عورت کا بناؤ سنگھار قدیم تہذیبوں سے جڑا ہے، یہ قریب سات ہزار برس پرانی تہذیبوں سے آثار ملتے ہیں جن میں رومی، یونانی، مصری تہذیبیں شامل ہیں، لیکن بالوں کے سنگھار میں کئی تہذیبوں میں چیزیں معدوم ہیں، چہرے کے سنگھار کے لئے بے شمار اشیاء موجود ہیں، ایسا نہیں ہے کہ بالوں کے سنگھار کو شامل نہیں رکھا گیا مگر کئی تہذیبوں میں بالوں کا خیال ضرور رکھا گیا مگر سنگھار شامل نہیں رہا۔ مسلم کیمیادان ابو القاسم الزہروی نے طب پر اپنی معروف کتاب “کتاب التصریف” جو 24 جلدوں پر مشتمل ہے، اس کی انیسویں جلد میں نے خواتین کے بناؤ سنگھار کو بیان کیا ہے، ابو القاسم کے نزدیک عورت کا بناؤ سنگھار کو طب کی کی شاخ سمجھا جانا چاہئے اور یہ خوبصورتی کی دوا ہے۔
اہل پنجاب کی تہذیب میں بناؤ سنگھار کا ایک مکمل سنگھار “پراندا”اپنی پوری تہذیبی س روایتی شکل میں موجود ہے، پراندا ایک روایتی رنگین دستکاری ہے، جسے پنجابی خواتین اپنے بالوں میں پہنتی ہیں۔ یہ نہ صرف سنگھار کا کام کرتا ہے، بلکہ خواتین کی معاشی طور پر ایک دستکاری بھی ہے، اسے مختلف کپڑوں کے ساتھ مختلف اقسام اور رنگوں میں بنایا جاتا ہے۔ پنجاب کی دیہی خواتین چونکہ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنا اور دوسرے معاشی پیشوں میں بھی تعاون کرتی تھی، اس لیے وہ چٹیا باندھتی تھیں، چٹیا کو مزید نکھار اور آرائش کے لئے پراندہ بالوں کی خوبصورتی کو بھی بڑھاتا ہے۔ نہ صرف پراندا خوبصورتی و سنگھار ہے، بلکہ پنجابی گیتوں کا ایک مرکزی محور بھی رہا ہے, جو اپنی پوری ایک روایت کے ساتھ سینکڑوں گیتوں میں شامل رہتا ہے، اہل پنجاب میں گیتوں کا جتنا تنوع ہے شائد برصغیر کی کسی قوم یا تہذیب کے پاس نہ تو گیتوں کا اتنا تنوع ہے نہ ہی ہر گیت کی تان کے ساتھ رقص موجود ہیں۔
پراندے کے لیئے پنجابی ماہیوں میں روایتی پنجابی رقص “گدا” معروف ہے، یہی پراندہ ایک لازمی عنصر ہے جو پنجابی گِدا کے روایتی رقص کے دوران خواتین پہنتی ہیں، پنجابی کا ایک مشہور گانا ہے
‘کالی تیری گٹ تے پرندا تیرا لال نی، روپ دیے رانیے پراندے نو سنبھال نی ۔۔۔
ترجمہ: لڑکی تمہاری چوٹی کالی ہے اور جس ڈوری کے ساتھ باندھنا ہے اس کا رنگ سرخ ہے۔ ارے خوبصورت لڑکی اپنا پراندا سنبھالو۔
پنجاب میں پراندے کو ایک مکمل عورت کے حسن میں معاون سنگھار سمجھا جاتا ہے، اس لئے ہر رومان و شاعری میں ایسا ممکن ہی نہیں کہ عورت کے حسن کی تعریف ہو اور اس میں پنجاب کی عورت کے پراندے کا ذکر نہ ہو۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں