ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں سے ایودھیا میں شہید بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے حالیہ افتتاح نے نہ صرف ہندوستان و پاکستان کے مسلمانوں کے اندر بلکہ بین الاقوامی فورمز پر بھی ایک گرما گرم بحث کو جنم دیا ہے۔ پاکستان نے ہندوستان میں تاریخی اسلامی مقامات کے تحفظ کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے۔ آج کا میرا یہ کالم “شہید بابری مسجد” کے نام ہے، اس کالم میں ایودھیا میں موجود بابری مسجد تنازع کے تاریخی پس منظر کو اجاگر کیا گیا ہے، پاکستان کی طرف سے مسجد کی شہادت کی مذمت کو دنیا کے منصفوں کے سامنے رکھا گیا ہے۔ اور دونوں ممالک کے مابین تناؤ کو کم کرنے کے لئے چند تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں۔
ایودھیا کا رام مندر اور بابری مسجد کا تناز ع کافی پرانا ہے، یہ تنازع بنیادی طور پر مسلمانوں کی طرف سے بابری مسجد اور ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے رام مندر کے گرد گھوم رہی ہیں، بابری مسجد کو 16 ویں صدی میں مسلمان فاتح ظہیر الدین بابر نے تعمیر کیا تھا۔ ہندوستان کے انتہا پسند ہندووں کا دعویٰ ہے کہ بابری مسجد ایک متنازع مذہبی اور ثقافتی مسئلے کے مرکز میں تعمیر کی گئی ہے اور ہندو قوم پرستوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ رام کی جائے پیدائش پر تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ تنازع 1992 میں اس وقت بڑھتا گیا جب بابری مسجد کو ہندو انتہا پسندوں نے مسمار کرکے شہید کردیا تھا، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر اس اقدام پر احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ مسجد کی شہادت کی پرزور الفاظ میں مذمت کی گئی تھی۔
بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے حالیہ افتتاح کے جواب میں اقوام متحدہ کے پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے سخت مذمت کا اظہار کیا۔ انہوں نے ممبئی میں مسلم تاجروں کے گھروں پر ہونے والے حملوں اور اربوں روپے کی لاگت سے ہیکل کی تعمیر پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اقوام متحدہ کے ماتحت ادارہ کے سربراہ کو پیش کردہ احتجاجی خط میں تاریخی اسلامی مقامات کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے اور بابری مسجد کی شہادت کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
بابری مسجد کو شہید کرکے اس کی جگہ رام مندر کی غیر قانونی تعمیر انڈیا پاکستان دونوں ممالک کے لیے معاشرتی، معاشی اور سیاسی زندگی کے لئے خطرہ ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ تاریخی اسلامی مقامات کے خاتمے کا رجحان ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک خاص خطرہ ہے۔ مذہبی اداروں کی تباہی اور شہروں اور مذہبی مقامات کا نام ہندو ناموں کے نام سے منسوب کرنا مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے، پاکستان کا موقف ہے کہ اس طرح کے اقدامات ہندوستان میں مسلم برادری کی مذہبی جذبات کو مزید ٹھیس پہنچانے کا باعث بنیں گے۔
اس مذہبی مسئلے کے حل کے لیے دونوں ممالک انڈیا۔ پاکستان کو مشترکہ طور پر ایک قرارداد پر دستخط کرنا ہوگا، اس کے لئے چند تجاویز مندرجہ ذیل ہیں:
دونوں ممالک ہندوستان پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کو دور کرنے کے لیے تعمیری مکالمے کے لیے ایک میز پر بیٹھنا ہوگا۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ دونوں ممالک کے مابین پرامن مذاکرات کو آسان بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ بابری مسجد کے تنازعہ میں ایک قرارداد پر متفقہ طور پر دستخط کرنے کے لئے دونوں برادریوں کے نمائندوں کو شامل کرنے کے لئے ایک شفاف اور جامع نقطہ نظر کو اپنایا جانا چاہئے۔
مزید برآں بین الاقوامی تنظیمیں اور ادارے تاریخی بابری مسجد کے ثقافتی و مذہبی ورثے کے تحفظ اور دیگر ملکی وابستگی سے قطع نظر تاریخی مقامات کے تحفظ کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔ علاقائی یکجہتی، امن اور استحکام کو فروغ دینے کے لئے مذہبی رواداری اور تفہیم کو فروغ دینا ضروری ہے۔
ایودھیا ہندوستان میں شہید بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر نے ہندوستان اور پاکستان کے مابین کشیدگی کا باعث بنا ہے۔ دونوں ممالک کے لئے سفارتی ڈائیلاگز میں مشغول ہونا اور ایودھیا تنازع کے لئے پرامن حل تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی تعاون، اقوام متحدہ کی مداخلت اور این جی اوز ثقافتی ورثے کے تحفظ اور خطے میں ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں