اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔۔ بلال شوکت آزاد

اگر ہمیں بھی ڈالر پیارے ہوتے نا کہ شریعت محمدی ص کی تعلیمات کہ “یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ” تو ہم بھی اکیسویں گریڈ کے محقق و دانشور ہوتے ،جو کبھی مومنوں کو دجال کے پیٹ پر گد گدی کرکے ڈراتے, کبھی فری میسن والوں کی برادری کھنگال کر شور مچاتے, کبھی الومیناتی والوں کے ابو بفومٹ کو آنکھ مارتے, کبھی لوسیفر کو ٹانٹ کرتے, کبھی تکون اور تنہا آنکھ کا تعاقب کرتے, امریکہ و اسرائیل کو ہر دیوار کے پیچھے تلاش کرتے اور بل گیٹس کو ہر مسئلے کے لیے مورد الزام ٹھہراتے وغیرہ وغیرہ۔

اس آیت میں جو حکم ہے کہ “اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو” اس کے تین حصے یا شرائط ہیں ،مطلب پہلے تو شرط لاگو ہوتی ہے ،ایمان والا ہونے کا  مطلب اللہ و رسول ص کی تعلیمات پر کامل ایمان اور یہ بھروسہ کہ بغیر اللہ کی مرضی سے ایک پتّا بھی نہیں ہلتا، جبکہ آپ ص اللہ کے وہ رسول ص ہیں، جن پر نبوت و شریعت کا اختتام ہوا اور دوسری شرط یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو مطلب پوری کائنات میں مطلق اللہ کی ہی ذات ہے جس سے ڈرایا جائے اور جس سے ڈرا جائے ،باقی سب باطل صرف خاتمے کے لیے ہیں، ناکہ ڈرنے کے لیے اور تیسری سب سے اہم شرط یہ ہے کہ سیدھی بات کہو، مطلب وہی بات کہو ،جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تحت سیدھی ہو یعنی وہ باتیں مت کرو جنہیں ثابت کرنے کے لیے خوامخواہ کی کہانیاں اور اشارے گھڑنے پڑیں ،بلکہ وہ بات کرو جو سیدھی, سچی, ثابت شدہ یا مدلل ہو مکمل حوالہ جات کے ساتھ۔

سازشیں یا سازشی تھیوریاں اس زمانے کی ایجاد و دریافت نہیں بلکہ یہ بنی آدم میں اوّلین روز سے ساتھ آئی ہیں، اور ان کے پیچھے ہمیشہ ابلیس ہی موجود رہا ہے جس کا واحد مقصد انسان کو ڈرانا اور بہکانا ہے تاکہ انسان ڈر اور بہک کر شیطان کا راستہ چن لے کیونکہ شیطان کے پاس انسان کو بہکانے والے خوشنما دعوے اور کہانیاں دراصل اور درحقیقت بدنما اور بدتر کہانیاں اور دعوے ہیں۔

یہ جو احباب خبردرار ہوشیار, کانفیڈنشل معلومات, ٹاپ سیکرٹ ریویلڈ اور بریکنگ نیوز و جدید تحقیق جیسے الفاظ کا سہارہ لیکر دانشوری بگھارتے اور معصوم عوام کا ذہن منتشر و متنفر کرتے ہیں, ڈراتے اور بہکاتے ہیں دراصل یہی وہ دجلے اور شیاطین ہیں جو درحقیقت ابلیس کی ذریت ہیں اور اسکی تقلید میں انسانوں کا جینا دوبھر کرتے ہیں۔

جانتے ہیں جاننا ایک نعمت ہے لیکن حد سے زیادہ جاننا ایک زحمت, وبال جان اور سادہ لفظوں میں عذاب الہی کو دعوت ہے جیسا کہ ابلیس حد سے زیادہ جان کر اللہ کے غضب کا شکار ہوا اور راندہ درگاہ ہوکر قیامت تک دنیا میں پھینک دیا گیا۔

اوور نالجڈ, اوور ایفیشنٹ اور اوور ایموشنل پرسن کو دنیا کے کسی ادارے بالخصوص سرکاری و عسکری ادارے میں بھرتی نہیں کیا جاتا۔

میں تین ایسے اشخاص کو ذاتی حیثیت میں جانتا ہوں جو پاکستان میں کمیشنڈ حاصل کرنے کی خاطر متعلقہ اداروں میں شارٹ لسٹڈ ہوئے پر تمام مراحل بخوبی طے کرنے کے بعد آخری اور فائنل انٹرویو میں فیل ہوگئے۔

وجہ؟

وجہ ان کا اوور نالجڈ, اوور ایفیشنٹ اور اوور ایموشنل پرسن ہونا تھا لہذا فیل ہوگئے۔

ہمیں بات کرتے وقت اور بلخصوص کسی اجتماعی فورم پر کسی مخصوص موضوع پر بات کرتے وقت یاد رکھنا چاہیے کہ “یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ”۔

ڈرانا جائز ہے پر انسان کو اللہ سے ڈراؤ نا کہ انسان کو انسان سے ہی ڈرا ڈرا کر اس کو مایوسی کی جانب لے جاؤ جہاں وہ کفر و شرک کا مرتکب ہوکر شیطان کا ساتھی بن جائے اور روز آخرت جہنم کا ایندھن بن جائے۔

فتنوں کی خبرگیری اور ان سے لڑنے کا منصوبہ بنانا یا حل تلاش کرنا بھی ایک فتنہ ہی ہے کیونکہ فتنوں سے بچنے اور ان سے دور بھاگنے کا حکم تو موجود ہے پر ان سے لڑنے بھڑنے یا ان کو بزور بازو ختم کرنے کا حکم یا مشورہ کہیں نہیں پڑھا اور سنا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جو چیز ٹاپ سیکرٹ اور کانفیڈنشل ہے وہ پبلک نہیں ہوسکتی اور جو چیز پبلک ہو وہ ٹاپ سیکرٹ اور کانفیڈنشل نہیں ہوسکتی لہذا خوامخواہ ڈالر کمانے کے چکروں میں عوام کو ٹرک کی بتیاں فالو کروانا ترک کریں۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply