شدّت (میموری)۔اظہر حسین بھٹی

مجھے فلمیں دیکھنے کا شروع دن سے شوق رہا ہے۔ میں فلمیں دیکھنے کے لیے راتیں بھی باہر گزار چکا ہوں۔ تب اجے ،سنیل شیٹھی وغیرہ اچھے لگتے تھے۔ اس دور میں “دل والے” بڑی مشہور ہوئی تھی۔ سپنہ اور ارُن کی جوڑی نے خوب شہرت سمیٹی تھی۔ وقت گزرتا گیا اور فلموں کی پسند بھی بدلتی گئی۔ پہلے مشہور کاسٹ کی فلموں کا انتظار رہتا تھا اور وہی دیکھتا تھا پھر کچھ بڑا ہوا تو اچھے کانٹینٹ کی تلاش میں رہنے لگا۔ اب کاسٹ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سارا فوکس صرف اچھے کانٹینٹ پر ہوتا ہے۔
میں آج کل سسپنس تھرلر، عدالتی کاروائی، پولیس کے کام ، مر-ڈ-ر سیریز والی فلمیں اور ویب سیریز شوق سے دیکھتا ہوں۔ اس کے علاوہ نہیں۔
ڈھونڈ ڈھونڈ کر لسٹ تیار کرتا ہوں اور پھر وہی فلمیں ایک ترتیب سے دیکھنی شروع کرتا ہوں۔ سب ہی اچھی لگتی ہیں لیکن بیچ میں کوئی ایک آدھ ایسی فلم دیکھ بیٹھتا ہوں جو چند دنوں کے لیے مجھے بہت اُداس کر جاتی ہے۔
مر-ڈ-ر سیریز دیکھ دیکھ کر دل سخت سا ہو گیا ہے مگر اس کے باوجود کچھ فلمیں دیکھ کر رونے لگ جاتا ہوں جن میں سے ایک حال ہی میں دیکھی جانے والی فلم “شدٌت” ہے۔ شدت ایک انڈین رومانٹک فلم ہے جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ کوئی بھی کام کریں اُس میں ایک فیکٹر شدت لے آئیں۔ پھر آپ چاہے پیار کریں یا کوئی بزنس۔
میں فلم کے اختتام سے بالکل انجان تھا۔ اگر مجھے اس کے اینڈ کا پہلے سے پتہ ہوتا تو شاید میں یہ فلم کبھی نہ دیکھتا۔ یہ فلم دیکھ کر صرف ایک ہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ کوئی کسی سے اِتنا پیار کیسے کر سکتا ہے؟
لیکن شاید سچا پیار ایسا ہی ہوتا ہے۔ اندھا ، قربانی دینے والا، مر مٹنے والا۔ جان کی پرواہ نہ کرنے والا۔ اِس فلم میں بھی ایک کردار ہے “جگی” جسے ایک ممی ڈیڈی پریکٹیکل لڑکی سے پیار ہو جاتا ہے۔ فلم کے لکھاری نے کمال لکھا ہے اور ڈائریکٹر نے بھی خوب فلمایا ہے۔ کرداروں کے اندر وہ جان ڈالی ہے جو کہ دیکھنے والوں کو ورطہ حیرت میں ڈالے رکھتی ہے۔ محبت کے کانسیپٹ کو بہت ہی پیارے اور منفرد انداز میں بتایا گیا ہے۔
فلم جیسے جیسے آگے بڑھی دل سکڑتا چلا گیا۔ دل کچھ چاہ رہا تھا مگر لکھاری کو کچھ اور قبول تھا۔ وہی ہوا جو ازل سے ہوتا آیا ہے۔ دو پیار کرنے والے نہ مل سکے اور مین کردار جگی اپنی محبوبہ سے ملے بغیر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہو گیا۔۔۔وہ مر گیا۔۔۔!
بس یہی وہ سین تھا کہ جہاں ضبط کے کھوکھلے بندھ ٹوٹ گئے اور آنکھوں نے رونا شروع کر دیا۔ میری چائے ٹھنڈی رہ گئی اور رخسار گرم ہو گئے۔ فلم نے رُلا دیا اور اب پتہ نہیں کتنے دن تک دل کو اُداس رکھے گی۔ جگی نے وہ کیا جہاں عملی کچھ نہیں ہوتا۔ جہاں کیلکولیشن زیرو ہو جاتی ہے۔ جہاں دماغ جواب دے جاتا ہے مگر محبت کا پیمانہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ محبت میں عقل کا کام بھی کیا؟ محبت عقل اور عمل سے ماورا ہوتی ہے۔ ورنہ سوہنی کچے گھڑے پہ نہ جاتی۔ کیلکولیشن اور عقل صاف بتاتی ہے کہ کچا گھڑا پانی میں نہیں جا سکتا جبکہ محبت اور محبوب سے ملنے کی تڑپ عقل کو نہ مانتے ہوئے کچے گھڑے کو ہی لیجانے پہ بضد ہوتی ہے۔
اِس فلم میں بھی وہی ہوا۔ محبت نے عقل، عمل اور حقیقت کو ماننے سے انکار کیا اور موت کو گلے لگا لیا۔
میں آخر میں یہی کہوں گا کہ یہ ایک ایسی فلم ہے کہ جس پہ آپ میرے ساتھ ساری رات بیٹھ کر بھی بات چیت کر سکتے ہیں۔ یہ فلم ہمیشہ مجھے یاد رہے گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply