• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مصباح بھائی ہماری بھی سنیں!باؤلنگ کے مسائل(قسط 3)۔۔جنید منصور

مصباح بھائی ہماری بھی سنیں!باؤلنگ کے مسائل(قسط 3)۔۔جنید منصور

گزشتہ کالموں میں بات  بیٹنگ کی بابت جاری  رہی، آج ذکر ہو جائے ہماری بالنگ کا۔ بچپن سے سنتے چلے آ  رہے ہیں کہ پاکستان  میں بالنگ ٹیلنٹ کی کوئی  کمی نہیں، اس ملک نے ہمیشہ ہی عظیم بالرز پیدا کیے ہیں، اینٹ پٹو تو ہمارے ملک میں  بالر نکل     آتا  ہے وغیرہ وغیرہ۔  یہ تمام باتیں کسی حد تک  درست بھی ہیں۔پاکستان نے  ہمیشہ ہی  مایہ ناز بالر  دنیائے  کرکٹ کو دیے جیسے وسیم اور وقار، شعیب اختر، عمران خان،  سرفراز نواز، فضل محمود  اور ایک لمبی فہرست ہے۔  مگر اس حوالے سے میں دو باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔پہلی یہ کہ وسیم اور وقار ہونس کے بعد  پاکستان نے کونسا  عظیم بالر پیدا کیا اور دوسرے ہم کب تک   اپنے ماضی کو اپنے حال پر  ترجیح دیتے رہیں گے؟۔  حقیقت حال یہ ہے کہ ہماری کرکٹ ٹیم میں فی زمانہ کوئی  عظیم بالر نہیں کھیلتا ہے اور جو ہیں انہیں عظیم بننے میں ابھی بہت وقت ہے۔ جب تک ہم اس بات  کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کریں گے ہم اپنی اس حالت زار سے باہر نہیں نکل پائیں گے۔

چلیں بات کرتے ہیں اوپنگ بالرز کی۔ اوپنگ بالرز کے لیے سب سے اہم چیز کیا ہے، ڈیڑھ سو کلو میٹر  فی گھنٹہ  کی  رفتار سے گیند کرنا یا  مخالف ٹیم کی وکٹیں حاصل کرنا۔ اگر آپ اپنے ابتدائی اوورز میں  مخالف ٹیم کی ووکٹیں حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو  بے شک آپ تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ  کی سپیڈ سے گیند کریں یا پھر تین کلو میٹر فی گھنٹا کی رفتار سے یہ چیز بے معنی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا  اس بات کا تعین ہو چکا ہے کہ ہمارے ریگولر اوپنگ بالر کون  سے ہیں؟کیا ہمارے اوپنگ بالر  مخالف ٹیم کی ابتدائی  دو سے چار وکٹیں اپنے  پہلے سپیل  میں حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ میرا جواب تو نفی میں ہے، آپ کا معلوم نہیں۔

کسی  بھی اوپنگ فاسٹ بالر کی  سب سے خطر ناک  صلاحیت  یہ ہوتی ہے کہ  وہ (کم از کم) نئی گیند کو سو ئنگ کر پائے۔ کوکا بورا گیند شروع کے پانچ یا چھ اوور سے زیادہ سوئنگ نہیں ہوتی ہے۔اگر اس کے بعد بھی کوئی بالر اس  موسم کی مدد کے بغیر سوئنگ کرتا  ہے تو  یہ اس  کی ذاتی صلاحیت ہے اور ٹیم کے لیے ایک  بے حد سود مند چیز۔سوئنگ کے علاوہ دوسری  چیز یہ ہوتی ہے کہ کوئی بالر  گیند کو سیم کرے ۔ بال پڑنے کے بعد سیم ہو کر وکٹوں کے اندر یا باہر جائے۔ کرکٹ کی زبان میں اسے ان کٹر یا آف کٹر کہتے ہیں۔  اگر کسی بالر میں  یہ دونوں خوبیاںموجود ہوں تو  وہ کسی بھی ٹیم کا ایک اثاثہ ہوتا ہے۔ گلین میگرا اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔اس کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں ، اس کی وکٹوں کی تعداد دیکھ لیں اور  سپیڈ گن سے اس کی گیند کی رفتار بھی دیکھ لیں، آپ پر سب واضح ہو جائے گا۔ ہماری موجودہ ٹیم میں کتنے ایسے بالر ہیں جو  بال کو سوئنگ اور  سیم کر سکتے ہیں۔  سوائے عامر کے، جو کبھی کبھی ایسا کرتا ہے، آپ کو کوئی بالر ایسا نہیں ملے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کوئی نیچرل چیز ہے یا اس  صلاحیت کو محنت کر کے حاصل  کیا جا سکتا ہے۔  جواب ہے دونوں باتیں ہیں۔  اور اگر آپ کے کسی بالر میں یہ صلاحیت نہیں ہے تو اس کو محنت کروائیں  تا وقتیکہ  اس کے اند ر یہ  خوبی پیدا ہو نہ جائے۔  وہی سمیولیشن والی بات ہے جس کا پچھلے  کالموں میں ذکر کر چکا ہوں۔   کلائی کی پوزیشن ، رن اپ  کا طریقہ ء کار، رن اپ کے وقت بھاگتے  ہوئے آپ کے جسم  کی رفتار اور پوزیشن،  بولنگ سٹائل، ہوا  کا رخ اور پریکٹس یہ سب فیکٹر مل کر  اس  صلاحیت کو بنانے اور پالش کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

اب بات ہو جائے ان اوپننگ  بالرز کے دو سرے  سپیل کی۔معذرت کے ساتھ ہم ابھی تک اس بات کا تعین بھی نہیں کر پائے ہیں کہ ہم نے اپنےاوپنگ بالرز کی جوڑی کو کب اور کیسےدوسرے سپیل کے لیے استعمال کرنا ہے۔کیا انہیں بتیسویں اوور  میں واپس لانا ہے جب دوسرا نیا گیند ملتا ہے یا پھرآخری دس اوورز میں جب  میچ کی اننگز اپنے اختتام کی جانب جارہی ہوتی ہے اور آنے والے  ہر بیٹسمین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ چوکے اور چھکے لگائے۔ اور اگر کوئی پہلے سے سیٹ بیٹسمین ایسے میں کریز پر موجود ہو توبالرز کے لیے مسائل میں مزید اضافہ ہی ہوتا ہےکیونکہ فی زمانہ پچز اور پلیٔنگ کنڈیشنز  دونوں بیٹسیمنوں کے لیے ہی سازگار ہوتی ہیں۔ایسے میں ان بولرز کو کیسی بالنگ کرنی ہے ، ہمارے بالرز اس بارے میں بھی کنفیوز نظر آتے ہیں۔

ایسے میں بالرز کا سب  سے اہم ہتھیار یارکر ہے۔ وسیم اور وقار کی مثال لے لیں : یارکر پر لی گئیں ان کی وکٹوں کی تعداد بھی گن  لیں اس کے بعد آپ یقینا یارکر کی افادیت کے قائل ہوجائیں گے۔شعیب اختر کے یارکرز کی فہرست بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یارکر نئے اور پرانے دونوں قسم کی گیند سے باآسانی کیا جا سکتا ہےاو ر نئی گیند سے اس میں سوئنگ ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔پرانی گیند سے بھی اسے بخوبی کیا جا سکتا ہے اور نیچرل سوئنگ ملتی ہے اگر کوئی اسے استعمال کرنے والا ہو تو۔بات اگر آخری دس اورز کی ہو تو گیند بھی استعمال شدہ ہوتی ہے۔پاکستان کے پاس کتنے ایسے بالرز ہیں جو بہترین یارکر کرتے ہیں۔ اس بات کا جواب میری جانب سے تو اتنا امید افزا نہیں، ہو سکتا ہے کہ آپ کو کوئی ایسا بالر نظر آتا ہو۔اس بات کا جواب جاننے کے لیے  اعدادو شمار اٹھا کر دیکھ لیں کہ گذشتہ تیس ون ڈے اور ٹی۔ٹونٹی میچوں میں پاکستانی بالرز نے یارکرز پر کتنی وکٹیں حاصل کی ہیں۔ایک اور مایوس کن جواب آپ کا منتظر رہے گا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر گیند یارکر کی جانی چاہیے: اس کا جواب نفی میں ہے۔”ڈیتھ اوورز” میں ” ویر ایشنز ” کام آتی ہیں۔اپنی سپیڈ کو تیز اور آہستہ کرنا، کبھی بھی اپنی اصل سپیڈ سے بال نہ کرنا ،سلو بالز کرنا ، باؤنسرز کا عمدہ استعمال کرنا اور بیچ بیچ میں نشانے کے پختہ یارکر کرنا اس بات کا جواب ہے۔ اب آپ سوچیں کیا آپ نے کسی پاکستانی بالر کو آخری اوورز میں یہ سب کرتے ہوئے دیکھا ہے،ایک اور منفی جواب آپ کا منتظر ہے۔ اگر ہم نے اب بھی انحصار صرف اور صرف سپیڈ پر کیا اور عاجز کی دی گئی تجاویز سے صرف نظر کیا تو نسیم شاہ، موسیٰ اور حسنین کا کیرٔیر زیادہ  دیر تک چلنے والا نہیں ہے۔آنے والے کا لمز میں سپن بالنگ اوردیگر مسائل پر بات ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments