عشق مرشد – اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی/سلیم زمان خان

کل رات کوئی ڈیڑھ بجے اچانک نظروں کے سامنے ایک پاکستانی ڈرامے کا کلپ آگیا ۔ چونکہ کامیڈی لگا تو دیکھنے لگا۔۔ اس میں ایک نقلی بابا جی بنا ہوا کسی عورت کو کسی امیر زادے سے شادی کرنے سے منع کر رہا ہوتا ہے۔۔ اور وہ انتہائی بونگیاں مارتے ہوئے اس خاتون کو متاثر کر رہا ہوتا ہے۔۔ جو کہ متاثر نہیں ہوتی اور اس خاتون کے جانے کے بعد وہ امیر زادہ اس کرائے کے بابے کی خوب بیستی بقول بابے کے ذلیل کرتا ہے۔۔ یہ کلپ جب اپنے بھانجے کو بھیجا جو کہ خود بھی ایک نجی چینل میں ایسوسی ایٹ پروڈیوسر ہے۔۔ تو اس نے بتایا کہ یہ آجکل کا مشہور مقبول ڈرامہ عشق مرشد کا ایک سین ہے ۔۔ پھر اس نے بتایا کہ وہ بھی اسے شوق سے دیکھتا ہے۔۔ اور مجھے بھی دیکھنا چاہئے۔۔ اور کچھ اسٹوری بیان کی۔ رات سے اب تک اس کی کئی کلپ اور قسطیں دیکھ کر آج شام تک بور ہو چکا ہوں۔ کیونکہ اسٹوری تو متاثر کن نہیں تھی کیونکہ بچپن سے انگریزوں اور پڑوسیوں کی اس عنوان پر بیسیوں فلمیں موجود ہیں۔ یہ ایک گھسا پٹا اسکرپٹ نئی پیکنگ میں پیش کیا جا رہا تھا۔۔ یعنی ایک امیر زادے کو جو کہ مستقبل کا ملک کا وزیر اعظم بننے کی تیاری کر رہا ہے اور ایک انتہائی ایلیٹ elite کلاس سے تعلق رکھتا ہے۔۔ جہاں تمام جرائم اور طاقت کے جوڑ اور تانے بانے ملتے ہیں ۔۔ اسے ایک متوسط گھرانے کی لڑکی سے اس کی سڑکوں پر بے لاگ لوگوں کی خدمت اور سماجی بھانڈ پن یعنی غیر ضروری out spoken ہونے سے متاثر ہو کر اس کے باپ کے دفتر میں کلرک بن کر کام کرنے چلا جاتا ہے۔۔ اور ایک غریب کی زندگی اس خاندان کے ساتھ گزارنا شروع کر دیتا ہے۔۔ جہاں نہ پنکھا ہے نہ بستر ۔۔ اور وہ اس سے تمام سودا سلف منگواتے ہیں اور باپ کا کردار جو کہ پرانے آرٹسٹ نور الحسن صاحب ادا کر رہے ہیں نجانے کچھ سالوں سے انہیں کسی نے بتا دیا ہے کہ آپ کو روحانیت کا تڑکا لگ چکا ہے لہذا آپ اگر شریف آدمی بھی بنیں گے تو روتے رہیں گے اور مایوس رہیں گے۔۔

یہاں جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ مستقبل کا ہونے والا وزیر اعظم، ایک بڑی پولیٹیکل فیملی کا رکن ، شہر کی ممتاز ترین شخصیت ۔۔ اسی شہر میں ایک لڑکی کے محلے اور اس کے باپ کے دفتر میں کلرک بن کر رہ رہا ہے۔۔ اور نہ ہمسائے ،نہ کولیگ اور نہ ہی موصوفہ کے باپ صاحب جو کہ ایک آفیسر ہیں اسے پہچاننے سے قاصر ہیں۔ اس مستقبل کے وزیر اعظم کے والد ہر لمحہ پریس کانفرنس کر رہے ہیں رپورٹرز اس کے گھر کی کھیتی ہیں لیکن کہیں سے کسی کو یہ پتہ نہیں چل رہا کہ مستقبل کا وزیر اعظم کہاں ہے ۔۔ کیونکہ گھر میں وہ یہ بتا کر غائب ہوا ہے کہ لندن جا رہا ہے اور وہ بھی لمبے پلان سے کہ اس نے گریجویشن کرنا ہے۔۔ یعنی کم زور کم 2 سال اور زیادہ سے زیادہ 4 سال اس نے اس شہر میں ہی عشق کے لئے حاصل کئے ہیں۔۔ اب کبھی یہ مستقبل کا وزیر اعظم ویٹر بن کر اپنی معشوقہ کو امپریشن دے رہا ہے۔۔ کبھی ملازم اور کبھی ایک غریب کلرک بن کر SHO کو دھمکی ۔ اور نہ پولیس اسے پہچان رہی ہے اور نہ علاقے میں اس کا کوئی وٹر۔۔ اس پر اس کا ایک کامیڈین دوست بن گیا ہے جو کبھی سبزی والا بن کر اس کی معشوقہ اور اسکے خاندان کو سبزی بیچ رہا ہے۔ کبھی ویٹر اور کبھی پیر و مرشد بن کر ۔۔ لیکن مجال ہے یہ سماجی خاتون جو کہ ہیروئین ہے ڈرامے کی اور دو ایم اے کئے ہیں اور CSs کی تیاری کر رہی ہے۔ ان تمام روپ میں نہ کامیڈین کو پہچان سکتی ہے اور نہ ہی مستقبل کے وزیر اعظم کو اوپر سے شاید ذہنی مریضہ ہے کہ عشق جو وہ مستقبل کا وزیر اعظم اس سے ہر دوسری بات پر فرما رہا ہے اسے سمجھنے سے بھی قاصر ہے۔۔ اور آنکھوں میں عجیب سے خربوزے کے رنگ کے کنٹیکٹ لینز لگا کر آنکھیں پھاڑ کر سادہ مگر ہونق بننے کی کوشش میں ایسی آنٹی لگ رہی ہے جس کو اس کے کرتوت کی وجہ سے دو بچوں کے بعد خاوند گھر سے نکال دے۔۔ اور وہ سادہ اور معصوم بن کر محلے کے چکنے لڑکے کو اعتبار دلا رہی ہو کہ وہ روٹی کو چوچی کہتی ہے۔۔ مزید برآں یہ خاتون کسی زمانے کے مشہور ڈرامے ان کہی کی شہناز شیخ کا بھولا پن اپنے چہرے اور آنکھوں میں لانے سے بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔۔ آج بھی اس ان کہی ڈرامہ میں شہناز شیخ کی آنکھوں کی سادگی اور شرارت اس ڈرامے کی روح رواں ہے۔۔ جبکہ موصوفہ کی آنکھیں جب قریب سے دکھائی جاتی ہیں تو بقول اقبال

اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم‌ناک
نہ زندگی، نہ محبّت، نہ معرفت، نہ نگاہ!

جب ڈرامے کا ہیرو غریب ہونے کی ایکٹنگ کر رہا ہوتا ہے تو شوخی اور غربت دکھاتا ہے ۔ لیکن جیسے ہی وہ اپنے لوگوں میں ہوتا ہے۔۔ ایک بیوروکریٹ اور متکبر ادا میں آجاتا ہے۔۔ میں سوچتا ہوں شاید بلاول بھٹو جو ایک ایلیٹ خاندان میں پیدا ہوا اور مستقبل کا وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھتا ہے کیا اسے جب غریب بنائیں تو اس کی حرکات کیا ایسی ہو سکتی ہیں ۔۔
جیسے روٹی کے احتجاج پر فرانس کی ملکہ نے کہا تھا کہ انہیں روٹی نہیں ملتی تو کیک کھائیں۔۔۔
ایک حقیقت سے ہٹ کر بھونڈی خیالی دنیا کا ڈرامہ جسے ایک بڑے چینل نے پروڈیوس کیا ہے۔۔ شاید یہ بات چینلز جانتے ہیں کہ ہم پاکستانی خیالی دنیا کے منافق لوگ ہیں جو حقیقت کو سمجھنا ہی نہی چاہتے۔۔ اور احمقوں کی جنت میں رہ کر خوش ہیں۔۔ کیا لڑکی کیا لڑکا کیا مرد و عورت سب ہی اس ڈرامے کے دیوانے ہیں جس کا حقیقی دنیا سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں۔۔
میں 1997 سے مختلف خواتین کے گروپس پر کام کر رہا ہوں ۔۔ یقین کریں 2005 سے لیکر ابھی تک جتنی بھی بچیاں حتی کہ 30 سالہ خواتین سے پالا پڑھ رہا ہے ان میں 90 فیصد ایسی خیالی دنیاوی زندگی میں مگن دوڑی چلی جا رہی ہیں۔۔ کئی تو ملازمت کرتے ہوئے اس قدر بے توکلی کا شکار ہیں کہ پچھلے سال ایک خاتون نے مجھ سے گلہ کیا کہ اس کی ایک کولیگ نے مختلف لوگوں سے تعلقات کی بنا پر ایک پلاٹ بھی خرید لیا ہے اور اس کے اکاؤنٹ میں اب 12 لاکھ روپے بھی ہیں اور اس کی مکمل تنخواہ بچ جاتی ہے اور ایک ہم ہیں کہ ایمانداری کی تنخواہوں کو رو رہے ہیں ۔۔ میں نے اسے کہا آپ کوشش کریں ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔۔ یہ وہ خاتون تھی جسے میں نے سیرت ،قرآن پڑھایا اور سمجھایا 6 سال تک اس کی گرومنگ کی ۔۔ آخر وہ اچھے مستقبل کی خاطر اسی راستے پر چل پڑی۔۔ ابھی چند روز قبل ایک خاتون جو کہ ایک اچھی خاصی گزٹڈ  نوکری پر ہے۔۔ اپنے ایک فلرٹ بوائے فرینڈ سے بچ کر پچھلے 6 ماہ سے سیرت کی کلاسز لے رہی تھی ۔ اور چاہتی تھیں کہ برباد ہونے سے بچ جائیں لیکن اس مرد مومن کا سوشل اسٹیٹس، شراب پارٹیاں ،اور کلب گاڑی اور گھر نے آخر اس عورت کو واپس اپنے راستے پر ڈال دیا۔۔ حالانکہ اس خاتون کو اس کی سہیلیوں ،دوستوں کولیگز، اور ناچیز نے بہت سمجھایا کہ یہاں آپ تباہ ہو جائیں گی۔۔ لیکن اس نے ایک ہائی کلاس سوسائیٹی میں قدم جمانے تھے۔۔ خیر کچھ دن ہوئے وہ پھر سے ساجن کی سہیلی ہو گئی۔۔
لڑکے جو مجھے 2005 سے مل رہے ہیں ۔۔ ان میں سے اکثر اس ڈپریشن کا شکار ہیں کہ ہم موٹر سائیکل والوں کی کیا زندگی ہے بچیاں تو سب گاڑیوں والے لے جاتے ہیں۔۔ جو بسوں پر جانے والی ہیں وہ ہی ہمارے ساتھ سیٹ ہوتی ہیں۔۔ جن کے پاس باپ کے پیسے کی گاڑیاں ہیں وہ آگے چل کر باپ کا کاروبار سنبھال لیتے ہیں یا حرام کا پیسہ ہو تو باہر پڑھنے چلے جاتے ہیں۔۔ یعنی نالی سے نکل کر دریا میں ڈبکیاں کھاتے ہیں تھک کر واپس آتے ہیں اور کسی بڑے کمپنی میں ملازم یا باپ کا کاروبار۔۔اس دوران وہ خوب خوب عیاشی اپنے باپ کے پیسے پر کرتے ہین۔ اور اس دوران ان کے غریب دوست گٹکا، چرس ، ائس پر لگ کر اپنی بے توکلی کا انتظام کرتے ہیں۔۔ باقی جو بچ جاتے ہیں وہ گریجویشن تک پیزا بوائے ،ڈلیوری بوائے، ویٹر ،کورئیر بوائے یا کال سینٹر کی نوکریاں کر کے جانو بھی پالتے ہیں اور رو دھو کر ڈھائی GPA لیکر ملک کو کوستے ہیں کہ یہاں تعلیم یافتہ بندہ ذلیل و خوار ہے۔۔
یہ سب صرف اس لئے ہو رہا ہے کہ ہمارا مین اسٹریم میڈیا لوگوں کو خیالی دنیا میں رکھے ہوئے ہے۔۔ جہاں ہر کام کا شارٹ کٹ مل جانے سے کالا شخص امیر کبیر بن جاتا ہے اور امیر کبیر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر غریب لڑکی سے کھلے عام عشق کرتا ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا۔۔ یہ سب ہمارے زمانے میں طلسماتی کہانیوں، اور طلسم ہوشربا، میں ہوا کرتا تھا۔۔ اور یہ کہانیاں اور ناول بھی ہمیں ابا سے چھپ کر پڑھنے پڑتے تھے۔۔ اس زمانے میں بستر سے ناول ،یا بستے سے ایسی کہانی کا نکل آنا اس سے زیادہ خطر ناک تھا کہ آج آپ کے موبائل میں باپ “جانی سن” کی کوئی کارستانی پکڑ لے۔۔ اور کچھ بعید نہیں آج کاباپ بیٹے سے کہے کہ ۔۔اسے مجھے فارورڈ کر دو۔۔ قومیں خیالی پلاؤ سے تباہ ہوتی ہیں۔۔ محنت کرنے والی قوموں اور نسلوں کی آنکھیں روشن اور چہرے خون کی سرخی سے دمک رہے ہوتے ہیں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مَیں تجھ کو بتاتا ہُوں، تقدیرِ اُمَم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل، طاؤس و رباب آخر
میخانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرُور اوّل، دیتے ہیں شراب آخر

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply