کیلنڈر کا ایک اور ورق پلٹ گیا ہے۔ گھڑی پر سال کے ہندسے بدل چکے ہیں اور رسم دنیا نئے عیسوی سال کے پیغامات بھیجنے کے ذریعے نبھائی جا رہی ہے۔ سوچ رہا ہوں اگر کلینڈر کا ورق نہ پلٹتا، گھڑی کے ہندسے نہ بدلتے اور نئے سال کی مبارکیں موصول نہ ہوتیں تو کیا وقت تھم جاتا اور نئے سال کا جنم نہ ہو پاتا؟ لوگ ایک ورق پلٹ کر، پہلے سے ترتیب شدہ الگورتھم سے گھڑی کے ہندسے بدلنے اور ڈیجیٹل پیغامات کے ذریعے سمجھ رہے ہیں کہ سب بدل گیا ہے۔ ماضی گمشدہ ہو کر کسی کھنڈر کی اوٹ میں چھپ گیا ہے۔ پرلطف لمحات تو ویسے ہی رہیں گے لیکن تلخ گھڑیاں اس ماضی میں کہیں دفن ہو گئی ہیں۔ اب نیا سال آ گیا ہے اور کسی وائٹ بورڈ کی مانند سب کچھ صاف شفاف ہو چکا ہے۔ نئے سرے سے سب کچھ اس پر نقش ہو گا۔ کیا واقعی ایسا ہے کہ ہمارا ماضی اب نہیں رہے گا اور ہم کائنات میں آنے والے نئے انسان کی مانند بالکل کورے ہوں گے؟
ہندسے بدلنے کا کھیل تو روز دیکھا جا سکتا ہے جب تاریخ ایک ہندسے سے دوسرے ہندسے میں بدلتی ہے، جب پیر کی شام منگل کی صبح میں بدلتی ہے اور بدھ کی رات جمعرات کے دن کا روپ دھارتی ہے۔ بدلاؤ تو دن کے ہر ایک پہر میں واضح ہوتا ہے؛ پھر ایسا کیا نیا ہے جو سال کے ساتھ منسوب کر دیا جاتا ہے۔ ایسا کیا ہے جو لیل و نہار کے بدلنے سے نہیں آتا لیکن سال کے ہندسوں کے بدلاؤ سے واضح ہو جاتا ہے؛ کیا یہ فقط انسانی خیال ہی ہے اور ہمیشہ کی طرح اس کی ناتمام امیدوں کے تھیلے میں ایک نئی امید کا اضافہ؟
درحقیقت بدلاؤ تو وہ مصور ہے جو ہر لمحے کائنات کے کینوس پر نئے رنگ بکھیرتا ہے۔ ہر روشن دن نئی امید اور ہر سیاہ رات سابقہ کسی عمل پر پشیمانی اور اک نئے ارادے کی پختگی کا استعارہ ہوتی ہے۔ کیا ماضی اتنا بے مول ہوتا ہے کہ ایک ہندسے کے بدلنے سے اس کی اوقات اور قیمت خاک کے برابر آن ٹھہرتی ہے، جب لوگ کہتے ہیں کہ سب کچھ بھول جاؤ، نیا سال نئی بات اور نئی سوچ کو جگہ دو۔ کسی نے کہا تھا، “ہمارے تمام خیال ہماری مکمل یاداشت ہیں اور ساری یاداشت ہمارا ماضی ہے۔ ذرا غور کیجیے، ہمارے پاس مستقبل کی کوئی یاداشت نہیں کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔ حال کے اندر تو ہم فی الوقت موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام یاداشت ماضی ہے، جو ہو چکا وہ ہمیں یاد ہے اور یہی یاد ہمارا خیال ہے۔ جن تجربات و احساسات سے ہم گزر چکے ہیں وہ ہمارا ماضی ہے۔ ہم نے کہیں پڑھا، کہیں سے سنا، کہیں دیکھا، جو کچھ چکھا سونگھا، جو بھی ساری زندگی محسوس کیا وہ ہمارا تجربہ ہے، ہمارا ادراک ہے۔ یہی ہمارا ماضی ہے اور ماضی ہی ہمارا تمام تر علم ہے۔ علم اپنی حقیقت میں ماضی ہے یہی حقیقت ہے۔” کیا پھر نیا سال حقیقت کو بھلا دینے کا نام ہے؟
جب یاداشت یعنی ماضی ہی نہیں فراموش ہو سکتا تو پھر کیسے نئے سال کی فرحت بخش ہواؤں کو محسوس کیا جا سکتا ہے…کیسے ان لمحات کو بھلا کر نئے لمحات کو وجود میں لایا جا سکتا جن سے ہمارا قلبی و ذہنی تعلق ہے۔ نئے لمحات تو بہرحال جنم لیتے ہی ہیں اور ابد تک جنم لیتے رہیں گے یہ معمول کی بات ہے، لیکن جب یہ کہا جائے کہ سابقہ سب بھلا دو، نئے سال پر نئے سرے سے آغاز کرو تو احساس ہوتا ہے کہ یہ انسان کی ان امیدوں میں ایک اور امید کا اضافہ ہے جو تکمیل کے ساحل تک نہیں پہنچیں۔ یہ اس مستقبل کو کھوجنے کی آرزو ہے جسے ہم جانتے ہی نہیں۔ پس نیا سال فقط ماضی کو مزید تقویت دینے اور اپنے ادراک میں اضافے کا دوسرا نام ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں