کھیلنے کا ایک سا میدان /محمد اسد شاہ

ہمارا قومی کھیل ہاکی ہے، یہ جملہ لکھتے وقت میں سوچ رہا ہوں کہ شاید میں اپنے وطن کی نوجوان نسل کو حیرت کے سمندر میں دھکا دے رہا ہوں،لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے۔عالمی ساہو کاروں اور پاکستان میں موجود ان کے گماشتوں نے اس قوم کے سر پر کرکٹ کا بھوت اس شدت سے سوار کیا کہ اب ہمارے نوجوانوں کو ہاکی، فٹ بال، سکواش، کبڈی، والی بال، تیراکی اور دیگر بہت عمدہ اور صحت افزاء کھیلوں کا تعارف ہی نہ رہا۔ حال آں کہ ہاکی سمیت ان تمام کھیلوں میں پاکستان کی تاریخ عالمی و علاقائی اعزازات سے لبریز ہے- سکواش، سنوکر اور ہاکی کے ورلڈ چیمپئن بھی ہم رہ چکے ہیں۔ 1992 میں ہم بیک وقت چار کھیلوں کے عالمی چمپئن تھے، لیکن قوم کو یہ بات اس لیے یاد نہ رہی کہ کرکٹ کے علاوہ باقی کھیلوں میں ورلڈ کپ جیتنے والے کسی کپتان نے پاکستان کا وزیراعظم بننے کی کبھی ضد کی اور نہ ہی کسی نے خود کو ستر سال کی عمر تک کپتان کہلواتے رہنا لازمی سمجھا۔دنیا میں دسیوں کھیلوں کے سینکڑوں ورلڈ کپ اب تک ہو چکے ہیں جن کے جیتنے والے تقریباً تمام کپتان نارمل انسان ہی ہیں۔ وہ پوری ٹیم کی کارکردگی کو صرف اپنی ذاتی شخصی کارکردگی کبھی نہیں سمجھتے۔وہ اس ذہنی مرض میں بھی مبتلا نہیں ہوتے کہ چوں کہ وہ ورلڈ کپ جیتنے والے لمحے کپتان تھے تو پھر وہ اپنے ممالک کے تمام باقی شعبوں کے بھی کپتان ہیں اور تاحیات کپتان ہیں۔ایسے نفسیاتی مسئلے سے دوچار ہونے والی کوئی ایک آدھ شخصیت اگر کسی ملک میں سامنے آئی ہو تو اس کا نام لینا ضروری نہیں۔

ہاکی کا میچ جب شروع ہوتا ہے تو میدان میں صرف وہی کھلاڑی اترتے ہیں جو تمام قواعد و ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے کھیل کے تمام قانونی مراحل سے گزر کر آتے ہیں۔دو ٹیموں کے ان کھلاڑیوں کے علاوہ بھی بہت سے کھلاڑی باہر موجود ہوتے ہیں لیکن انھیں میدان میں اترنے کی اجازت نہیں ملتی کیوں کہ وہ مقررہ تعداد سے اضافی ہوتے ہیں،تماشائیوں کا اپنا مقام ہوتا ہے کہ انھیں میدان کے اطراف متعین مخصوص کرسیوں پر بیٹھنا اور لطف اندوز ہونا ہوتا ہے،اسی طرح میدان کے اندر موجود ریفری وغیرہ بھی کھیل کے تمام قوانین سے بہترین واقفیت رکھنے کے باوجود کھیل میں شامل نہیں ہو سکتے۔ پھر اگر کوئی کھلاڑی کھیل کے دوران کسی ضابطے کی خلاف ورزی کر دے تو اسے متنبہ کیا جاتا ہے، اور سنگین خلاف ورزی سامنے آنے پر اسے میدان سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ البتہ اس کی ٹیم کھیل جاری رکھتی ہے۔ باہر نکالا گیا کھلاڑی، اس کی ٹیم، صحافی حضرات، تجزیہ کار یا میڈیا اینکرز وغیرہ میں سے کوئی بھی کھیل کا بائیکاٹ نہیں کرتا، اور نہ ہی وہ ایسا شور مچاتے ہیں کہ ضابطے توڑنے والے کھلاڑی، ریفری، ٹیم سے باہر موجود سینکڑوں دیگر کھلاڑیوں اور تماشائیوں کو بھی “لیول پلیئنگ فیلڈ” دیا جائے اور سب کو میدان میں گھسنے اور الٹی سیدھی قلابازیاں مار کر کھیل کا ستیاناس کرنے کی اجازت دی جائے۔وجہ یہ ہے کہ کھیلوں میں تہذیب، قانون پسندی، باہمی ادب و احترام، زبان کی شائستگی، مخالف ٹیموں کے حقوق کا احترام اور کھلے دل سے شکست تسلیم کر کے آئندہ میچ تک انتظار کرنا سکھایا جاتا ہے۔ انہی اصول کی بنیاد پر کھیلوں کا حسن برقرار رہتا ہے- ان بنیادی ضوابط کے خلاف مطالبہ کرنے یا شور مچانے والوں کو شرپسند سمجھا جائے گا۔

پاکستان کے سیاسی و انتخابی میدان میں حقیقی لیول پلیئنگ فیلڈ کبھی سیاسی جماعتوں کو ملا ہی نہیں۔ اس حوالے سے خصوصاً 2011 سے 2022 تک تو ملکی تاریخ کے بدترین حالات رہے،دوسری طرف آج کل بعض لوگ جس قسم کے لیول پلیئنگ فیلڈ کا شور مچا رہے ہیں وہ سیدھے سبھاؤ کھیل کا ستیاناس کرنے والی بات ہے، یعنی تماشائیوں کو بھی میدان میں گھسنے دیا جائے، قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں کرنے والوں کو بھی میدان میں ہی کھل کھیلنے دیا جائے، ریفری کو بھی کسی مخصوص کھلاڑی کے نخرے اٹھانے پر مجبور کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ ان شور مچانے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ماضی میں ان کے بہت لاڈ اور نخرے اٹھائے گئے، ان کی خوشی کے لیے مخالف جماعتوں کو توڑا گیا، مخالفین کو قید و بند میں رکھا گیا اور جھوٹے مقدمات کے ذریعے ایسی سزائیں سنائی گئیں جو پہلے دن سے غلط نظر آ رہی تھیں اور پھر غلط ثابت بھی ہوئیں،انھیں ہمیشہ ریفری اور میڈیا کی طرف سے اندھا دھند پشت پناہی حاصل رہی، بل کہ وہ تو “لاڈلے” مشہور تھے، لیکن حالات بدلنے پر جب خود ان کے لیے کچھ مشکلات سامنے آئیں تو انھیں لیول پلیئنگ فیلڈ کی اصطلاح یاد آ گئی- جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خود انھی کی خاطر جتنی سختیاں اور ناانصافیاں دوسروں کے ساتھ رہیں، اس کا تو یہ خود تصور بھی نہیں کر سکتے ۔

اب ایسا تو نہیں ہونا چاہیے (حال آں کہ ماضی میں کسی لاڈلے کھلاڑی کے لیے اس سے بہت بڑھ کر ہوتا رہا) کہ آئین و قانون توڑ کر بعض لوگوں کو خوش کیا جائے یا سنگین مقدمات میں ملوث لوگوں کو من مرضی کی آزادیاں اور جرائم پیشہ عناصر کو سرکاری پروٹوکول دیا جائے۔
ہر کھیل کے کچھ ضوابط ہوتے ہیں جنھیں لیول پلیئنگ فیلڈ کے نام پر توڑا نہیں جا سکتا، سیاست تو پھر بہت زیادہ سنجیدہ معاملہ ہے جس سے قوموں کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے، اس کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہیں جن کی پابندی لازمی ہے،انھیں ختم کر کے تو پلیئنگ فیلڈ کو لیول نہیں کیا جا سکتا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا شور سب سے زیادہ ایک تو وہ جماعت مچا رہی ہے جو خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مسلسل جلسے کر رہی ہے، اور دوسری وہ جماعت جو 2018 سے اب تک اپنے انٹرا پارٹی الیکشن سے ہی انکار کرتی آئی ہے۔
ایک صاحب نے کہا کہ لوگوں کو کسی ایک مخصوص جماعت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے،جب وہ یہ بات کہہ رہے تھے تب وہ ایک سابق وفاقی وزیر کو خود اپنی ہی جماعت میں شمولیت پر خوش آمدید کہہ رہے تھے- یعنی ان کا اپنا عمل ان کے بیان کی تردید کر رہا تھا،یوں بھی حقائق اس پروپیگنڈا کو روزانہ جھوٹ ثابت کرتے ہیں، ہفتہ رفتہ کے ہی اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لوگ استحکام پاکستان پارٹی میں بھی شامل ہو رہے ہیں، مسلم لیگ نواز میں بھی، پیپلز پارٹی میں بھی اور تحریک انصاف کے دونو دھڑوں یعنی پرویز خٹک گروپ اور گوہر علی گروپ میں بھی- مثلآ گزشتہ تین چار دنوں میں سرفراز بگٹی، حامد سعید کاظمی اور مظہر راں پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے، عبداللطیف کھوسہ پی ٹی آئی گوہر علی گروپ میں اور ہمایوں اختر استحکام پاکستان پارٹی میں- چناں چہ یہ تو ایک سے زیادہ جماعتیں ہوئیں- نظر یہی آ رہا ہے کہ کسی ایک جماعت والا جعلی پروپیگنڈا دراصل ان لوگوں کی مجبوری ہے جن کے پاس لوگوں کو لبھانے کے لیے کوئی حقیقی بیانیہ نہیں ہے-

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply