مسئلہ بھی پس پشت چلا جائے گا؟۔بڑے سیانے کہتے ہیں دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ لگی ہو۔اگر اس بزرگانہ اصول کو تسلیم کرکے ہم موجودہ عرب اور اسرائیلی میڈیا کی ایسی خبروں کواہمیت دیں جو سعودی عرب اسرائیل اتحاد پر مبنی ہیں تو وہ قطعی جھوٹ یا پروپیگنڈا نہیں لگتیں۔دوسری طرف ایران کا پاکستان کے ساتھ معاملات کو بہتر کرنے کی کوشش اور پاکستانی آرمی چیف کا دورہ ایران کہیں اسی خبر کا اثر اور پیش خیمہ تو نہیں؟

خطے میں سی پیک کی بدولت پہلے ہی بہت سی تبدیلیاں آرہی ہیں کیا اندرون خانہ سعودی عرب اسرائیل اتحاد کی آڑ میں چائنہ کا تجارتی راستہ تو ہموار نہیں ہورہا اسرائیل اور سعودی عرب سے؟۔بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں لیکن سال 2017 کے آغاز سے جو بیانات اور خبریں دونوں طرف گردش کرہی ہیں وہ اتنی سخت اور گرم نہیں جتنی شاہ سلمان سے قبل رہی ہیں۔یہ بات بھی آن ریکارڈ موجود ہے کہ شاہ سلمان کو تخت پر بیٹھنے کی مبارک باد تک اسرائیل سے اعلی اعلان موصول ہوئی تھی۔

بہرحال یہ تو سیاسی و سفارتی حالات ہیں جو دنیا میں مفادات کی خاطر بدلتے رہتے ہیں۔لیکن سعودی عرب سے عالم اسلام کا رشتہ ریاستی, سیاسی یا سفارتی نہیں بلکہ مذہبی بنیادوں پر ہے۔دوسری طرف اسرائیل سے بھی عالم اسلام کی دشمنی مذہبی بنیادوں پرہے۔اس لیے اگر سعودیہ عرب کی جانب سے ایسا کوئی اتحاد قائم کیا گیا تووہ صرف عرب دنیا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ پر اثر انداز ہوگا۔اس لیے پاکستان کے مقتدر حلقوں اور عوام کو فرقہ ورانہ اور ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر بطور امت مسلمہ کے ابھرتے ہوئے ستارے کے سعودیہ کو اس سے باز رکھنے کے لیئےسفارتی و مذہبی دباؤ بنانا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب سعودیہ پر اعتراض شیعہ سنی اور عربی عجمی کے اختلاف کی آڑ میں نہیں بلکہ مسلمان امت کے طور پر اٹھیں گے۔کیا سعودیہ ایسے کسی ردعمل کے لیے تیار ہوچکا ہے یا تیار ہے؟۔کیا پاکستان کے مقتدر حلقے اس سب سے واقف اور چوکنا ہیں کہ پانامہ اور پیراڈئز کے چکر میں پھنسے بیٹھے ہیں فقط؟۔کیا واقعی اس اٹھتے دھویں کی آگ میں الفت کا ایندھن ہے یا فقط بگولہ ہے؟۔آنے والے وقت میں اس کی حقیقت کیا ہے وہ بہت جلد آشکارہ ہوجائے گی۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply