معتوب کتابیں /عاصم کلیار

جسے لکھنے میں انگلیاں قلم ہوئیں اگر وہی لکھا ہوا معتوب ٹھہرے تو جگر کو خون ہونے میں بھلا دیر ہی کیا لگتی ہے۔
مگر انسان شر ہے!
وہ جاننے اور سمجھنے کے باوجود ماننے سے انکاری ہے۔
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں وہ ملک چین کا بادشاہ تھا جو تاریخ ِ عالم کی ابتدا میں ہی اپنا نام دیکھنے کی تمنا میں مبتلا تھا۔اس نے وقائع عالمگیر لکھنے والے جمع کیے  اور تخت شاہی سے فرمان جاری کیا کہ دنیا کی تاریخ لکھنے کا کام سرانجام دو جس کی ابتدا میرے نام سے ہو۔
صاحبان قلم نے سر نگوں جواب دیا حضور لوگ جانتے ہیں کہ جناب کے تخت نشیں ہونے سے پہلے بھی دنیا کی تارخ لکھی جا چکی ہے ،بادشاہ نے یہ جواب سننے کے بعد ملک میں موجود تمام کتابوں کو نذرِ آتش اور زمین بُرد کرنے کا حکم دیا۔
مگر افسوس کہ لوگ اس بادشاہ کے نام سے اب واقف نہیں اور جن کتابوں کو اس نے زمین بُرد کرنے کا حکم دیا تھا وہ اب بھی سالانہ لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں۔
آب ِزر سے نام صرف انہی کے لکھے جاتے ہیں جو فن میں کمال پا گئے۔

عقیل عباس جعفری نے اس تالیف میں دنیا بھر کی ایک سو چالیس ایسی کتابوں کا تذکرہ کیا ہے جن کی اشاعت و طباعت پر پابندی لاگو رہی۔
عام مشاہدے کی بات ہے جس کتاب پر پابندی عائد کی جاۓ اس کو شہرت ضرور نصیب ہوتی ہے۔
انیس سو چوراسی۔از۔جارج اورویل
بدی کے پھول۔از۔بودلئیر
لیڈ چیٹرلی لور ۔ڈی۔ایچ،لارنس وغیرہ
رشدی کی کتاب پر فتوی نہ لگایا جاتا تو شاید ہی اس  کا ذکر کہیں سننے کو ملتا۔
اکرام صاحب کے گرگ شب کے علاوہ بہت کم لوگوں کو ان کے دوسرے ناول کا نام معلوم ہو گا۔
مذہبی کتابوں کا معاملہ دیگر ہے۔

ادبی نوعیت کی کتاب حکومتوں کو کیوں مجبور کرتی ہیں کہ ریاست کے اندر یا بین الاقوامی سطح پر ان کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی جاۓ۔اس سوال کے جواب میں  کئی دلیلیں دی جا سکتی ہیں۔
مگر وجہ صرف خوف ہی قرار دی جا سکتی ہے۔
مملکت میں تو کمپنی کو ایک کتاب کا سرورق بھی گراں گزرا تھا پوری کتاب کو جانے دیجیے۔۔

جعفری صاحب کی اس تالیف کتاب کا انتساب اس شخصیت کے نام ہے جنہوں نے آزادی اظہار کی محبت میں سرکاری انعام ٹھکراۓ۔ضمیر نیازی بطور صحافی اپنے کردار اور اوصاف کی وجہ سے بلند مقام رکھتے ہیں وہ آزادی صحافت کے علمبردار تھے اور ان کا یہ موقف بھی تھا کہ ہر باشعور  شہری اپنی الگ سوچ اور راۓ کا حق رکھتا ہے۔اس موضوع پر ان کی کئی کتب آج حوالے کے طور پر کام آتی ہیں۔اس طرز کی ایسی شاندار کتاب کا انتساب صرف انہی کے نام کیا جا سکتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سچ تو یہ ہے کہ جن لوگوں سے نہ ملنے کا افسوس عمر بھر رہے گا ان میں ضمیر نیازی کا نام بھی شامل ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply