تیور تو بدلے۔۔محمد اسد شاہ

تیور تو بدلے۔۔محمد اسد شاہ/ “شاہ نامہ” کے قارئین جانتے ہیں کہ یہ طالب علم اول دن سے اس حکومت کے ناقدین میں شامل ہے – جس طرح سے منتخب حکومت کو غیر مقبول بنایا گیا ، اس بزرگ سیاسی راہ نما کی تحقیر و تذلیل کی سازشیں کی گئیں جسے اس ملک کے عوام نے ایک یا دو بار نہیں ، بلکہ تین بار اپنی قیادت سونپی ، بہت سے بااختیار لوگ ان مذموم مقاصد کے لیے استعمال ہوئے ،لوگوں کے اذہان ، زبانیں ، اقلام، اور ضمائر خریدے گئے ، گالی کو فروغ دیا گیا ، ملک کے باوقار مناصب کی تذلیل کی گئی ، ہتھوڑوں کے ساتھ ایوانوں پر چڑھائی کی گئی ، مقدس دیواروں پر گندی شلواریں لٹکائی گئیں ، قومی اداروں کے اندر ڈنڈا بردار لوگوں کو پہنچایا گیا ، منتخب وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کو ذہنی ، نفسیاتی اور معاشرتی تشدد و اذیت سے دوچار رکھا گیا اور ان کے خلاف نفرت کو عوام میں فروغ دیا گیا ، ایک شخص کو مصنوعی راستوں سے مقبول بنایا گیا، جلسے اور دھرنے کروائے گئے ، اس شخص کو واحد متبادل اور آخری امید بنا کر پیش کیا گیا ۔۔ یہ سب کچھ اس پاک وطن کے روشن مستقبل کے خواب دیکھنے والے حساس اہل قلم کے لیے اذیت ناک تھا ۔

جیسے گندے پانی سے دھلے ہوئے کپڑے صاف نہیں ہوا کرتے ، سیاہی سے دیواروں پر سفیدی نہیں ہو سکتی ، جھوٹ سے سچائی کی محبت نہیں جگائی جا سکتی ، تعفن سے لباس کو معطر نہیں کیا جا سکتا ، معصیت کے رستے جنت نہیں کمائی جا سکتی ، اسی طرح گالیوں، نفرت اور جھوٹے دعوؤں کے ذریعے ایک شفاف حکومت بھی قائم نہیں ہو سکتی ، لیکن حقائق خواہ تلخ ہوں ، انھیں خندہ پیشانی سے قبول کرنا اور اچھے وقت کی امید رکھنا لازم ہے – مایوسی اللّہ کریم کے ہاں پسندیدہ نہیں ۔

عمران خان کو جس طرح سے وزیراعظم کے منصب تک پہنچایا گیا ، وہ حقیقت ساری دنیا جانتی ہے – پھر خاں صاحب نے جو بے شمار غیر حقیقی و غیر منطقی دعوے اور وعدے کیے تھے ، ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ان کے پاس تمام انتظامی شعبوں کے لیے عالمی سطح کے انتہائی قابل 200 ماہرین کی ایک زبردست ٹیم موجود ہے جو اقتدار سنبھالنے کے بعد صرف 90 دنوں میں پاکستان کو جنت بنا دے گی۔ خاں صاحب کے سرپرستوں اور شیدائیوں نے انھیں “آخری امید” قرار دیا ۔ اداکاروں ، گلوکاروں ، ڈاکٹرز ، اور دیگر شعبوں کے کئی لوگوں اور نجی اداروں کو بھی اس کام پر لگا دیا گیا کہ اس ایک شخص کا بت بنائیں۔ اس قدر جہالت ، احمقانہ سوچ ، شخصیت پرستی اور دیوانگی جان بوجھ کر پھیلائی گئی کہ اللہ  بچائے ۔ اس قدر منظم پراپیگنڈا کم از کم برصغیر کی ہزاروں سال کی معلوم تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا ، یہ کوئی معمولی بات نہیں، سیاست و معاشرت کی تاریخ جاننے والے سمجھتے ہیں کہ جب انسانوں کے کسی گروہ میں اس حد تک بت پرستی سرایت کر جائے یا کوئی طبقہ کسی واہمے کا دیوانہ ہو جائے تو اس مرض کا خاتمہ دلیل یا منطق سے کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، ایسے مریضوں کے علاج کے لیے طویل وقت چاہیے۔

مولانا فضل الرحمٰن شخصیت پرستی کی اس لہر سے نجات کے لیے “گربہ کشتن روزِ اول” کے اصول پر کام کرنا چاہتے تھے ،جب کہ میاں محمد نواز شریف ، محترمہ مریم نواز، محمود خان اچکزئی اور بعض دیگر سیاسی قائدین کی رائے یہ رہی کہ عمران خان کی قیادت میں بنی حکومت کو پورے پانچ سال آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا جائے۔

“شاہ نامہ” کے ہی گزشتہ ایک کالم میں یہ بات میں لکھ چکا ہوں کہ عمران خان کی ہوس اقتدار اور اس کے چاہنے والوں کی ذہنی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ اسے پورے پانچ سال تک بھرپور اقتدار کا موقع دیا جائے۔ اگرچہ کسی منتخب وزیراعظم کو اس ملک میں پورے پانچ سال آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا نہیں گیا ، لیکن عمران کا معاملہ بہت مختلف ہے ، یہاں جنرل ضیاء الحق ، جنرل پرویز مشرف ، جنرل ایوب خان اور جنرل یحیٰی خان کو اوسطاً دس دس سال اقتدار کے ساتھ کھل کھیلنے کا موقع ملا ، چنانچہ  عمران خان کو بھی نہ روکیں – “پورا پیج” کئی سالوں سے اس کے ساتھ ، بل کہ اس کی پشت پر کھڑا ہے ، اس کے لیے پانچ سال سے ایک منٹ بھی کم نہ کریں ، تب کہیں جا کر ایسے بہت سے نفسیاتی و ذہنی مریضوں کو یہ سوچنے کا موقع ملے گا جو تبدیلی ، واحد آپشن اور آخری امید جیسے راگ الاپتے رہے اور گلوں رنگین پٹکے ڈالے ناچتے رہے ۔انھیں یہ سوچنے کا ایک اور موقع ضرور ملنا چاہیے کہ کیا کھویا اور کیا پایا – کماد کی فصل گملے میں اگانے کی بچکانہ ضد نے ملکی سیاست ، تہذیب ، تمدن ، رواداری ، شرافت ، معیشت ، معاشرت اور صنعت و حرفت کا ستیاناس کرنے ، اور لوٹ مار میں اضافہ کے علاوہ کیا دیا ؟

لیکن اس نظام کا ایک حصہ آصف علی زرداری بھی ہیں جنھیں سندھ میں مکمل ، جب کہ سینیٹ ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بقدرِ ضرورت حصہ عطاء کیا گیا ، وہ ان مہربانوں کے ہم نوا ہیں جنھیں نواز شریف کی صورت سے بے زاری ہے ، خواہ اس بے زاری کے نتیجے میں پورا ملک آئی ایم ایف کے در کا بھکاری ، اور ہر نوجوان بے روزگار بن جائے، اس بے زاری کے پیچھے راز کیا ہے ، یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ،آصف علی زرداری اپنے “ساتھیوں” کی خواہش کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران کو ہٹانا چاہتے ہیں ، مسلم لیگ نواز میں بھی ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو اقتدار سے دوری زیادہ دیر تک برداشت کر سکتا ، شہباز اسی طبقے میں نظر آتے ہیں ہیں   اور آخر کار انھوں نے میاں صاحب کو بھی دو قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

تحریک عدم اعتماد کام یاب ہو گی یا نہیں ، اس سے ہٹ کر ایک پرلطف بات یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی دھمکی نے عمران خان کے تیور بہت تبدیل کر دیئے ہیں۔ سوچیے کہ وہ شخص جس نے نواب زادہ اعظم خان ، دلدار پرویز بھٹی اور نعیم الحق جیسے اپنے محسنوں کے جنازوں تک میں شامل ہونا پسند نہ کیا ، اس کا مزاج تحریک عدم اعتماد کی ایک دھمکی نے ہی بدل دیا، جنھیں پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کہا ، انھی کی طبیعت کا حال پوچھنے وہ ان کے گھر پہنچ گیا – مونس الٰہی کو وزیر بنا دیا – اچانک پٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم کر دیں – جس ایم کیو ایم کو دہشت گرد کہتا تھا ، اس کی قیادت سے ملنے کو بہادر آباد جائے گا – این آر او نہیں دوں گا والی پرانی گھسی پٹی کیسٹ بند کر دی – جو کہتا تھا کہ اسے اقتدار کی کوئی پروا نہیں ، اس نے باپ، ایم کیو ایم اور ق لیگ کو مزید وزارتیں دینے کا اعلان کر دیا –
تحریک عدم اعتماد منظور ہو یا نہ ہو ، عمران کے تیور تو بدلے !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply