مغربی پاکستان کی فوج نے مشرقی پاکستان کے دھوئیں میں گھرےکھنڈرات میں ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں جس کا فائدہ کمیونسٹ انتہا پسندوں کو پہنچے گا۔ لیکن یہ جاننے میں ابھی کچھ وقت لگے گا کہ مشرقی پاکستان میں کمیونسٹوں کے مختلف دھڑوں میں سے کون گوریلا جنگ میں زیادہ مضبوط ہو کر ابھرے گا۔
ماسکو نے پاکستان کے صدر جنرل ایم اے یحییٰ خان کی مذمت کے لیے سوویت کمیونسٹ پارٹی کے اخبار پراودا کو استعمال کرنے کی اجازت دے کر ایک دھڑے کی حمایت کی ہے۔ ایک اور دھڑا ہے جو ماؤنواز ہے لیکن پیکنگ نے اسے عوامی طور پر نظر انداز کر دیا ہے۔ چینی پاکستان کے مشرقی علاقے کو دبانے کے لیے یحییٰ خان کی فوج کے استعمال کی حمایت کر رہے ہیں۔یہاں کے مبصرین کے لیے مشرقی پاکستانی گوریلوں کے لیے خفیہ چینی حمایت کا شبہ کرنا قبل از وقت لگتا ہے۔ لیکن اگر جدوجہد اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک کہ بہت سے لوگ توقع کرتے ہیں، چین مدد دے کر گوریلا وں کی فتح کی را ہ ہموار کرسکتا ہے –
. فوج، جو اپنے مغربی حصے میں پاکستانی عوام کی اقلیت کی نمائندگی کرتی ہے، مغرب کے تسلط سے بچنے کی مشرقی اکثریت کی کوششوں کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ فوج مبینہ طور پر قصبوں پر فتح حاصل کر رہی ہے، لیکن یہ فتوحات محض خیالی بھی ہو سکتی ہیں۔ مبینہ طور پر مشرقی پاکستان کی متوسط طبقے کی زیادہ تر قیادت کو فوج نے گولی مار دی ہے۔ شیخ مجیب الرحمان سمیت کچھ رہنما، جن کی عوامی لیگ نے گزشتہ دسمبر میں صوبے کے 72.6 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے، زیر حراست ہیں۔اس صورتحال نے کمیونسٹ لیڈروں کے لیے اس تحریک کے اندرجگہ بنانے کے لیے درکار خلا پیدا کر دیا ہے۔
کمیونسٹ جومجیب الرحمان کے حامی وکیلوں کے گروہ سے زیادہ سخت جان ہیں مشرقی پاکستانی شہریوں پر مسلط کردہ متشدد زندگی کی وجہ سے برسوں پر محیط غیر قانونی سرگرمیوں سے حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں – لہٰذا حکومت کی دہشت گردی نے کمیونسٹوں کو یہ ثابت کرنے کا موقع فراہم کیا ہے کہ وہ گوریلا جنگ کے لیے موزوں ترین لوگوں کے طور پر زندہ رہ سکتے ہیں۔
1947 میں مشرقی پاکستان اور بھارتی ریاست مغربی بنگال کے درمیان تقسیم ہونے والا خطہ، بنگال ،ایک مضبوط کمیونسٹ روایت رکھتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقسیم کے وقت مشرقی حصے میں 10,000 کمیونسٹ موجود تھے۔تاہم، اس وقت ان کی جماعت پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور پہلے پانچ سالوں میں ان میں سے تقریباً 3000 کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔ 1950 میں جب مسلمان – ہندو فسادات حقوق شروع ہوئے تو باقی ماندہ کمیونسٹ ہندوستان چلے گئے۔یہاں رہ جانیوالے کچھ کمیونسٹوں نے عوامی نیشنل پارٹی میں پناہ لی جس کی سربراہی ایک سخت گیر کسان رہنما مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کر رہے ہیں ۔ بھاشانی اب 87 سال کے ہیں۔ اگرچہ وہ خود کمیونسٹ نہیں ہیں لیکن دیہی انقلاب کے متعلق ماوزے تنگ کے خیالات کے حامی ہیں ۔ ان کے کمیونسٹ ساتھی تین یا چار دھڑوں میں بٹ گئے۔ ان دنوں ان میں سے جن اہم لوگوں جانا جاتا ہے ان کے سربراہ محمد طحہ اور عبدالمتین ہیں۔ عمر کی چوتھی دہائی میں محمد طحہ ایک تعلیم یافتہ فرد ہیں جو ایک ممکنہ کمیونسٹ گوریلا رہنما ہیں ۔وہ گزشتہ 30 مئی تک نیشنل عوامی پارٹی کے جنرل سیکرٹری رہے جب انہوں نے بھاشانی سے علیحدگی اختیار کی۔ ان کے قریبی ساتھی بھاشانی کی کسان تحریک کرشک سمیتی کے جنرل سیکرٹری تھے۔
مشرقی پاکستان کی ماسکو کی حامی کمیونسٹ پارٹی کے ایک نامعلوم ترجمان نے پچھلے سال سوویت یونین کے زیر اثر جریدے ‘ورلڈ مارکسسٹ ریویو ‘میں ان ’’پیکنگ وادیوں ‘‘ پر تنقید کی تھی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ طحہ کو ماؤ سے متاثر مغربی بنگال کے انقلابیوں ‘نکسلائٹس ‘ کی حمایت حاصل ہے وہ ہتھیاروں اور ان کے استعمال کے لیے کوئی راہ فراہم کر سکتے ہیں – ماضی میں پیکنگ نکسلائٹس تحریک کی تعریف کرتا رہا ہے ۔ لیکن اب مشرقی پاکستان نے چینیوں کے لیے عجیب صورتحال پیدا کر دی ہے – انہوں نے یحییٰ خان کی حکومت کی بھرپور حمایت کی ہے، جو ایشیا میں ان کا اہم سفارتی دوست ہے۔ دوسری طرف، سوویت یونین مشرقی پاکستان میں خونریزی پر تنقید کرتا رہا ہے ۔ اس نے یحییٰ خان کے ساتھ اپنے موجودہ تعلقات بچانے کی بجائے مشرقی پاکستانیوں کے ساتھ مستقبل کی دوستی پر زیادہ توجہ دی ہے۔
سوویت صدر نکولائی وی پوڈگورنی نے اعلان کیا کہ مشرقی پاکستان کمیونسٹ پارٹی ،جو کہ پاکستان میں غیر قانونی ہے ۔ ماسکو میں حالیہ پارٹی کانگریس میں شرکت کر رہی ہے۔ پھر پراودا نے اس کے نامعلوم وفد کے سربراہ کی تقریر بھی شائع کی۔سوویت یونین کی تعریف کرنے کے بعد مقر رنے پاکستان کی رجعتی فوجی حکومت کے ہاتھوں ہزاروں نہتے، بے گناہ لوگوں کے قتل عام پر اپنے میزبانوں کی تشویش کا شکریہ ادا کیا۔حکومت کو کنٹرول کرنے والی پارٹی کے اخبار میں شائع کرکے اس تقریر کی باضابطہ توثیق کی گئی۔کریملن کو یہ امید ہو سکتی ہے کہ مشرقی پاکستان کے منقسم کمیونسٹوں میں سے اس کے حامی فوج کے خلاف لڑنے والی بائیں بازو کی قوتوں کی قیادت سنبھال لیں گے۔ تاہم، ماؤ نوازوں کی مستحکم حیثیت کی موجودگی میں یہ بات مشکوک لگتی ہے۔ ماؤ نوازوں کو ہندوستانی سرحد کے پار سے مدد مل سکتی ہے، جب کہ ماسکو کے حامی ہندوستانی کمیونسٹ مغربی بنگال میں بہت کم طاقت رکھتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں