امریکہ اور چین کی معاشی سرد جنگ۔۔۔۔طلحہ سہیل فاروقی

امریکہ کی چینی کمپنی ہوواوے پر پابندی کے حوالے سے گزشتہ دنوں انٹرنیشنل اور سوشل میڈیا پہ بہت کچھ لکھا گیا حالانکہ اس سے پہلے امریکہ 2018  میں ایک اور بڑی چائنیز کمپنی ZTE کو اپنے ملک میں کام کرنے سے روک چکا ہےلیکن اس مرتبہ جب ہوواوے پہ یہ وقت آیا تو شورزیادہ اٹھا اس کے پس پردہ کئی  وجوہات ہیں ۔

ہوواوے تین بڑی فیلڈز (نیٹ ورک ایکوپمنٹ و سروسز ، سمارٹ فونز اور چپس مینوفیکچرنگ) میں امریکہ اور یوریپین کمپنیز کا نسبتاً  بڑا کمپیٹیٹر ہے ۔ مذکورہ بالا صرف ایک فیلڈ یعنی نیٹ ورک ڈیوائسز کی جتنی وسیع رینج ہوواوے کے پاس ہے وہ کوالٹی سے قطع نظر کسی بھی دوسری کمپنی کے پاس نہیں ہے وہ اس میدان میں بیک وقت ٹیلی کام نیٹ ورک، وان اور لین نیٹ ورکس ڈیوائسز بنانے والی کمپنیوں کے مدمقابل ہے ۔ دوسری فیلڈ یعنی سمارٹ فونز میں موبائل فونز کی تعداد کے لحاظ سے سیلز میں دوسرے نمبر پہ ہے جبکہ تیسری فیلڈ یعنی چپس مینوفیکچرنگ میں ابھی نومولود ہے ۔

اب ذرا امریکی پابندی کی طرف نظر دوڑائیں تو ہمیں اس کے محرکات جاننے کے لئے سب سے پہلے چائینہ کی اندرونی صورتحال کا ایک مرتبہ جائزہ لینا ہو گا۔ چین بدترین سینسر شپ کے حوالے سے دنیا میں جانا جاتا ہے حالیہ تمام امریکی پابندیوں سے پہلے ہی چین نے اپنے ملک میں تمام بڑی امریکی کمپنیوں بشمول گوگل سرچ انجن، گوگل میپس ، فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب وغیرہ کو بین رکھا ہوا ہے یا محدود رسائی دے رکھی ہے ۔ حتی کہ  وکی پیڈیا کو جسے پہلے ہی محدود رسائی حاصل تھی وسط مئی 2019 میں مکمل طور پہ بین کر دیا گیا ۔مزید ایک سو سے زائدبڑی کمپنیوں کی لسٹ موجود ہے جن تک رسائی چین کے لوگ پیڈ وی پی اینز کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ ایسی پابندیاں پہلے سے ہی پوری دنیا کی نظروں میں ہیں۔

اس تناظر میں دیکھا جائے  تو پوری دنیا ٹریڈ بیلنسنگ کی کوشش کرتی ہے جبکہ چین پرو ایکسپورٹ سے بھی اگلے مرحلے کا کھلاڑی ہے جس کی زد میں اگر چھوٹی اکانومی والا ملک آجاۓ تو ٹھہر بھی نہیں سکتا ۔یہاں تو مضبوط اکانومی والے ممالک کو بھی چائینہ کی سستی پراڈکٹ کی امپورٹ سے ملکی معیشت کو بچانے کے لئے پالیسی وضع کرنا پڑتی ہے۔

دوسری اہم فیلڈ سمارٹ فونزکی ہے۔ ہوواوے سمارٹ فونز بنانے والی دوسری بڑی کمپنی ہے ۔ فونز کی تعداد کے لحاظ سے ہوواوے نے ایپل کو مات دی اس کی وجہ سستے فونز متعارف کروانا ہے جبکہ تعداد میں آدھے آئی فونز بیچ کے ایپل ہوواے کمپنی کے سمارٹ فونز ڈویژن کے ریوینیو سے آٹھ سے دس گنا بڑا ریوینیو کماتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہی ہوواوے سمارٹ فون مارکیٹ میں خاصا مقبول ہوا ہے اور اس کا سب سے  زیادہ نقصان سامسنگ کے مارکیٹ شئیر پہ پڑا ہے۔ کیونکہ دونوں فونز گوگل کے ڈیزائن کردہ اوپن سورس اینڈرائیڈ پہ انحصار کرتے ہیں اس لئے اس کا ذیادہ نقصان ایپل کو نہیں ہوا (ایپل کی نمبر آف یونٹس سیلز میں تیسری پوزیشن کی وجوہات کچھ اور ہیں)

اینڈرائیڈ لائسنس کی منسوخی کے ساتھ ہوواوے کو گوگل نے ٹف ٹائم دیا ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ ہوواوے کے پاس اپنا آپریٹنگ سسٹم نہیں ہے یا بنا نہیں سکتا بلکہ کوئی بھی میڈیم لیول کی سمارٹ فون کمپنی یہ اہلیت رکھتی ہے۔ لیکن اس میں سب سے بڑا مسئلہ مقبولیت کا ہوتا ہے ۔ سامسنگ نے اپنے عروج کے دور میں Tizenنامی او ایس لانچ کر کے دیکھ لیا ہے ناکامی پہ دوبارہ اینڈرائیڈ کی طرف ہی لوٹنا پڑا ۔یہی صورتحال مائیکروسافٹ کے دنیا کے سب سے  زیادہ استعمال ہونے والے PC آپریٹنگ سسٹم windows کے ساتھ پیش آئی جب اس نے خود اور نوکیا کے ساتھ مل کر ونڈوز بیسڈ سمارٹ فونز متعارف کرواۓ بعدازاں مائکروسافٹ نے موبائل فون ڈویژن کو بند کر دیا اور نوکیا اینڈرائیڈ کی طرف لوٹ گیا۔ ہوواوے کے پاس بھی Hongmeng نامی او ایس موجود ہے جس کو وہ اپنے اگلے فونز میں دے سکتا ہے لیکن بات یہاں پھر وہی ٹائمنگ کی آجاتی ہے کہ مارکیٹ میں اینڈرائیڈ جیسا اوایس موجود ہے جس پہ ایک دہائی کے لگ بھگ پوری دنیا نے کام کر لیا ہے اس جیسی میچورٹی کو پہنچنے کے لئے بھی کئی سال درکار ہیں ۔ مزید یہ کہ اگر ایپل کا iOS اوپن سورس ہوتا تو شاید اینڈرائیڈ کو بھی یہ مقبولیت نہ ملتی یہ ٹائمنگ کی گیم ونڈوز بمقابلہ میک اوایس اور پھر گوگل کے کروم او ایس سے سمجھ آسکتی ہے ۔ گوگل کروم کو اتنے بڑے پلیٹ فارم کے باوجود فلاپ ہوتے دیکھ کر ہوواوے او ایس کے بارے میں امید کرنا کافی مشکل ہے۔ ہوواوے اپنا او ایس صرف اپنے فونز میں ہی استعمال کر کے کامیاب کروا سکے تو بڑی بات ہے چہ جائیکہ دوسرے سمارٹ فون مینوفیکچررز کو متاثر کر سکے۔

اس سب کے باوجود اینڈرائیڈ کا دوسرا بڑا کسٹمر گوگل کے ہاتھ سے چلا گیا ہے یہ نقصان تو بہرحال گوگل کو بھی ہو گا۔ علاوہ ازیں کسی نہ کسی درجے میں اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ ہوواوے کی او ایس میں کامیابی اسے مزید مضبوط بنا سکتی ہے کر امریکی او ایس کی عالمی اجارہ داری کے لئے نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن۔۔۔
ہنوز دلی دور است

تیسری اور اہم وجہ ہوواوے 5G ہے ایسا بالکل نہیں ہے کہ یہ ٹیکنالوجی صرف ہواوے کے پاس ہی ہےبلکہ یہ پیٹنٹ اونرشپ کی جنگ ہے کیونکہ ایسی تمام ٹیکنالوجیز چند ایک عالمی بینرز تلے ہی ڈیویلپ ہوتی ہیں ۔ مختلف پہلوؤں جیسے کہ ائیر انٹرفیس، سپورٹڈ چپس اور ریسیورز ، ٹرانسمییٹرز وغیرہ جیسے ہارڈوئیرز کے علاوہ ہزاروں فیچرز اور سٹینڈرڈز پہ دنیا کی ہر کمپنی اپنی اپنی ڈومین میں کام کرتی ہے مثال کے طور پہ فور جی کی سب سے ذیادہ پیٹنٹ اونر شپ LG کے پاس ہے ۔جی ہاں LG کے پاس۔ پھر کئی دوسری کمپنیز جیسے سامسنگ، کوالکم ، انٹل، ایرکسن، نوکیا، موٹورولا اور حتی کے زیڈ ٹی ای اور ہوواوے کے پاس بھی ہیں۔ ہر کمپنی کو اونرشپ کی پرسنٹیج کے لحاظ سے رائیلٹی ملتی ہے ۔ماضی میں چائینز کمپنیز کی مجموعی اونرشپ دس فیصد سے کم رہی ہے اس دفعہ صورتحال مختلف ہے گوکہ ابھی بھی امریکی اور یوریپین کمپنیز کے پاس چائینہ سے ذیادہ 5G کی پیٹنٹ اونر شپ اور ٹیکنالوجی کنٹریبیوشن کی پرسنٹیج ہے ۔ لیکن ہوواوے نے 4G کی نسبت 5G میں پیٹنٹ اونرشپ میں کافی محنت اور پیسہ خرچ کرنے بعد بحیثیت “کمپنی” دنیا کی تمام کمپنیوں کو مات دی ہے ۔ 33 فیصد سے زائد اونر شپ کے ساتھ ہوواوے پہلے جبکہ 28 فیصد کے ساتھ نوکیا دوسرے نمبر پر ہے اسی طرح ٹیکنالوجی کنٹریبیوشن میں بھی ہوواوے کی یہی پرسنٹیج ہے۔

اسی ڈومین کی ایک اور اہم چیز موڈیم یا چپ سیٹ ٹیکنالوجی ہے ۔ ہواوےکا تیارہ کردہ ملٹی موڈ موڈیم Balong 5000بھی 5G سپورٹ کرنےوالااکیلا موڈیم نہیں ہے بلکہ اس ریس میں سامسنگ Exynos modem 5100اور کوالکم X50بھی شامل ہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہوواوے کا کلیم ہے کہ اس کا ڈیزائن کردہ موڈیم نہ صرف ملٹی موڈ 5Gکو سپورٹ کرتا ہے بلکہ بیک وقت 2G,3G,4Gکو بھی سپورٹ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے جبکہ دوسری معاصر کمپنیز کو یہ دسترس ایک چپ سیٹ کے ایڈ اون کے بعد حاصل ہے۔ اس فیلڈ میں انتہائی میچور اور ایڈوانسڈ امریکی کمپنیاں جیسے کوالکم اور انٹل ہیں۔ ان میں کوالکم کی اونر شپ میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا کیونکہ key components عموما انہی امریکی کمپنیوں کے پاس ہوتے ہیں جس سے انہیں کم تعداد یا پرسنٹیج میں پیٹنٹس رکھنے کے باوجود رائیلٹی اچھی خاصی مل جاتی ہے اس کا اندازہ کوالکم کی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ 5G چپ سیٹ کی فروخت سے صرف ایپل سے رائیلٹی کی مد میں چار سے پانچ ارب ڈالر حاصل کر سکتی ہے ۔ لیکن 4G ٹیکنالوجی کی چپ سیٹ مارکیٹ کا 59 فیصد کنٹرول کرنے والی کمپنی (کوالکم) کو ایک اور کمپیٹیٹر (ہوواوے) مل جانے سے رائیلٹی میں بھلے زیادہ فرق نہ بھی پڑے لیکن سیلز بزنس میں فرق تو بہرحال پڑے گا۔

اس کے علاوہ چائینیز کمپنیز کا بزنس طریق کار، آپٹیمائزڈ سولیوشن کا معاصر کمپنیوں سے موازنہ، ٹیکنیکل پائیریسی سمیت کئی بڑے بڑے پہلو ہیں جن پہ مفصل بات کی جاسکتی ہے یہاں نیم تکنیکی گفتگو مقصود ہے تاکہ صورتحال کو کم از کم لیول پہ بھی سمجھایا جا سکے ۔ مکمل تکنیکی گفتگو کا نہ تو یہ پلیٹ فارم ہے اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت ہوتی ہے ۔سمجھنے کی بات صرف یہ ہے کہ چائینہ کے پاس کھونے کو زیادہ نہیں جبکہ امریکہ کے پاس کھونے کو بہت کچھ ہے۔ اس معاشی کولڈ وار کو اگر چائینہ ہینڈل کر گیا تو اگلی دہائی میں وہ امریکہ کی ٹیکنالوجی کے میدان میں بلاشرکت غیرے اجارہ داری اور انتہائی ڈیپ روٹڈ ترقی کے لئے خطرہ بن سکتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ:یہ تحریرطلحہ سہیل صاحب کی فیس بک وال سے کاپی کی گئی ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply