• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • الیکشن 2024، ریاست اور سیاست کا کھوکھلاپن/ارشد بٹ

الیکشن 2024، ریاست اور سیاست کا کھوکھلاپن/ارشد بٹ

یہ سمجھا جاتا ہےکہ پاکستان نے سیاسی عمل کے ذریعے اور جمہوریت کے بطن سے جنم لیا تھا, مگر تاریخ کا جبر دیکھیے کہ قیام پاکستان کے بعد ملک میں غیر جمہوری اور آمرانہ طرز حکومت نے جڑیں پکڑنا شروع کر دیں۔ جمہوری آئین، سیاسی عمل، جمہوریت، جمہوری حقوق اور عوامی ووٹوں سے منتخب حکومت کا قیام شجر ممنوعہ قرار پایا۔ سول افسر شاہی ،جنرل ایوب خان اور جنرل یحیٰ خان نے ۱۹۷۰ تک ملک پر آمریت مسلط کیے رکھی۔ قیام پاکستان کے 23 سال بعد ۱۹۷۰ میں پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے۔ اس وقت کے مشرقی پاکستان یعنی آج کے بنگلہ دیش کے عوام نے قومی خودمختاری اور جمہوری حقوق کی علمبردار سیاسی پارٹی عوامی لیگ کو تقریبا ۹۹ فیصد مینڈیٹ دے کر اسلام آباد کے درودیوار ہلا ڈالے۔ قومی، جمہوری اورمعاشی حقوق سے محروم بنگالی عوام نے مغربی پاکستانی سول و فوجی افسر شاہی کے آمرانہ غیر جمہوری تسلط سے نجات حاصل کرتے ہوئے ایک خودمختار ریاست بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کر دیا۔ مغربی پاکستان کو پاکستان کا نام مل گیا۔ قیام پاکستان کے ۲۶ سال بعد سر زمین بے آئین کو عوامی منتخب نمائیندوں نے پہلا متفقہ ۱۹۷۳ کا جمہوری وفاقی آئین دیا، مگر ریاست کا چلن نہ بدلا۔ ایک وفاقی جمہوری آئین کے نفاذ کے باوجود ریاستی ادارے غیر جمہوری طرز اور سوچ کو ترک کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ بلآخر ۱۹۷۷ کو بھٹو کی آئینی حکومت جنرل ضیاء کے مارشل لاء سے ختم ہوئی ۔ آئین کے خالق اور پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ۱۹۷۹ میں تختہ دار پر لٹکا کر غیر جمہوری قوتوں نے آئینی و جمہوری حکومت اور سیاست کو پسپا کر دیا۔

کیا ۱۹۷۰ کے انتخابات اور انکے بعد آج تک منعقد ہونے والے انتخابات آزادانہ، شفاف او ر ریاستی اداروں کی مداخلت کے بغیر منعقد ہوتے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ۱۹۷۰ کے انتخابات آزادانہ اور ریاستی اداروں کی مداخلت سے پاک تھے۔ جنہیں ریاستی سطح پر کسی پارٹی کی حمائت یا مخالفت میں مینج کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ مگر تاریخی شواہد اور باخبر افراد کچھ اور بیان کرتے ہیں۔ ان انتخابات میں بھی عوامی لیگ، پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کے مقابلے میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں بشمول جماعت اسلامی کو جنرل یحییٰ خان سرکارکی سرپرستی کے واضع شواہد ملتے ہیں۔ مگر جنرل یحیٰ خان کی انتظامیہ نےکھلی اور ننگی دھاندلی کرنے سے پرہیز کیا۔ جس کے نتیجے میں بائیں بازو کے رجحان رکھنے والی سیاسی جماعتوں عوامی لیگ، پیپلز پارٹی اورنیشنل عوامی پارٹی نے پاکستان کے پہلے انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کی۔

اب تک ۱۹۷۰ کے انتخابات کے بعد ملک میں دس عام انتخابات منعقد ہو چکے ہیں۔ایک الیکشن ۱۹۷۷ میں بھٹو دور حکومت میں منعقد ہوئے۔ اس وقت کی متحدہ اپوزیشن نے الیکشن نتائج تسلیم نہ کرتے ہوئے دھاندلی کا الزام لگا کر متشدد تحریک چلائی تھی۔ جس کا بہانہ بنا کر جنرل ضیاء نے جولائی ۱۹۷۷ میں بھٹو کی آئینی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاءکا نفاذ کیا تھا۔ ضیاء مارشل لاء کے دوران ۱۹۸۵ میں غیر جماعتی الیکشن منعقد کرائے گئے۔ کسی سیاسی جماعت کوبطور سیاسی جماعت ان الیکشنوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی۔ ان انتخابات کو کسی صورت فری، فیئر اور آزادانہ الیکشن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جنرل ضیاء کے بعد ۱۹۸۸ کے الیکشن بھی ریاستی مداخلت کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ بے نظیر بھٹو شہید کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کو محدود کرنے کے لئے اسٹبلشمنٹ کی زیر سرپرستی مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کی قیادت میں دائیں بازوں کی سیاسی جماعتوں کا اسلامی جمہوری اتحاد کھڑا کیا گیا۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل گل حمید نے بے نظیر بھٹو شہید کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد کو منظم کرنے اور غیر قانونی ذرائع سے وسیع مالی سپورٹ فراہم کرنے کا برملا اعتراف کیا تھا۔ ایک سابق آئی ایس آئی چیف جنرل اسد درانی بھی کھلے عام عسکری اسٹبلشمنٹ کی جانب سے اسلامی جمہوری اتحاد کی پشت پناہی کرنے کی گواہی دے چکے ہیں۔یاد رہے کہ مسلم لیگ کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد اسٹبلشمنٹ کے لئے الیکشن مینجمنٹ کا ایک موثر ہتھیار تھا۔

نوے کی دہائی میں ۱۹۹۰، ۱۹۹۳ اور ۱۹۹۷ میں منعقد ہونے والے تمام انتخابات کے نتائج متنازع  بنے رہے۔ ان سب انتخابات کو غیرجانبدارانہ ، شفاف، آزادانہ اور دھاندلی سے پاک تسلیم نہیں کیا گیا۔ اسٹبلشمنٹ کے کارندے یعنی صدر اسحاق کے ذریعے جنرل ضیاء کے مسخ شدہ آئین سے حاصل صدارتی اختیارات کے تحت اسمبلیاں توڑنے اور انتخابات کو مینج کرنے کا دھندہ خوب چلا۔ نوے کی دہائی میں اسٹبلشمنٹ نے نہ عوامی مینڈیٹ تسلیم کیا اور نہ ہی منتخب پارلیمنٹ کو آئینی مدت پوری کرنے کو موقع دیا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتوں اور پارلیمنٹ کو دو تین سالوں سے زیادہ عرصہ نہیں چلنے دیا گیا۔ یہ عیاں تھا کہ جنرل ضیاء کے بعد غیر جمہوری قوتوں نے پارلیمنٹ کو اقتدار کی منتقلی کھلے دل سے قبول نہیں کی تھی۔ بالآخر اکتوبر ۱۹۹۹ کو جنرل مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کاخاتمہ کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہ ملک کی مختصر تاریخ میں فوجی جنرلوں کا اقتدار پر چوتھا ناجائز قبضہ تھا۔

جنرل مشرف نے ملک کی دونوں بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے راہنماوں بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کو جلا وطن کر دیا، جبکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے خلاف کریک ڈاون شروع کر دیا۔ ریاستی جبر کے ذریعے پی پی پی اور ن لیگ کی تو پھوڑ کی گئی۔ مائنس ٹو یعنی بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو ملک سے بے دخل کر کے فوجی انتظامیہ کے زیر سایہ ۲۰۰۲ میں عام انتخابات منعقد کرا کے جنرل مشرف نے اپنی پسند کے نتائج حاصل کر لئے تھے۔ ۱۹۸۵ اور ۲۰۰۲ کے انتخابات کو فوجی جرنیلوں اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے اور قانونی جواز فراہم کرنے کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔

بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کے مابین میثاق جمہوریت کے بعد ۲۰۰۸ اور ۲۰۱۳ میں منعقد ہونے والے انتخابات کو کسی حد تک غیرجانبدارانہ کہا جا سکتا ہے۔ ظاہراً وجہ یہ کہی جا سکتی ہے کہ ان الیکشنوں میں پی پی پی اور ن لیگ نے اقتدار تک پہنچنے کے لئے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ساز باز کرنے سے تقریباً پر ہیز کیا۔ ایسی صورت حال اسٹبلشمنٹ کے لئے ناقابل قبول تھی۔ اسٹبلشمنٹ کے کرتا دھرتا سمجھتے تھے کہ سیاسی انجیئنرنگ اور الیکشن مینجمنٹ کے بغیر ریاستی و حکومتی نظام پر اس کی گرفت کمزور پڑ جائے گی۔ اس پس منظر میں اسٹبلشمنٹ ۲۰۱۳ کے الیکشنوں سے قبل تحریک انصاف کی شکل میں ایک نئی سیاسی قوت کھڑی کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ عمران خان نے اسٹبلشمنٹ کے منصوبہ پر عمل کرتے ہوئے سیاسی قوتوں خصوصاً پی پی پی اور ن لیگ کے خلاف محاذ آرائی اور انہیں عوام کی نظروں میں بے نقاب کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔ بلآخر اسٹبلشمنٹ، عدلیہ اور پی ٹی آئی کے گٹھ جوڑ کے نتیجہ میں نواز شریف کو ۲۰۱۷ میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہو کر جیل کی ہوا کھانی پڑی۔

میاں نواز شریف کو قیدی بناکر اور نواز لیگ کی توڑ پھوڑ کرکے مقتدرہ نے اپنے نئے کٹھ پتلی عمران خان کو مسند پر بٹھانے کا راستہ ہموار کرنا شروع کر دیا تھا۔ نواز شریف کو مائنس کر کے ۲۰۱۸ کے الیکشن میں ایک بار پھر جادو کی چھڑی نے رات کی تاریکی میں معجزہ دکھایا۔ نتائج مرتب کرنے والا سسٹم بیٹھ گیا۔ کیا خوب چمتکار ہوا کہ جیتنے والے ہار گئے اور ہارنے والے جیت گئے۔ مقتدرہ کے من چاہے عمران خان کو بلآخر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان کرا دیا گیا۔ ۲۰۱۸ کے انتخابات سے قبل الیکشن انجینئرنگ، الیکشن کے دن منظم دھاندلی اور بعداز الیکشن مینجمنٹ کی بازگشت کی گونج ابھی تک فضاوں میں سنائی دیتی ہے۔

آج ایک بار پھر ملک میں نئے عام انتخابات کا بگل بج چکا ،گونج ہے۔ ۸۔ فروری ۲۰۲۴ کو عام انتخابات کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں۔ یہاں یہ دہرانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان میں انتخابات کی تاریخ جھرلو اور دھاندلی زدہ انتخابی نتائج سے عبارت رہی ہے۔ ریاستی اداروں کی سیاسی اور انتخابی عمل میں ننگی مداخلت کی داستانیں عوام کو نہیں بھولتیں۔ ایک بار پھر مائنس ون فارمولے پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔ اس بار مائنس ہونے کا قرعہ پھر ایک سابق وزیر اعظم عمران خان کے نام نکالا گیا ہے۔ سیاسی انجیئنرنگ اور پری الیکشن مینجمنٹ بڑے زوروں شوروں سے جاری ہے۔ عمران خان جیل یاترا پر بھیج دیئے گئے ہیں اور انتخابات کے لئے نااہل قرار پائے۔ ریاستی کریک ڈاؤن سے انکی جماعت پی ٹی آئی کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ الیکشن مینجمنٹ کا کمال ہے کہ الیکشن سمبل سے محروم کئے جانے کے بعد پی ٹی آئی انتخابی عمل سے باہر کر دی گئی ہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ اسٹبلشمنٹ کی پشت پناہی سے میاں نواز شریف اور آصف زرداری کو سیاسی میدان سے نکالتے نکالتے عمران خان سیاسی میدان سے خارج ہونے کے راستے کے مسافر بن چکے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج عوام سوچنے پر مجبور ہیں کہ مقتدرہ اپنی پسندکے انتخابی نتائج اور اپنے کٹھ پتلی سیاستدانوں کو ہی حکومت کی باگ ڈور کیوں پکڑانا چاہتی ہے۔ عوام کے فیصلوں کو کیوں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ عوام میں مقبول لیڈروں اور پاپولر سیاسی پارٹیوں کو کیونکر اسٹبلشمنٹ اپنا مخالف سمجھتی ہے۔ ایک مقبول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل، دوسری مقبول وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کا بیچ چوراہے بہیمانہ قتل، ایک اور مقبول وزیر اعظم نواز شریف کی جلاوطنی اور جیل یاترا، اب پھر ایک اور مقبول وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی اور عوامی قوت کی کمر توڑنے کے لئے ریاستی جبر کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اسٹبلشمنٹ عوام، عوامی فیصلوں، مقبول سیاسی جماعتوں اور لیڈروں سے خوفزدہ کیوں ہے۔ عوامی فیصلوں کو تسلیم نہ کرنا، انہیں ریاستی جبر، سیاسی انجیئنرنگ، الیکشن مینجمنٹ اور دھاندلی سے بدلنے کو کیا کہا جا سکتا ہے۔ اسے ریا ست اور سیاست کے دیوالیہ پن اور کھوکھلے پن سے تعبیر کرنے کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے۔ عوامی خواہشات، امنگوں اور فیصلوں کو کچلنے والی قوتوں کی اگرعوام تکریم و احترام کرنا چھوڑ دیں تو اسکا الزام کس پر دھرا جائے۔ عوامی فیصلوں کو غیر مشروط قبولیت اور احترام کا حق ملنے اور ریاستی اداروں کے آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہنے تک عوام اور ریاستی اداروں کے مابین باہمی اعتماد اور احترام کے رشتہ کا برقرار رکھنا مشکل نظر آتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply