• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بیداری ملت – دسویں قسط، مؤلف/ علامہ نائینی، مترجم / اعجاز نقوی

بیداری ملت – دسویں قسط، مؤلف/ علامہ نائینی، مترجم / اعجاز نقوی

بیداری ملت – دسویں قسط،
مؤلف/ علامہ نائینی، مترجم / اعجاز نقوی

Advertisements
julia rana solicitors london

چوتھا باب:
اس باب میں ہم یہ بیان کریں گے کہ جب یہ ثابت ہوجائے کہ آمریت و شہنشاہیت کو محدود اختیارات کے حامل نظام میں تبدیل کرنا واجب ہے تو کیا اس صورت میں واحد راستہ آئینی جمہوریت (مشروطہ) ہی ہے۔ جو آزادی و برابری پر قائم ہے؟
کیا اس آئینی جمہوری نظام کو اپنانے میں کوئی شرعی رکاوٹ تو نہیں؟
ہم اس سوال کا جواب دینے سے پہلے تین اہم نکات بیان کریں گے (تاکہ جواب کو سمجھنا ممکن ہوسکے)۔
1: اسلامی حکومت صرف ملت کے سیاسی و سماجی امور پر ولایت رکھنے کا نام ہے۔ ہمارے سابقہ بیان سے آپ یہ بھی جان چکے ہیں کہ اسلام میں حکومت کے اختیارات انتہائی محدود ہیں۔
اور یہ بھی کہ حکومت کی بنیاد ملت کی عمومی مشاورت اور شرکت پر ہے۔ یعنی ضروری ہے کہ ملت کے تمام اہل عقل و دانش سے مشاورت کے لئے ایک عمومی ادارہ تشکیل دیا جائے جس کو ہم مجلس شورا یا پارلیمنٹ کہہ سکتے ہیں۔
اسلامی حکومت میں شاہی نظام کی طرح صرف درباریوں کے مشوروں تک محدود نہیں رہا جاتا۔
مشاورت کا یہ حکم قرآن مجید اور سنت نبوی(ص) سے ثابت ہے اور اسلام میں مشاورت کا یہ نظام بنو امیہ کی خلافت کے آغاز تک کسی نہ کسی صورت قائم رہا۔
قرآن مجید میں نبی خاتم (ص) کو حکم ہوا کہ “وشاورھم فی الامر” (1)
ترجمہ: اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں (ترجمہ از شیخ محسن علی نجفی)
یہ آیت نبی اکرم(ص) جیسی معصوم عن الخطا اور عقلِ کل ہستی کو مخاطب کرکے مشاورت کا حکم دے رہی ہے۔ اس خطاب سے ہی یہ واضح ہوتا ہے کہ مشورہ کس قدر ضروری ہے!
شاورھم میں “ھم” جمع کے لئے اسم ضمیر ہے، جو پوری امت کو شامل ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی (ص) کو پوری ملت سے مشاورت کا حکم دیا گیا ہے۔ البتہ اس وقت امت میں مہاجرین و انصار ہی تھے۔ سیاسی امور میں جن سے مشاورت رسول اکرم(ص) کی سیرت تھی۔
لیکن اگر یہ کہا جاتا ہے کہ اصحابِ عقل و دانش یعنی اہل حل و عقد سے مشورہ کیا جائے تو یہ نتیجہ صرف قرائن کی مدد سے نکالا جاتا ہے۔ ورنہ الفاظ کے لحاظ سے یہ آیت بڑی وضاحت سے پوری ملت کا ذکر کررہی ہے۔
اور “فی الامر” میں لفظ امر پر “ال”(2) ہے۔ جس سے عمومیت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی تمام سیاسی امور میں مشاورت ضروری ہے۔
البتہ یہ مشاور شرعی و فقہی مسائل پر نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ شرعی احکام مشورے کے حکم سے باہر ہیں۔ یعنی یہ تخصص ہے، تخصیص نہیں۔(3)
جہاں تک اس آیت “وامرھم شوری بینھم” (4) کا تعلق ہے تو یہ ذہن میں رہے کہ اس آیت سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ مشاورت واجب ہے۔ لیکن یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ مشاورت ایک بہتر و افضل عمل ہے۔
یعنی اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سماجی (اجتماعی) معاملات کو مشورہ سے ہی انجام دینا چاہئے۔
نبی مکرم (ص) کی سیرت طاہرہ جو تاریخ و سیرت کی کتابوں میں منقول ہے، اس میں یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ آپ نے ہمیشہ اپنے اصحاب کو مشورے میں شریک کیا۔ آپ فرماتے تھے۔ “اَشِیرُوا عَلَّی اَصحَابِی” میرے صحابہ مجھے مشورہ دو۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ غزوہ احد میں آپ (ص) کی اپنی رائے یہ تھے کہ مدینے میں رہ کر جنگ کی جائے۔ لیکن چونکہ صحابہ کی اکثریت نے یہ رائے دی کہ مدینے سے باہر جا کر کفار کا مقابلہ کیا جائے۔ پیغمبر اکرم(ص) نے اکثریت کی رائے کا احترام کیا۔ باوجود اس کے کہ آپ کو سخت تکلیفیں بھی اٹھانی پڑیں۔
رسالت مآب کے بعد آنیوالے ابتدائی خلفاء نے بھی یہی طریقہ اپنایا۔ صدرِ اسلام میں ہم جو غیر معمولی ترقی دیکھتے ہیں وہ عام لوگوں کو سیاسی معاملات میں شریک کرنے کا نتیجہ تھی۔
حضرت علی ابن ابی طالب (ع) نے ایک خطبے میں حکمران اور عوام کے ایک دوسرے پر حقوق گنوائے ہیں۔
یہ خطبہ آپ نے صفین میں ارشاد فرمایا، حاضرین کی تعداد کم از کم 50 ہزار بتائی جاتی ہے۔ اس خطبے کے الفاظ ہیں۔
“مجھ سے ویسی باتیں نہ کیا کرو جیسی جابر و سرکش فرمانرواؤں سے کی جاتی ہیں اور نہ مجھ سے اس طرح بچاؤ کرو جس طرح طیش کھانے والے حاکموں سے بچ بچاؤ کیا جاتا ہے۔ مجھ سے اس طرح کا میل جول نہ رکھو جس سے چاپلوسی اور خوشامد کا پہلو نکلتا ہو۔ میرے متعلق یہ گمان نہ کرو کہ میرے سامنے کوئی حق بات کہی جائے گی تو مجھے گراں گزرے گی۔ اور نہ یہ خیال کرو کہ میں یہ درخواست کروں گا کہ مجھے بڑھا چڑھا دو، کیونکہ جو اپنے سامنے حق کے کہے جانے اور عدل کے پیش کئے جانے کو بھی گراں سمجھتا ہو اُسے حق و انصاف پر عمل کرنا کہیں زیادہ دشوار ہو گا۔ تم اپنے کو حق کی بات کہنے اور عدل کا مشورہ دینے سے نہ روکو۔ (3)
ہم کہ علی ابن ابی طالب (ع) کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہوئے خود کو شیعہ علی کہتے ہیں، ہمارے لئے تو بہت ضروری ہے کہ اس کلام پہ غور کریں۔ اور اپنی ذاتی خواہشات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اس بات کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کریں کہ جنابِ امیر (ع) نے خلافت و حکومت کا رعب و دبدبہ دلوں سے کم کرنے کی کوشش کیوں کی؟ اور عام لوگوں کو آزادی فراہم کرتے ہوئے ان کوحاکمِ وقت سے جواب طلبی کرنے اور اس کو مشورہ دینے کی جرأت کیوں عطا کی؟ کیوں والی اور رعیت کے ایک دوسرے پر حقوق کا تذکرہ کیا؟ اور حضرت محمد مصطفی (ص) جیسی افضل ترین ہستی کے اس فرمان کو سامنے رکھا کہ “اَشِیرُوا عَلی اَصْحَابِی”۔
یہ سارا اہتمام کیوں کیا؟
حالانکہ آپ امام معصوم(ع)، یعنی خطاؤں سے محفوظ تھے۔ اور حق کو سمجھنے میں کسی کے محتاج نہیں تھے۔ اس کے باوجود آپ نے یہ اہتمام فرمایا کہ رعیت کو حکومتی معاملات میں مشوروں کی اجازت دی۔
اگرامام برحق (ع) ایسا اہتمام کرتے تھے تو ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ اس طرح کی حکومت قائم کریں جو کم از کم جان بوجھ کر غلطیوں کا ارتکاب نہ کرے۔
اور اگر جناب امیر (ع) نے فراعنہ و طاغوتی حاکموں کے نظام حکومت کے ساتھ ظاہری مماثلت بھی پسند نہیں کی اور حکومت کی بنیاد مشاورت اور ذمہ داری کی حفاظت اور حریت و مساوات کے اصولوں پر اس قدر تاکید کی ہے تو پھر ہمارے اوپر بھی لازم ہے کہ ہم اسلامی حکومت کی ان بنیادوں کو محفوظ کریں۔ چاہے حکمران غاصب ہی کیوں نہ ہو!
اور اگر جناب امیر (ع) صرف اپنی ملت کی تعلیم و تربیت کے لئے ان کو سکھا رہے تھے، تاکہ حکومت کے عہدیدار اور حکومتی مناصب پر فائز افراد کے لئے ایک بہترین نمونہ عمل قائم ہوجائے، تو ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنی ملت کو یہی تعلیم دیں اور اسی اسلوب پر قوم کی تربیت کریں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ مذہبی آمروں کی جماعت قرآن و سنت سے بے خبر ہے اور بجائے اس کے کہ مجلس شورا یعنی پارلیمنٹ (جو مشاورت کا قومی مرکز ہے) کو اپنی گمشدہ چیز سمجھیں، اس کو اسلام کا مخالف بنا کر پیش کررہے ہیں۔
کیا انہوں نے “امرھم شوری بینہم” کی واضح آیت پڑھی ہی نہیں یا اس کو سمجھا نہیں؟!
کہیں ایسا تو نہیں کہ انہیں یہ آئینی جمہوری نظام اپنے مفادات کے لئے خطرہ محسوس ہو رہا ہو! اس لئے اس آیت کو پسِ پشت ڈال دیا ہو، ان اہل کتاب کی طرح جن کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا کہ:
ترجمہ: “اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا گویا کہ اسے جانتے ہی نہیں۔ (5)
یہ لوگ بھی اسی طرح حکم خدا کو پس پشت ڈالنے کے مرتکب ہورہے ہیں۔
2: دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ایران کی موجودہ صورتحال (6) میں ایک تو ہم امام معصوم (ع) سے محروم ہیں، دوسرا عدالت و پرہیزگاری جیسی صفات کے حامل علماء مسند اقتدار سے دور ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ہم ایسی حالت سے دچار ہیں جو اس کے بالکل الٹ ہے۔
چونکہ حکومت کے اختیارات کو محدود کرنے پر ساری امت متفق ہے۔ بلکہ یہ دین کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ اسی طرح مشاورتی نظام کو محفوظ رکھنا بھی قرآن وسنت کی نظر میں ضروری ہے۔ بلکہ دین کے یقینی و متفقہ امور میں سے ہے۔ لیکن حکومت کو قرآن و سنت سے تجاوز کرنے سے روکنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ ایک ایسی کونسل (پارلیمنٹ) ہو جو حکومت پر نگرانی رکھے۔
اور اگر ہم امام معصوم (ع) سے محروم ہیں یا ہمیں عادل و پرہیزگار حکمران میسر نہیں تو اس صورتحال میں پارلیمنٹ ہی ایسی قوت ہے جو حکومت پر روک لگا سکتی ہے۔ جو بشری طاقت کی حدود میں رہتے ہوئے حکومت کو مشاورت کے ذریعے قرآن و سنت کی پابند رکھ سکتی ہے۔
اقتدار کی خاصیت کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ جیسی قوت کے بغیر حکومت کا مذکورہ اسلامی اصول کا پابند رہنا ناممکن ہے۔ بلکہ حکومت، پارلیمنٹ کے بغیر ایسے ہے جیسے بھیڑئیے کو بھیڑوں کی رکھوالی کے لئے چھوڑ دیا گیا ہو۔
یہ اتنا ہی ناممکن کے جتنا آگ سے ٹھنڈک پہنچنا۔
لہٰذا پارلمینٹ کا قیام ایسا واجب عمل ہے جس کی ضرورت ناقابل انکار ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ پارلیمنٹ ایک بیرونی مؤثر قوت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی داخلی مؤثر قوت (عدالت/ تقوی) اس کے علمی مرتبے اور اس کی صلاحیتوں کا حاصل ہوتی ہے۔
اس لئے پارلیمنٹ بھی صرف اسی صورت میں داخلی قوت کی جگہ لے سکتی ہے جب انتظامیہ اپنی طاقت پارلیمنٹ سے حاصل کرے اور اس کی ترجیحات کا تعین بھی پارلیمنٹ کرے۔ اور وہ پارلیمنٹ کو جوابدہ بھی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ ملت بیدار رہے اور ارباب عقل و دانش ہوشیار رہتے ہوئے لاقانونیت اور آمریت کی طاقتوں کے مقابلے کی چارہ سازی کرتے رہیں، کسی کے لئے بھی قانون کے شکنجے سے بچنا ممکن نہ ہو۔
صرف اسی صورت میں ہی حکومت قانون کی پابند اور عوام کو جوابدہ ہو سکتی ہے۔
اگر ایسا نہ ہوا تو آمرانہ اور طاغوتی طاقتیں دوبارہ سراٹھا لیں گی۔ جس کا نتیجہ ملت ایران کی خانماں بربادی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
3: تیسرا نکتہ؛
اب جبکہ آپ نے جان لیا کہ شیعہ امامیہ کے مذہب کے مطابق سربراہ مملکت کے لئے عصمت ضروری جبکہ اہل سنت کی رائے کے مطابق حاکِم کے لئے تقوی و عدالت ضروری ہے، اور ان دونوں کی غیر موجودگی میں صرف پارلیمنٹ ہی ہے جو کسی بھی اسلامی ملک کی حکومت کو آمریت میں تبدیل ہونے سے روک سکتی اور اس کو قوانین کا پابند بناسکتی ہے۔
اور آمریت سے بچنے کے لئے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
لہٰذا اب اہم کام یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے کام کرنے کا دستوری طریقہ کار یعنی آئین بنایا جائے۔ جس میں حکومت کے مختلف اداروں کے اختیارات معیَّن و مقرَّر کئے جائیں اور ان اختیارات کی تقسیم اصولِ مذہب کے مطابق کی جائے۔
کیونکہ اگر آئین نہ ہو تو حکومتی عہدیداروں کو آمرانہ رویہ اپنانے سے روکنا ایسے ہی ناممکن ہے جیسے ایک ہاتھ سے تالی بجانا یا سوئی کے ناکے سے اونٹ گزارنا ناممکن ہے۔
جس طرح عبادات اور معاملات کے شرعی مسائل میں عام لوگوں کے اعمال کو منظم کرنا توضیح المسائل (شرعی فتاوی کی کتاب) کے بغیر ممکن نہیں۔ بالکل اسی طرح سیاست میں حکومتی عہدیداروں کی ذمہ داریاں مقرر کرنا اور ان کی جواہدہی اور احتساب کا نظام بنانا آئین کے بغیر ناممکن ہے۔ کیونکہ حکومتی اختیارات کی حدود مقرر کرنا اور طاقت پر روک لگانا صرف آئین کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
اب جبکہ یہ تین بنیادی نکات واضح ہو چکے ہیں، اور آپ جان چکے ہیں کہ اسلامی حکومت کو آمریت سے بچانا اور اس کو مشاورت پر مبنی ایک ذمہ دار اور جوابدہ حکومت بنانا دو چیزوں کے بغیر ممکن نہیں، آئین اور پارلیمنٹ۔
اور ان نکات سے آپ یہ بھی جان چکے ہیں کہ پارلیمنٹ کا قیام نہ صرف اس لئے ضروری ہے کہ حکومتی عہدیداروں کو اپنی حدود کا پابند بنا کر ان کو تجاوز سے روکا جا جاسکے جیسے وقف شدہ املاک کو غاصبوں سے بچانے لئے ٹرسٹ بنایا جاتا ہے۔ بلکہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ہم نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ امام معصوم (ع) کی غیرموجودگی میں پارلیمنٹ ہی داخلی قوت کی جگہ لے سکتی ہے۔
اور اہل سنت کے مذہب کی رو سے علم و تقوی اور عدالت کی جگہ پارلیمنٹ سے ہی پُر کی جا سکتی ہے۔
اور ہم نے پہلے بیان کیا کہ پارلیمنٹ بھی صرف اسی وقت عدالت و تقویٰ کی جگہ کارآمد ہو سکتی ہے جب پارلیمنٹ، سربراہِ مملکت اور قوہ انتظامیہ پر اثر انداز ہو سکے اور اس سے جواب طلبی کر سکے۔ جس طرح داخلی قوت، انسان کے نفسی ارادے کے تابع ہوتی ہے۔
ان تمام باتوں کو بغور سمجھنے کے بعد یہ واضح ہوچکا ہے کہ اسلامی حکومت کی بنیاد دو اصولوں یعنی آزادی اور برابری پر ہے، اور یہ کہ اسلامی حکومت کا نظام اسی وقت تقویٰ و عدالت کا جانشین بن سکتا ہے جب وہ پارلیمنٹ اور آئین پر مبنی ہو۔ اور حکومتی اداروں میں اختیارات کی تقسیم موجود ہو۔
اور یہ بھی واضح ہو چکا کہ یہ تمام اصول دین اسلام سے ماخوذ ہیں۔بالخصوص شیعہ امامیہ کے نظریہ امامت کے عین مطابق ہیں۔
اور یہ بھی واضح ہو چکا کی آمریت کو آئین و پارلیمنٹ کا پابند بنائے بغیر اس کو تجاوز و ظلم سے روکنا ممکن نہیں۔
ہم اس مقام پر اس مفکِّر کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں کہ
جس نے سب سے پہلے اس بات کو سمجھا کہ ایک عادلانہ حکومت ایسی حکومت ہے جو آئین کی پابند ہو، جس کے اختیارات محدود ہوں اور جس میں مشاورت کا اہتمام کیا جائے۔ جس کی بنیاد آزادی و برابری پر ہو۔ جیسا کہ ہم نے قرآنی اصولوں اور سنت کے حوالے سے بیان کیا۔
اس مفکر نے یہ عمومی کلیہ بھی بیان کیا کہ پارلیمنٹ اور آئین ہی حکومت کی بنیادوں کو درست رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ کیونکہ عصمت اور علم و تقوی اور عدالت کی جگہ پارلیمنٹ ہی پُر کر سکتی ہے۔ مزید برآں حکومت کے اداروں میں اختیارات اور حدود کی تقسیم اور حکومتی عہدیداروں کا صرف انتظامی امور تک محدود ہو کر پارلیمنٹ کی قرار دادوں کے تابع ہونا اور پارلیمنٹ کو جوابدہ ہونا نہایت ہی ضروری ہے۔ جس طرح اس مفکر نے یہ سب بیان کیا ہے، وہ ان کے لئے باعث عزت اور ہمارے لئے باعث رشک ہے۔ (7)
حالانکہ ہمارے فقہاء نے امام معصوم(ع) کے صرف ایک فرمان “لاتنقض الیقین بالشک” (یقین کو شک سے نہ توڑو) سے بڑے دقیق و لطیف اصول اخذ کئے ہیں۔
لیکن دوسری طرف وہ شیعہ امامیہ کے بنیادی اصولوں کے تقاضوں سےبے خبر ہیں جو ہمیں دوسرے فرقوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ اور اسی غفلت و بے خبری کی وجہ سے طاغوتی آمروں کے پنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اور اس آمریت نامی بیماری کو بلائے بے درماں سمجھ رکھا ہے۔
جبکہ دوسری قوموں نے ان اصولوں کو سمجھ کر آمر حکمرانوں کی جکڑ بندیوں سے آزادی حاصل کرنے میں پہل کرلی ہے۔
اور اس بنیاد پر وہ قومیں ترقی کے زینے طے کرنے میں مصروف ہیں،ان قوموں نے اپنی ذہانت کے بل بوتے پر یہ اصول، اسلامی سیاست سے ہی اخذ کئے ہیں۔
جبکہ بطور مسلمان ہماری ملت زوال کی انتہا کو پہنچ چکی۔
اس انتہا کو پہنچنے کے بعد موجودہ دور میں ملت میں تھوڑی بہت بیداری شروع ہوچکی ہے۔ اور ہم نے اپنے ہی دین کے احکام دوسری قوموں سے بڑی عاجزی کے ساتھ سیکھنے شروع کردیئے ہیں۔ کیونکہ یہ ہمارا ہی گمشدہ اثاثہ ہیں۔
اس کے باوجود پھر بھی مذہبی آمروں میں کچھ جاہل شاہ پرست موجود ہیں جو شہنشاہیت و آمریت کے ساتھی بن کر آمر شہنشاہ کے اختیارات کو آئین کا پابند بنانے کو خلافِ اسلام قرار دیتے ہیں۔ اور شہنشاہ کو سوال و جوابدہی سے بالاتر بنا دینا چاہتے ہیں۔
اوران لوگوں نے اپنی آمریت کو قائم رکھنے اور شہنشاہیت کی گرتی دیوار کو سہارا فراہم کرنے کے لئے ایک نیا مذہب تخلیق کرلیا ہے جس کا نام انہوں نے اسلام بھی رکھ دیا ہے۔ اس مذہب کی بنیاد آمروں کو خدا کا شریکِ کار ٹھہرانے پر ہے۔ یعنی جو صفات خدائے عزوجل کی ہیں۔ ان صفات کو یہ شاہان وقت کے لئے جائز سمجھتے ہوئے ان کو انسانوں کا مالک قرار دیتے ہیں۔ زارِ روس کی طرف سے ان کو کتاب بھی مل گئی ہے – کیونکہ شیطان ایک دوسرے کو وحی کرتے ہیں – یہ کتاب آمریت کا آئین ہے اور وہ اس کو آسمان سے نازل شدہ وحی سمجھتے ہیں۔
جاری ہے۔
حواشی و حوالے:
1: سورہ آل عمران آیت 159۔
2: عرض مترجم:
عربی زبان و ادب میں “ال” کئی مقاصد کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ کہیں یہ بات کو عام کرنے کے لئے ہوتا ہے جسکو استغراق یا جنس کا “ال” کہتے ہیں تو کہیں خاص کرنے کے لئے۔جس کو معرفہ کا”ال” کہتے ہیں۔
3: تخصیص یعنی استثناء (Exception)، علامہ نائینی نے یہاں شیعہ امامیہ کے اصول فقہ میں رائج اصطلاحوں میں سے دواصطلاحوں کو ذکر کیا ہے۔ ایک تخصص دوسری تخصیص۔
تخصص کا مطلب یہ ہے کہ کوئی چیز ایک عام حکم میں شروع سے شامل ہی نہ ہو۔ جیسے یہ کہا جائے کہ “اہل علم کا احترام کرو” صاف ظاہر ہے کہ جاہل اس حکم میں شروع سے شامل ہی نہیں۔ ایسی صورت اگر کوئی استثناء لگا دے اور کہے کہ “اہل علم کا احترام کرو سوائے زید کے (جو بنابر فرض جاہل ہے) تق یہ تخصص کہلائے گا۔ اس کو “استثناءِ منقطع” بھی کہتے ہیں۔
اور تخصیص یعنی یہ کہ ایک عام حکم میں سے کسی خاص فرد کو باہر نکالنا۔ جیسے کہا جائے “اہل علم کا احترام کرو سوائے زید کے(جو بنا بر فرض عالم تو ہے لیکن فاسق ہے)، یہاں زید اہل علم میں شامل ہے۔ لیکن احترام کے حکم سے اس کو باہر نکالا گیا ہے۔ اس کو گرامر میں “استثناء متصل” کہتے ہیں۔
علامہ نائینی کہنا چاہتے ہیں کہ شرعی احکام کو مشورے سے حکم تخصیص کے طور پر باہر نہیں کیا گیا۔ بلکہ یہ تخصص کے طور پر اس حکم سے باہر ہے۔ کیونکہ شرعی احکام میں مشورہ ممکن ہی نہیں۔
3:عرض مترجم:
یہ خطبہ علامہ مفتی جعفر حسین کے ترجمہ نہج البلاغہ میں 214 نمبر پہ ہے۔ میں نے مفتی صاحب کا ترجمہ ہی یہاں نقل کیا ہے۔
خطبے کا جو حصہ علامہ نائینی نے نقل کیا ہے اس کےعربی الفاظ یہ ہیں:
فَلَا تُكَلِّمُوْنِیْ بِمَا تُكَلَّمُ بِهِ الْجَبَابِرَةُ، وَ لَا تَتَحَفَّظُوْا مِنِّیْ بِمَا یُتَحَفَّظُ بِهٖ عِنْدَ اَهْلِ الْبَادِرَةِ، وَ لَا تُخَالِطُوْنِیْ بِالْمُصَانَعَةِ، وَ لَا تَظُنُّوْا بِیَ اسْتِثْقَالًا فِیْ حَقٍّ قِیْلَ لِیْ، وَ لَا الْتِمَاسَ اِعْظَامٍ لِّنَفْسِیْ، فَاِنَّهٗ مَنِ اسْتَثْقَلَ الْحَقَّ اَنْ یُّقَالَ لَهٗۤ اَوِ الْعَدْلَ اَنْ یُّعْرَضَ عَلَیْهِ، كَانَ الْعَمَلُ بِهِمَاۤ اَثْقَلَ عَلَیْهِ.فَلَا تَكُفُّوْا عَنْ مَّقَالَةٍۭ بِحَقٍّ، اَوْ مَشُوْرَةٍۭ بِعَدْلٍ۔
4: سورہ شورى آیت 38۔
5: سورہ بقرہ آیت 101۔
6: عرض مترجم:
یہاں علامہ نائینی کا اشارہ اس صورتحال کی طرف ہے جو قاچاری شہنشاہیت کے وقت ایران کو درپیش تھی۔ چونکہ شیعہ عقیدہ کے مطابق امام برحق (عج) پردہ غیب میں ہیں۔ جبکہ اُس وقت مسندِ اقتدار پر شاہانِ قاچار قابض تھے، جن کے پاس نہ دین کا علم تھا اور نہ ان میں عدالت کی صفت تھی۔
7:عرض مترجم:
یہاں علامہ نائینی نے کوئی اشارہ نہیں دیا کہ ان کی مراد کونسا مفکر یا دانشور ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہاں علامہ آخوند خراسانی (متوفیٰ 1911ء) کی طرف اشارہ ہو۔کیونکہ آخوند خراسانی نے بڑی جرأت و شجاعت سے جمہوری اصولوں کی پاسداری کی تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply